کیفے سرائیکی ! ایک بھولی بسری یاد۔۔۔۔ڈاکٹر ساجد کاظمی

تقریباً دو ہفتے پہلے کی بات ہے ،۹ محرم کی رات تھی اور میں سکینہ ٹرسٹ لندن میں مجلس سن کے اٹھا تو ماتم کا آغاز ہوتے ہی میری نظر ایک شخص پہ پڑی جنھیں میں فیس بک اور مکالمہ کے حوالے سے پہچانتا تھا۔ گو اس سے پہلے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا مگر شکل سے شناسائی ضرور تھی۔ جی آپ کا اندازہ درست ہے یہ ہم سب کے ممدوح جناب انعام رانا صاحب تھے۔ وہ اس وقت حالت گریہ میں لندن سے کہیں بہت دور کربلا کے صحرا میں تھے اور میں دل پہ  پتھر رکھ کے انہیں موجود ہ وقت میں واپس لایا اور ان سے اپنا تعارف کروایا۔ نہائیت عاجزی اور تپاک سے ملے۔ ان چند منٹوں میں رانا صاحب نے مجھے مکالمہ کے لئے لکھنے کے لیے اُکسایا، سو یہ تحریر اس ملاقات کا شاخسانہ ہے۔ انعام رانا  صاحب پہ  ایک سوانحی خاکہ تو بنتا ہے، جو قرض ہے، جسے جتنی جلد ہو سکے ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔

آمدم بر سرے مطلب، آج کی تحریر ایک افسانوی مقام کے بارے میں ہے، افسانوی اس لیے کہ میں وہاں ابھی تک جا نہیں پایا مگر اس کے متعلق سُن بہت رکھا ہے۔ یہ جگہ جنوبی پنجاب کے مردم خیز شہر ڈیرہ غازی خان میں واقع ہے اور اسکا نام ہے کیفے سرائیکی۔

پورے پاکستان سے عموماً” اور لاہور سے خصوصاً” ایسا کون ہوگا جو پاک ٹی ہاؤس کے نام سے واقف نہ ہو۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں جہان ِادب کے چاند اور ستارے اپنے مداحوں کے جلو میں رونق افروز ہوتے اور علم و ادب اور سیاست کے حوالوں سے مشتاقان علم میں گوہر بانٹتے تھے اور لوگ پھر بھی سیر نہیں ہوتے اور روزانہ کی بنیاد پہ  پیہم آتے رہتے۔” تھا “کا لفظ اس لئے کہ  اب کیپیٹلسٹ معاشرت اسے وجود سے عدم میں پہنچا چکی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ موہ مایا جیت گئی اور وقتی طور پہ علم و ہنر ،عاجز اور شکست خوردہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر فکر کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ بقول ضمیر جعفری، واقعہ کربلا کے پس منظر میں کہے اس شعر کے مصداق

جنگل میں بستی بس جانا ،رَیت میں کھیت اُگانا

جنگ بظاہر ہار بھی جانا اور شکست نہ کھانا۔۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم، اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔

بہر طور، اسی طرح کا ایک گوشئہ عافیت شمع ریسٹورنٹ کے نام سے، مریڑ حسن مری روڈ راولپنڈی میں ہوا کرتا تھا جہاں یہ ناچیز بھی گاہے گاہے فیض حاصل کرنے جاتا تھا۔ کیفے سرائیکی کچھ ایسی ہی جگہ ہے یا تھی۔ ہے یا تھی اس لئے کہ  گوگل پہ متعدد کوششوں کے باوجود کوئی ایک حوالہ بھی کیفے سرائیکی کے متعلق دستیاب نہیں ہے۔ سرائیکی ادب کی بہت مضبوط بنیاد ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ کسی سرائیکی ادیب نے کیفے سرائیکی کو درخور اعتنا سمجھ کر اس پہ کچھ لکھا ہو۔

قبل اسکے کہ کیفے سرائیکی کے متعلق کچھ لکھوں، کچھ احوال میرے سرائیکی سے عشق کے متعلق جو اس مضمون کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو گی۔ عشق، جی ہاں عشق کیونکہ حضرت اویس قرنی حضور نبئ اکرم صلعم کو دیکھے بغیر آپ کے عشق میں مبتلا ہوئے اور تا زندگی اس پہ قائم رہے اور اَن دیکھے عشق کا استعارہ بن گئے۔ سو اسی طرح کا احوال اپنا ہے کہ سرائیکی علاقے میں جائے بنا اس مٹھڑی زبان کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور یہ عمر قید ہے۔ مگر بقول شاعر

مر کے بھی  چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔۔

عشق میں سودو زیاں نہیں دیکھا جاتا اور یہ تو ہے ہی فائدے کا سودا۔ سرائیکی سے شناسائی کا سلسلہ محرم کی مجالس سے شروع ہوا اور میرا بڑا مضبوط ایمان ہے کہ کربلا کا کرب کسی اور زبان میں اس زبان کے علاوہ ممکن ہی نہیں ۔ میرا دعویٰ ہے کہ پنجاب کا ایک عام شخص ہکل، ہنجو اور تسے منڑ دریا تے جیسے الفاظ اور استعاروں سے آشنا نہیں ہوگا مگر فرش عزا ء پہ جانے والا ہر عزادار ان استعاروں کو انکے وسیع معنوں میں جانتا ہوگا ،خواہ اس کا تعلق وطن عزیز کےکسی بھی علاقے سے ہو۔

سرائیکی کے عشق میں مبتلا ہونے کی  مزید تفصیل کچھ یوں ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلے کے بعد سب سے پہلا دوست جو بنا وہ حسن بیگ بھی سرائیکی ہے جس سے پیار کا سلسلہ آج بھی قائم و دائم ہے۔ یوں آہستہ آہستہ حسن بیگ سے سرائیکی سیکھنے اور بولنے کا عمل شروع ہوا اور یونیورسٹی میں قیام کے دوران ہی سرائیکی علاقوں میں جائے بنا ہی میں سرائیکی زبان میں طاق ہو گیا اور بقول شخصے فر فر سرائیکی بولنے لگا۔

ایک واقعہ اس ضمن میں اور سن لیجیے۔ مجھے سرائیکی شاگرد سانجھ (سرائیکی طلبہ کی تنظیم) کا ممبر بنانے کے لئے تنظیم کے دستور میں ممبر بننے کی شرط کو تبدیل کیا گیا اور نئی تعریف یوں بنی کہ“ہر وہ شخص جو سرائیکی بول سکتا ہو یا سرائیکی کاز کے ساتھ مخلص ہو، سرائیکی شاگرد سانجھ کا ممبر متصور ہو گا”۔

زبان سے ثقافت، ادب اور وسیب اور وسیب کے باسیوں کے بارے میں تعارف ہوا اور یہ سب غائبانہ تھا۔ دوستوں نے کیفے سرائیکی سے بھی متعارف کرایا۔ اور اس دن سے آج تک میں کیفے سرائیکی کے متعلق ایک امیج بنا کے بیٹھا ہوں۔ جیسے علاقے کا تعارف نہیں تھا اسی طرح وہاں کے لوگ کیسے ہونگے، کیسی ثقافت ہوگی، نہیں جانتا تھا۔ پھر ایک ایک کر کے بہت سارے کرداروں سے متعارف ہوا جن سے میں زندگی میں کبھی نہیں ملا تھا اور اب تک بھی اکثریت سے صرف غائبانہ شناسائی تھی۔ ان میں کچھ لوگوں کے نام تناظر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ تو یہ تھے میرے غائبانہ دوست ۔بانیان میں فیاض ملک، صدیق بلوچ اور اعجاز ملک شامل تھے۔ یہ بات ۱۹۸۰ کی ہے۔ بعد ازاں طارق برمانی، خلیل برمانی اور سہیل برمانی بھی اس قافلے میں شامل ہو گئے۔ دیگر حاضرین میں چند نام یہ ہیں اشو لال فقیر، استاد نظامی، احسن واگھہ، انذر ملک، شاکر شجاع آبادی، ظفر لُنڈ، ارشاد تونسوی، رشید کلیانی، نعیم اللہ طفیل، حسن بیگ، ابراہیم بیگ، منظر بشیر، فاروق کاکا، مسعود المعروف دھوتا، خالد بزدار، پروفیسر شریف اشرف، محسن نقوی، فرحت عباس، پٹھانا خان، استاد فدا گادھی، تاج لنگاہ، سرفراز لاشاری، کلیم، نعیم اور اسماعیل لغاری و دیگر۔

اس جگہ کے  مالک سرور صاحب تھے۔ آخری معلومات تک کیفے تو موجود ہے مگر وہ بحث مباحثے والی روایت نہیں رہی۔ اس پہ بعد میں بات کریں گے۔

کیفے سرائیکی میں ان تمام دانشورورں، شاعروں، ادیبوں اور سیاسی اور سماجی ورکروں کو بیٹھے چشم تصور سے دیکھا کرتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی وہیں کسی کونے میں بیٹھ کے ان سب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیےوہیں  ہوتا تھا۔ بڑا دھواں دھار سیاسی بحث و مباحثہ ہوتا، کیونکہ سرائیکی عوام سیاسی طور پہ  بہت با شعور رہی ہے۔ ان بیٹھکوں میں شاعری بھی کمال کی ہوتی تھی۔ فلسفے کی گتھیاں بھی سلجھائی جاتیں اور اس دور کے ضیائی ڈریکولائی دور کے جبر سے نپٹنے کے راستے بھی طے کیے جاتے۔ وسیب کے دکھ کو جو کہ معاشی زیادہ تھا، پر بھی بھرپور انداز میں بحث ہوتی۔ معاشی نا ہمواریوں کو تخت پنجاب کے استحصالی رویوں کے تناظر میں موضوع بحث بنایا جاتا۔ وہ دور چونکہ سوشل ازم کی سرمایہ داری نظام کے ساتھ کھینچا تانی کا دور تھا تو یہ سب لوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ایک نئے سماجی معاہدے پر بھی سیر حاصل بحث کیا کرتے۔ گو افسوس ہے کہ ہم بحیثیت  قوم کسی نئے سماجی معاہدے کو تشکیل دینے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ کوئی ایسی بڑی ملک گیر کاوش بھی قابل ذکر نہیں، ماسوائے طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے یا کسی حد تک کمیونسٹ پارٹی کے  سٹڈی سرکلز کے جو بعد میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنائے مگر دیگر ایجنڈا اسے اوور شیڈو کر گیا اور پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

ضیائی جبر کے دور میں جس طرح معاشرے کا سماجی فیبرک تار تار کیا گیا بالخصوص مذہبی متشددانہ رویے فروغ دیے گئے جن کی فصل آج بھی میرا دیس اور دیس کے لوگ بصد تکلیف کاٹ رہے ہیں، یہ بھی ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہوا کرتا جس پر بڑی پُر مغز بحث کی جاتی۔ افسوس آج وہی سرائیکی وسیب دہشتگردوں کی بھرتی کا بہت بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہ دھرتی جو خواجہ فرید، بابا فرید، سلطان باہو کی وجہ سے مشہور تھی، جو پٹھانےخان کی کافیوں کے لئے مشہور تھی، جو فقیرا بھگت کی صوفی گائیکی کی حامل تھی، آج دہشت گردوں کی چراگاہ بن چکی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیفے تو اب بھی موجود ہے مگر نہ وہ محفلیں رہیں، نہ وہ بحث مباحثے رہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ اگر آج کے حالات کا ماضی سے تقابل کیا جائے تو مسائل آج بھی وہی ہیں۔ بلکہ شاید آج مسائل گزشتہ کل سے زیادہ گمبھیر ہیں۔ غربت آج پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے۔ تعلیم و صحت کے شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ مال پٹوار کا جبر زیادہ شدید ہوچکا ہے اور پولیس کا ظلم اس سے سوا ہے اور پہلے سے زیادہ بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے۔

شاید اسکی وجہ معاشرے کی عمومی بے حسی ہے۔ لوگ اب مایوسی کا شکار ہیں اور یہ رویہ شاید سابقہ تجربے کی بنیاد پہ ہے، جس کے مطابق عوامی نمائندوں نے عوام کو ہمیشہ مایوس کیا اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ یہی حال مذہبی لیڈر شپ کا ہے جنہوں نے منافقت میں گولڈ میڈل لیا ہوا ہے۔ سو دائیں اور بائیں بازو والوں نے ایک جیسی اور مجرمانہ بے اعتنائی برتی ہے۔

دوسری وجہ شاید معاشرتی رویے نئی ٹیکنالوجی سے متاثر ہوئے اور کہنے کو سوشل میڈیا نے لوگوں کو نان سوشل بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب تو لوگ موت کی خبر پر بھی ایک عدد واٹس ایپ پیغام ہوا کے دوش پہ بھیج کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

آج کے دور میں متذکرہ بالا مسائل کے مختلف حل تلاش کرنے کے سلسلے میں کیفے سرائیکی، پاک ٹی ہاؤس اور شمع ریسٹورنٹ جیسے مقامات کا احیاء نہائیت ضروری ہے۔ ایسے مقامات اس تناظر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے مقام ہونگے اور اگر نہیں تو عوام کو خود آگے آنا ہوگا تاکہ ان مہیب مسائل سے نپٹنے کے  نئے طریقے وضع کیے جا سکیں۔ ایسی ہی ایک سعی ہمارے دوست ارشد بھٹی صاحب نے اسلام آباد میں سول جنکشن نام کا ایک سوشل انٹر پرائز کھول کر کی ہے۔ جو اسلام آباد جیسے بے حِس شہر میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ ایک اورکاوش ہمارے دوست ڈاکٹر ندیم عمر اسلام آباد میں چوپال کے نام پہ شروع کر چکے ہیں جو بطریق احسن چل رہا ہے۔

گو کیفے سرائیکی میں بیٹھنے والے دوست کوئی اجتماعی تبدیلی لانے میں ناکام رہے مگر کیا یہ کم ہے کہ یہ تمام لوگ انفرادی طور پر جس شعبے سے بھی متعلق ہیں وہاں پوری ایمانداری اور سچائی کے ساتھ اپنا دامن استحصال سے بچا کر اپنے اردگرد اپنے حسن عمل اور حسن اخلاق کے ساتھ چہار دانگ عالم میں  خوشبوئیں بکھیر رہے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور ظلم و جبر کے خلاف حسینی کام سرانجام دیتے رہیں۔

آخر میں ایک سرائیکی شعر

دھیریں جمدیان تا پیو ما کوں جھورا ملے

سیندھ سرمے مِلن نا کوئی مانگھاں ملن

چاندی کھنڈی ونجے اوندے سر دے اتے

Advertisements
julia rana solicitors

سیجھ رنگلی کیتے صرف تانگھاں مِلن

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply