قومی آزادی کی تحریک اور پی این اے۔۔زاہد سرفراز

5 اگست 2019 کو بھارت نے ریاست جموں کشمیر کے ایک حصے کو جبری طور اسکی خصوصی اور متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے جب اپنا مستقل حصہ بنا لیا تو 10 اگست 2019 کو راولاکوٹ کے مقام پر تمام آزادی پسندوں نے ریاست کی موجودہ صورت حال پر غور فکر کے لیے ایک مشترکہ اجلاس بلایا جس میں متفقہ طور پر ایک الائنس وجود پزیر ہوا جسکا نام پیپلز نیشنل الائنس رکھا گیا پیپلز نیشنل الائنس میں موجود سیاسی تنظیموں نے اپنے سابقہ تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس تحریک کے چند بنیادی اصول واضح کیے جو کہ درج ذیل ہیں۔ 1۔ پیپلز نیشل الائنس میں کسی بھارت یا پاکستان نواز سیاسی تنظیم کو شامل نہیں کیا جائے گا تاوقیکہ وہ اپنے سیاسی پروگرام کو ترک کر کے ریاستی خودمختاری کے پروگرام پر کاربند نہ ہو جائے۔ 2- پیپلز نیشنل الائنس کسی ایسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنے گا جس سے بھارت یا پاکستان کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کسی قسم کا سیاسی فائدہ پہنچتا ہو۔ 3- پیپلز نیشنل الائنس ریاست جموں کشمیر کی مکمل خودمختاری کے حصول کے لیے ملک گیر تحریک چلائے گا جسے مقامی اور بین الاقومی سطح پر منظم و مربوط کرتے ہوئے سات دھائیوں سے بدترین غلامی کا شکار ریاست کی مظلوم عوام کو غیر ملکی تسلط سے آزادی دلائی جائے گی۔ یہ وہ تین بنیادی ضابطے تھے جنکو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلز نیشنل الائنس نے راولپنڈی کے مقام پر 18 اگست 2019 کو منعقد ہونے والے اجلاس میں جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک چلانے کا اصولی فیصلہ کیا جسکے پہلے مرحلے میں 26 اگست 2019 کو پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے تمام ڈسٹرک ہیڈکوارٹرز میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتماع کی صورت میں احتجاج رکارڈ کروایا گیا جبکہ تحریک کے دوسرے مرحلے کے لیے 16 ستمبر 2019 کو بھمبر سے باقاعدہ طور پر عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اسی تسلسل میں بعد ازاں کوٹلی کے مقام پر 2 ستمبر 2019 کو الائنس کے اجلاس میں تحریک کے درج ذیل اہداف و مقاصد واضح کیے گئے۔ 1۔ بھارتی حکمرانوں کے جابرانہ قبضے کے خلاف ریاست کی عوامی پرتوں، پاکستان اور ہندوستان کے عوام اور دنیا بھر کے ایوانوں تک اپنی آواز پہنچانا۔ 2- بھارتی مقبوضہ ریاستی علاقوں میں کرفیو، انسانی حقوق کی پامالی اور پورے خطے کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنانے کے خلاف اپنی عوام کو منظم کرتے ہوئے جہد مسلسل کے ساتھ اس خطے کو بھارتی بربریت سے نجات دلاتے ہوئے ریاستی وحدت کو بحال کرنا۔ 3- پاکستانی مقبوضہ علاقوں (آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان) کو ملا کر ایک آزاد اور خودمختار ریاست تشکیل دینا۔ 4- ان دونوں انتظامی اکائیوں پر مشتمل اقتدار اعلی کی حامل ایک آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لانا جو ریاست کا عبوری آئین واضع کرے گی اور ہندوستانی مقبوضہ علاقوں کی آزادی تک ریاست کی قانونی اور آئینی ضرورت کو پورا کرے گی۔ 5- ان دونوں اکائیوں میں بسنے والے شہریوں کے لیے بلا امتیاز رنگ و نسل، جنس و مذہب ایک سیاسی اور معاشی ڈھانچے کا قیام عمل میں لانا جو عوامی حقوق کا ضامن ہو۔ 6- اقتدار اعلی کی مالک اس ریاست کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو مختلف معاہدات کی صورت نئے خطوط پر استوار کرنا۔ 7- آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام آبی معادنی اور دیگر قدرتی وسائل و پراجیکٹس جن سے اس وقت پاکستان مستفید ہو رہا ھے انکو ریاستی ملکیت میں لے کر پاکستان کے ساتھ نئے عمرانی معاہدات کرنا۔ یہ وہ اہداف و مقاصد ہیں جنکے حصول کے لیے 16 ستمبر 2019 کو تحریک کے دوسرے مرحلے کے لیے بھمبر سے عوامی رابطہ مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ھے جسکا اختتام 21 اکتوبر 2019 کو مظفرآباد پہنچ کر ہو گا۔ پیپلز نیشنل الائنس نے ریاستی تاریخ میں پہلی دفعہ واضح اہداف و مقاصد کے ساتھ ریاستی آزادی اور خودمختاری کی جو تحریک شروع کی ھے ایک وقت آئے گا کہ یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی لیکن بعض لوگوں کو الائنس کے حوالے سے خاصے تحفظات ہیں کیونکہ ہماری ماضی کی ریاستی سیاسی تاریخ میں آج تک قائم ہونے والے تمام الائنسز مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اگر انکی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح تو بہت سی وجوہات ہوں گی مگر ان میں دو بنیادی وجوہات ہیں جنھوں نے انکی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا ایک وجہ تو یہ تھی کہ ماضی میں قائم ہونے والے زیادہ تر الائنسز پاکستانی مقبوضہ خطوں کو آزاد سمجھتے ہوئے محض سرینگر آزاد کروانے کے لیے بنائے گے اور دوسری وجہ یہ تھی یہ تمام الائنسز اپنی گروہی سیاست کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے تو ظاہر ھے پھر انھوں نے ناکام ہی ہونا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ھے کہ پیپلز نیشنل الائنس میں ایسی کیا خاص بات ھے جو یہ طویل مدت تک چلے گا اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔ تو اسکی ایک وجہ تو یہ ھے کہ جن معروضی حالات کے تناظر میں یہ الائنس وجود میں آیا ھے وہ حالات غیر معمولی ہیں جو مزید کریٹیکل صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ دوسری بنیادی وجہ اسکا واضح بیانیہ ھے کہ مظفرآباد آزاد ہو گا تو سرینگر بھی آزاد ہو گا ایک غلام دوسرے غلام کو اس وقت تک آزاد نہیں کروا سکتا جب تک وہ خود آزاد نہ ہو جائے پھر یہ کہ ریاست ہو گی تو سیاست ہوگی چناچہ پہلے ریاست کے ایک حصے کو آزاد کروایا جائے تاکہ دوسرے حصے کی آزادی کے لیے جدوجہد کی جا سکے اسطرح پیپلز نیشنل الائنس کے پاس واضح سیاسی اہداف کے ساتھ ایک مکمل سیاسی پروگرام موجود ھے اگر تمام سیاسی جماعتیں اس الائنس سے نکل جائیں تو بھی یہ سیاسی پروگرام ریاستی تاریخ میں اپنے اہداف کے حصول تک ناصرف زندہ رھے گا بلکہ اس پروگرام میں وقت کے ساتھ مزید بہتری آتی چلی جائے گی خواہ اسے کوئی ایک پارٹی ہی کیوں نہ لے کر آگے بڑھتی رھے اس طرح جب سیاسی پروگرام زندہ رھے گا تو یہ ممکن نہیں کے الائنس کا وجود برقرار نہ رھے چناچہ وقت کے ساتھ ساتھ الائنس کے فیصلوں میں بھی بہتری آئے گی اور اس میں تلخیص کے خودکار عمل کے تحت بہت سی غیر انقلابی سیاسی قوتیں جو اس وقت الائنس کا حصہ بنیں گی وہ یا تو معدوم ہو جائیں گی یا آنے والے وقت میں اس الائنس سے باہر نکل جائیں گی بہرحال جو چیز طے شدہ اور مقدم ھے وہ ھے ایک ریاست گیر انقلاب جو ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور خودمختاری پر ہی منتج ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply