ستائیس ۔۔۔ ماہپارہ عظیم

”برتن سمیٹ چکو تو ضروری بات سن جانا میری بھی۔“  صوفیہ کے ابا نے نظر ٹی وی پر جماۓ چینل بدلتے کہا۔

اماں کانپتے ہاتھوں سے کام نبٹاکر ڈرتے دل سے سر جھکاۓ واپس لوٹیں۔ جب سے صوفیہ شادی کے کچھ ماہ بعد ہی روز بڑھتی ناچاقی کے سبب سسرال چھوڑ آئی تھی، وہ یونہی سر جھکاۓ سب سنا کرتیں۔

”اس حرافہ سے کہو سامان باندھے اور جانے کی تیاری کرے۔ خاندان والوں کے پاؤں پڑ کر میں نے آپاجی اور باقیوں کو جیسے تیسے راضی کرلیا ہے۔ایسے اچھے لوگ ہیں کہ کہنے لگے، بھائی زبیر! جو ہوا اسے رفع دفع کریں۔ حسن بھی صلح کیلیے تیار ہے۔ بس ہمیں تو یہ فکر تھی کہ صوفیہ کہیں طلاق کا واویلا نہ مچا دے۔ لیکن اپنی تسلی کیلیے اب کی بار شرائط طے کرکے ہی صلح ہوگی ورنہ رشتوں کا کال کسے ہے۔۔۔ “

سونے سے پہلے اماں کا دیا عندیہ وہ سن چکی تھی۔ انہوں نے کمرے سے جاتے جاتے اسے ہمیشہ کی طرح خدا کے واسطے دے کر منانے کی کوشش کی اور سمجھایا کہ حسن اس سے مل کر جو بھی معاملات اور شرائط طے کرنا چاہتا ہے، وہ بلا چوں چراں مان لے اور اپنے ساتھ باقی دو بہنوں کا مستقبل برباد نہ کرے۔ آخر کسی ڈھنگ کی جگہ نوکری کرکے انہیں پڑھانے اور اچھی جگہ بیاہنے کی ذمہ داری بھی تو اسی کی ہے۔

چاہتے ہوئے بھی وہ ان کی خام خیالی دور نہ کر پائی کہ شوہر کے حکم کے مطابق وہ شادی کے بعد ملنے والی ہر تنخواہ اپنی ساس کے ہاتھ پہ رکھ دینے کی پابند تھی۔ اسلیے ان کی ایسی کوئی بھی امید پوری ہونے کے امکانات نہیں تھے۔

دونوں طرف کے لوگوں کی امیدیں کیسی ایک جیسی تھی اور صرف اور صرف اس سے تھیں۔

بستر پر دراز ہوتے اس نے سوچا، سب سے اچھی بات تو یہ کہ وہ کوئی احسان اپنے سر لینا گوارا بھی نہیں کرتی تھیں۔ انہیں جو چاہیے تھا خدا کے واسطے سے چاہیے تھا۔ اس کی ماں کی مرہون منت ہی سہی، لیکن اس کے ہر معاملے میں خدا اور اسکا تصور ہمیشہ حاوی رہا۔بہت سے ایسے موقع بھی تھے جب خدا اسے بے طرح یاد آیا۔ روٹی کے ساتھ روز کی دستیاب مار کھاتے یا ماں باپ کے جھگڑےسے ڈر کر جب دونوں چھوٹی بہنیں اس کی پناہ میں چھپ کر روتی، تب۔۔۔ تب اس کا جی چاہتا کاش! کم از کم آج کوئی خدا کا نامزد فرشتہ کسی مادی صورت میں اس کی دادرسی کرنے اترا ہوتا، جو ابا کا ہاتھ روک سکتا یا جس کی پناہ میں چھپ کر وہ خود رو سکتی۔

اور پھر ایسا ممکن ہونے کا خیال جب خود اس کی عقل جھٹلاتی تو یہ آگاہی اسے مزید تلخ کرتی۔ ایسا کیوں ہے؟ وہ اتنی بے رحمی سے ہمیں سسکتا کیوں چھوڑ بیٹھا ہے؟ کیا یہ ہمیشہ یونہی رہے گا؟ میں کیا صرف خدا کی ان دیکھی مدد کی منتظر رہ کر زندگی کو روز گھسیٹوں کہ وہ سنے گا، اور سب ٹھیک ہو جاۓگا؟ وہ آئے گا تو شاید چین سے کٹے گی، کوئی ایسا دن آۓ گا جب باپ کے تصور سے کپکپی نہ چھوٹے گی یا ماں کے منہ پر رکابی نہ ماری جاۓ گی۔ جب مجھے اور ماں کو مارپیٹ کے نشان چھپانے کیلیے تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی، جب رات کو نیند میں کروٹ بدلتے ہڈیوں تک درد کی ٹیسیں اٹھنے کا احساس نہ ہوگا یا وہ کبھی اپنی سکول کی باقی سہیلیوں کی طرح کسی دن فخر سے یہ کہہ سکے ”میرے ابو ہم سے بہت پیار کرتے ہیں!!“ یا پھر میں ماں کی طرح اس کے واسطوں کے سہارے، تنکے سے کنارے جا لگنے کا احمقانہ خیال پالے رہوں۔

صوفیہ نیند میں ایسے تمام نکتے انگلیوں پردہرا سکتی تھی جب اسکی ماں نے خدا کا واسطہ ہی بہترین تریاق کے طور پر پھانکنا مناسب جانا۔ چاھے وہ اسے اونچا ہنسنے سے روکنا ہو یا نظریں جھکا کر یونیورسٹی آناجانا ہو اور یہی کیوں باپ کے ھاتھوں بلاناغہ مار کھا کر چہرے سے نشان چھپانے کے جتن کرتے وقت بھی تو وہ یہی سمجھایا کرتی:
“خدا کا واسطہ چپ رہو! تمہیں کوئی ضرورت نہیں اپنے باپ کو تمیز سکھانے کی، ویسے بھی یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ تمہارے باپ کو تو بہانہ چاھیے تمہاری پڑھائی ختم کروانے کا، میں کہاں تک ساتھ دوں گی تمہارا، اچھا لگے گا کیا تمہاری وجہ سے تمہاری ماں سب کے سامنے بے عزت ہو؟؟“

عزت بے عزتی ناپنے کا یہ عجیب و غریب سکیل اسے مزید الجھاتا۔ کون سی عزت کی بات کہہ رہی ماں؟ میں نے تو اپنے ہوش میں انہیں کبھی کسی باعزت درجے پہ نہیں دیکھا۔ وہ مستعد ملازمہ، سخی مہمان نواز اور مستقل مزاج پنچ بیگ تھی یا مزید د د د۔۔۔ نہیں اور کچھ نہیں۔

شاید اسی رویے کی بنا پر اسکا مزید پڑھنا باپ کی طبیعت پر گراں گزرتا تھا کہ کہیں نہ کہیں اندر کھاتے اپنی اولاد کے باغی اور نافرمان ہوجانے کا خوف انہیں کنڈلی میں لپیٹے بیٹھا تھا جس کا وقتا فوقتا اظہار وہ بازاری گالیوں سے مخاطب کرنے کی صورت میں “کرتے”۔

اسے اچھی طرح یاد تھا کیسے باپ نے اس کی یونیورسٹی جانے کی خواہش پر مہینوں ہنگامہ برپا رکھا تھا۔ ابا نے لاکھ تاویلیں دے کر ماں کو اس کی کم عقلی کا یقین دلایا مگر وہ مسلسل منتوں پر اڑی رہیں۔ سو اتنی بہتری ضرور آئی کہ اپنی فیس خود بھرنے اور ان کے ہرحکم کے آگے سرنگوں رہنے کے وعدے نے انہیں کسی طرح آمادہ کر ہی لیا۔ لیکن وہ گاہے گاہے ماں کو ان کی سنگین غلطی کا احساس ضرور دلاتے، ”دیکھ لینا ایک دن تمہاری یہی پڑھی لکھی بیٹی حشر کرے گی تمہارا، تمہیں اور مجھ لاچار بوڑھے کو۔۔۔ اے کیا بھلا نام تھا اس مسکین کا۔۔۔ ہاں۔۔۔ King Lear کی طرح ہاتھ سے پکڑ کر سڑک پر چھوڑآئے گی“ بھلا ہو ماں کی ناخواندگی کا جو اس قصے کی سنگینی سے بے اثر رہتی۔

وہ انہی مغلظات سے لہولہان ہوتی پروان چڑھی تھی اور اب آئینہ بتاتا تھا کہ وہ اپنی ماں کا عکس بنتی جارھی ہے۔۔۔۔ یہی خیال سب سے بھیانک تھا جس کی ہولناک تعبیر وہ اپنے سسرال میں کھلی آنکھوں سے دیکھ آئی تھی۔ اس کا شوہر جتنی بار بھی بات بے بات حلق کے بل چلا کر ہاتھ اٹھاتا اس کے تصور میں سارا بچپن اور جوانی بھوت بن کر ناچنے لگتے۔۔۔۔

پہلے دن ہی حسن نے اسے سمجھا دیا تھا کہ وہ نئی نویلی دلہنوں والے چونچلوں کی توقع ہرگز نہ رکھے اور یہ کہ اسے رومانس جیسے چھچھور پن میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسی باتیں صرف چیپ ڈائجسٹ میں جچتی ہیں، انسان کو اصل زندگی میں پریکٹکل ہی ہونا چاھیے۔

تو کیا حسن صرف اس لیے ہاتھ اٹھاتا تھا کہ میں پریکٹکل سوچ کی نہیں تھی یا اس کی وجہ دوسری بات تھی؟؟ نیند کے مکمل حاوی ہونے سے پہلے ذہن خود کو آخری سوال کی بھول بھلیاں میں کھوجتا رہا۔۔۔۔

آفس سے ہاف ٹائم کی چھٹی لینے کے بعد وہ برے دل سے مطلوبہ روٹ کی بس میں بیٹھی جہاں کے کسی ریسٹورنٹ میں حسن نے ساری بات چیت کیلیے وقت طے کرکے اسے میسج کردیا تھا۔

“ایسے سب طے کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ پبلک پلیس پہ وہ کیسے پیش آۓ گا، کیا شرط ہوگی؟ کیا اسے اب بھی لگتا ہے صرف میں قصوروار ہوں؟؟؟ لیکن میں نے اسے کبھی اپنے رویے یا کسی بات سے اسکی بیماری یا اپنی حق تلفی کے لیے الزام نہیں دیا۔

بس چلنے لگی تو اس نے ٹیک لگا کر بے چینی پر قابو پانے کی کوشش کی۔ بیگ کی زپ کھلی دیکھی تو اسے بند کرتے اندر رکھی تسبیح پر نظر ٹھہر گئی جو وہ ماں کے ہاتھوں میں ہمیشہ دیکھتی تھی، جسے آج صبح انہوں نے اس کے ہاتھ میں تھماتے بڑی لجاجت سے کہا تھا: ”جانتی ہو نا تم مجھے عزیز ہو، لیکن اگر تم صلح کے لیے نہ مانتی تو تمہاے ابا مجھے طلاق دینے کا کہہ چکے تھے۔ اور کوئی ٹھکانہ بھی تو نہیں جہاں میں تم تینوں کو لے جاسکوں۔ دنیا والے تو میرے مرحوم باپ کی قبر پر تھوکیں گے اور پیچھے بچا ایک اکلوتا بھائی ،جو مرتے دم تک غیرت کے ہاتھوں میری شکل تک نہ دیکھے گا۔ جو ایک خون کا رشتہ باقی بچا ہے اسے بھی کس حوصلے سے گنواؤں، خود سوچو؟؟؟ تم بس راستے میں اس پر وہ وظیفہ پڑھتی جانا اور وہی کہنا جو سمجھایا ہے”۔ انہوں نے مزید تاکید کی۔

اس نے بے چینی سے اس تسبیح کو انگلیوں میں الجھائے سوچا:” صرف میں تو قصور وار نہیں“۔ پہلے دن سے شوہر کے دور رہنے اور اس کی باتوں سے مجھے یہی تاثر ملا کہ شاید وہ ”پریکٹکل“ زیادہ ہے صرف اس لیے اس کی سرد مہری آنے والے کئی ہفتوں تک قائم رہی۔ اس کے غصے ،چیخنے، چلانے کی عادت کے سبب وہ کبھی کسی حق کا مطالبہ بھی نہ کر پائی۔ اس کے پاس قیمتی زیور، کپڑے، اچھا گھر یعنی وہ سب تھا جسکی بنا پر بظاہر ”سب ٹھیک“ تھا، سو وہ کس سے شکایت کرتی اور کون یقین کرتا۔

کیونکہ بقول ماں”یا تو عورت بدچلن ہو یا مرد نکٹھو، تب ہی علیحدگی کی وجہ سمجھ آتی ہے“۔

“ہاں شاید میرا ڈاکٹر سے علاج کرانے کا مطالبہ ہی حسن کو برا لگا“۔

صوفیہ نے سر جھکائے بھیگتا چہرا صاف کرتے سوچا۔ ورنہ اس سے پہلے لڑائی جھگڑے روز کی مار پیٹ تک نہیں آئے تھے۔ علاج کے خیال پر ہی حسن نے جلتے سگریٹ سے اس کا مزاج درست کرتے ہوئے اسے اپنا منہ بند رکھنے کا مشورہ دیا تھا اور نوبت یہاں تک آئی کہ اب۔۔۔

“اے لڑکی ! کدھر دھیان ہے تمہارا ہائیں؟؟ ارے غضب خدا کا، یوں بیچ سواری بیٹھے ساری تسبیح توڑ کے بے خبر بیٹھی ہو۔ اے سمیٹو جلدی سے کہیں گر گئے تو، باقی سب کو کیوں گناہگار کرنے پہ تلی ہو؟ ہونہہہ۔۔۔ ساتھ بیٹھی آنٹی نے کانوں کو ہاتھ لگا کر تشویش ظاہر کی۔ اس نے جلدی سے ٹوٹی تسبیح کو سمیٹ کر زپ بند کی اور بس سے اتری۔

حسن، اس کا شوہر مقررہ جگہ پر موجود تھا۔ آرڈر شاید پہلے سے دیا جاچکا تھا، وہ میز کو گھورتی خاموش سامع بنی بیٹھی رہی۔

”انکل نے بتا تو دیا ہوگا کہ میں اور میرے گھر والے مان گئے صلح کے لیے، حالانکہ وہ کوئی ضمانت چاہتے ہیں لیکن چلو پھر بھی تم غنیمت سمجھو۔ ویسے جتنی بے شرمی اور ڈھٹائی سے تم گئی تھیں مجھے لگا تھا، غیرت والی ہوئیں تو کبھی مڑ کر نہ دیکھو گی مگر۔۔۔ ھاھاھاھا۔۔۔”

حسن نے ہنستے ہوۓ تبصرہ کیا اور کھانا جاری رکھا۔ وہ اور اس کا باپ دونوں کسی نہ کسی طرح ایک جیسے ہی تھے اس نے دھندلاتی آنکھوں سے ٹشو اٹھاتے سوچا۔

“ارے یار تمہیں کیا لگتا ہے بڑا کوئی ظلم ہوا ہے تمہارے ساتھ؟ اب تم میری امی کو دیکھ لو ہزار بار مار کھائی، بلکہ ایک بار تو ابا کی بھی دھلائی کر ڈالی تھی، مگر گھر نہیں چھوڑا اور ایک تم ہو ذرا سی بات پہ ایشو۔ کبھی عزت بے عزتی کا رونا، کبھی ڈاکٹروں کے چکر کا مشورہ۔ یقین جانو! میں نے تو اپنی امی کے کہنے پہ تمہارے جیسی دیہاتن سے شادی کی تھی کہ چلو کسی سوال نامے سے جان چھوٹے گی”۔

حسن نے نوالہ نگلتے بمشکل ہنسی روک کر مطلع کیا۔

”حالت دیکھو اپنی یہ لمبی بیڈ شیٹ جیسی چادر اکھڑی ہوئی سینڈل“

اس نے صوفی کے سر سے پاٶں تک ھاتھ سے اشارہ کرتے قہقہہ لگایا۔

“اچھی بھلی گزر جاتی تمہاری، کھاؤ پیو عیش کرو اور صرف منہ بند رکھو بھلا کسی کو اور کیا چاہیے“ حسن نے بات مکمل کی۔

صوفی نے سامنے پڑی کولڈ ڈرنک سے گھونٹ لیکر بالآخر ہمت کر کے پوچھا۔۔۔ “صلح کی شرط کیا ہوگی؟؟“

“بس کوئی لمبا چوڑا معاملہ نہیں ہے اس کی تم فکر نہ کرو، وہ تو تمہارے حامی بھرنے کی دیر ہے اور میں جانے سے پہلے کچھ ہی دنوں میں سارا پیپر ورک کروالوں گا۔۔۔ باقی انکل زبیر کو تم خودی قائل کرتی رہنا۔ آخر وہ بےکار پڑی پراپرٹی تم لوگوں کے کس کام کی؟ کونسا کوئی بھائی ہے جو کھیتی کرنے بیٹھے گا۔“ حسن نے جواب دیا۔

اب کی بار صوفی نے ادگرد مچے شور کو نظر انداز کرتے گھبرا کر میز کی طرف جھک کر بیٹھتے پوچھا۔۔۔ ”کونسی پراپرٹی؟؟؟“

”وہی، جو نئی سڑک کے ساتھ انکل کی زمین ہے اس کی بات کررہا۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ساری بات سنو گی تو سمجھوگی۔ یار میں بھی بھلا کب تک نوکریاں بدلتا رہوں گا؟ بھائی جان کا بزنس تو ادھر سیٹ ہے لیکن اپنا مال اپنا ہی ہوتا ہے۔ میں بھی کوئی بزنس شروع کرلوں تو فکر ختم ہوگی۔ اور پھر تمہارا ہی فائدہ ہے، تم یہاں امی ابو کے پاس رہوگی تو سارا پیسہ تمہیں ہی کما کر بھیجوں گا ناں”۔

وہ کچھ اور بھی بول رہا تھا لیکن صوفی سن نہیں پا رہی تھی۔ اردگرد لوگوں کی ہل چل جاری تھی۔ باتیں، قہقہے۔۔ اس نے ہونق ہوتے چہرے سے ادھر ادھر دیکھا۔

دوسرے کونے کی ایک میز پر باپ سالگرہ کے کیک کا ٹکڑا اپنی بیٹی کے منہ میں ڈال رہا تھا۔ جونہی فلیش پڑتا دھڑا دھڑ تصویریں اترنے لگتیں۔ کچھ تالیاں بجا رہے تھے اور کچھ شاید گا رہے تھے۔ لیکن وہ سننے سے محروم تھی، کوشش کرتے ہوۓ بھی سن نہیں پا رہی تھی۔۔۔ یہ کونسی فریکونسی تھی؟؟؟

صرف کے سامنے بیٹھا شخص، اس کا مبینہ مجازی خودا ہونے کا دعوے دار جس کی فرعونیت پر پر حقیقی خدا بھی خاموش بنا بیٹھا تھا۔۔۔ اب شاید یہ بتا رہا تھا کہ یہ صوفی کی واپسی کا آخری راستہ تھا۔

لیکن یہ آخری کیسے تھا؟ کیونکر تھا؟ کیا سب ختم ہورہا تھا؟ کیا دنیا ختم ہورہی تھی؟

نہیں دنیا تو ختم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ تو ابھی تک خود منتظر تھی، خدا کی کسی مدد کی منتظر یا کسی معجزے کی منتظر۔۔۔ امی کہتی تھیں دنیا ختم ہونے سے پہلے صور پھونکا جاۓ گا۔۔۔ تو کیا یہ وہی تھا؟ کیا صور پھونکا جا چکا تھا؟ جس نے اسکی سماعت چھین لی تھی اور اب پیر کے نیچے کی زمین کسی سیاہ سیال میں بدل رہی تھی۔

نہیں۔۔ شاید نہیں کیونکہ جو سامنے بیٹھا تھا وہ اسرافیل تو ہرگز نہیں تھا۔ ایک عام معمولی گوشت کابنا انسان تھا۔ کیا کوئی عام انسان اتنا بااختیار ہو سکتا تھا؟

“آپ جتنی جلدی ہوسکے طلاق کے پیپرز بجھوا دیں۔۔۔“

اس نے آخری بار پیچھے مڑ کر جب بیگ سٹریپ سے پکڑ کر اٹھایا تو وہاں بیٹھے شخص کو ادھ کھلے منہ کے ساتھ ایک ہاتھ سے چھری پکڑے دوسرے سے کانٹا پھسلتے دیکھا۔۔۔

صوفیہ پوری ہمت سے نیچے لاوے میں دھنسے پاؤں اٹھا کر راستہ ٹٹولتی باہر جارہی تھی۔۔۔ گھٹن بڑھ رہی تھی۔ ایسی پتھر کرتی خاموشی سے اسے اب فرار چاھیے تھا۔۔۔ پہلے وہ کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی اور اب کچھ سننے کے۔

اسے جتنی جلدی ہو اس سناٹے سے، یہاں سے نکلنا تھا۔

ہاں شاید دنیا ختم ہو رہی تھی لیکن صرف اس کی دنیا۔۔۔۔ صور پھونکا جا چکا تھا اور ہر طرف آتش فشاں کی راکھ سے اٹی کالی سیاہی۔۔۔ جس میں سانس لینا، کچھ سوچنا، کچھ سمجھنا۔۔۔ سب محال تھا۔

اور اسے پھونکنے والا وہی عام سا شخص تھا جو دراصل بے حد طاقتور تھا۔ وہی طاقتور شخص جو اس کے پیچھے باہر کے دروازے تک بھاگتےہوۓ لپکا تھا۔ وہ میرے پیچھے کیوں بھاگا تھا؟؟ وہ گھبرایا ہوا تھا یا شاید پریشان بھی، لیکن کیوں؟؟؟ اس کے پاس ہی تو صور پھونکنے کا اختیار تھا، پھر وہ کیوں گھبرانے لگا، قیامت کا نقارہ میرے لیے بجا، تو پھر۔۔ وہ مجھے آوازیں کیوں دے رہا ہے۔۔؟

“صوفی خدا کے لیے رک جاؤ! ایسے تماشہ مت کرو، مجھے صرف ایک منٹ دو۔۔ رک جاؤ صوفی۔۔۔ صوفی۔۔۔ رک جاؤ بس ایک منٹ۔۔۔ اس نے تیز قدم چلتے ہانپتے کانپتے چادر سنبھال کر پھر سے لپیٹی اور سختی سے سٹریپ کو پکڑے سڑک پار کی۔

تو آخرکار وہ واہمہ، وہ انتظار ختم ہوا۔ اب کوئی معجزہ نہیں ہوگا۔ اب کوئی نورانی وجود دوا بن کر نہ اترے گا۔ یہ سب کیا تھا؟ وہ کیا goneril تھی یا waiting for godot کے کسی بےجان منظر کا سانس لیتا حصہ تھی جو خود اپنا آپ نہ پاسکی؟ جو کسی بے سود آس کو پالینےکے loop میں سرپٹ بھاگتی رہی یا پھر وہ Alice in wonderland تھی۔۔۔ اس نے واپسی کے راستے میں تقریبا بھاگتے ہوۓ دھندلاتی سڑک کو لاوے میں بدلتے دیکھا۔

لیکن جب اپنی تمسخر اڑاتی ڈگریوں، معمولی نوکری اور کسی حشرے جیسی رینگتی زندگی سے میں نے کسی نہ کسی طرح سمجھوتا کر ہی لیا تھا تو مجھے اس یو ٹوپیا میں دھکیلا ہی کیوں گیا؟؟ مجھے اس محل سے کیوں پٹخا گیا؟؟ میں کیوں ریت میں چپو چلاتی کسی نادیدہ بہشت کا سراب سینچتی رہی؟؟؟

اسے واپس جانا تھا۔۔۔ گھر واپس جانا تھا۔

لیکن گھر؟؟ گھر کیسے جاتی۔۔؟؟ ابا نے کہا تھا وہ صلح کے لیے راضی نہیں تو پھر ان کی بلا سے ماں اور بہنوں کو لے کر جہاں مرضی جائے۔۔ تو۔۔ یہ راستہ جہاں وہ اپنا آپ گھسیٹتے چلتی جا رہی تھی۔۔۔ کدھر کا تھا؟؟

اس کے پہلو میں کوئی آواز گونجی۔۔
“Would you tell me, please which way i ought to go from here ???”

“That depends a good deal on where you want to get to?”

اس نے چادر سے ستا ہوا چہرہ پونچھ کر نیچے سڑک پرٹریفک میں ٹھوکر کھاتے چلنا شروع کیا۔

“I dont much care where ……”

سب پاس سے گزرتے ٹریفک سے ٹکراتی، سڑک پار کرتی اس بیوقوف لڑکی کو کوسنے لگے۔

”ارے عجیب پاگل عورت ہے۔ کوئی گاڑی والا مار گیا تو یہی سارا مجمع لگا لے گی“۔

”اے پاگل ہے کیا؟”

”ہونہہہ پاگل“

پاگل تھی۔۔ وہ alice نہیں، mad hater تھی۔۔۔

گھٹی ہوئی سانس سے مسافروں کے لیے لگے بینچ پر اس نے بے دم ہو کر گرتے ہوۓ سوچا۔۔

“ہاں غلطی میری ہی تھی، سمجھنے میں، جانچنے میں، میں Mad hater تھی۔۔۔”

“Then it does not matter which way you go”

گود میں سر چھپائے وہ بلکنے لگی۔

”اے بچڑا!! اے دے جا ایس مائی نوں وی کجھ“

سامنے والے سگنل سے مانگنے کے بعد ایک بھکارن اب اس کے آگے ہاتھ پھیلاۓ کھڑی تھی۔

اس نے سر اٹھایا۔

“اے اللہ سوہنا تیریاں وی سن سی۔۔ اپنے بھرا دے ناں تے دے جا!!”

”میرا کوئی بھائی نہیں ہے”۔

”اے چل اپنے پیو دے ناں تے دے جا سوہنا حیاتی کرے“

اب کی بار اس نے سر کھجا کر پھر سے ہاتھ پھیلایا۔

“میرا باپ نہیں ہے۔۔”

”نی شالا تتی وا نہ لگے۔۔ خالی ہتھ نہ موڑ، اس سونے رب دے ناں تے دے جا۔۔۔ خالی نہ موڑ“

وہ مسکرائی۔ اس نے کچھ سوچتے بیگ گود میں رکھ کرزپ کھولی۔

بھکارن تجسس سے اسے بیگ ٹٹولتا دیکھنے لگی۔

“یہ لیں! ستائیس ہیں“۔ لڑکی نے ہاتھ کی مٹھی اس کی ہتھیلی میں کھولتے ہوۓ کہا۔

بھکارن کچھ نہ سمجھتے ہونق دیکھنے لگی۔

”پورے کے پورے ستائیس سال ہیں، چاہے تو گن لو۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

لڑکی پھر سے چہرہ گود میں چھپاۓ رونے لگی۔ بھکارن نے کچھ لمحے گڑبڑاتے ہوۓ ہاتھ پہ رکھے تسبیح کے دانوں کو اور پھر اس لڑکی کو غور سے دیکھا، سر جھٹکا کر پلو سے گانٹھ باندھی اور تیزی سے اگلے مسافروں کی طرف چل پڑی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply