گھر کا راستہ۔۔۔۔ایم سے صبور ملک

 

ملکی معیشت اب تباہی کے اس دہانے پر آپہنچی ہے کہ ملکی تاریخ میں شاید پہلی بارپاکستان کے کلیدی بزنس لیڈرز کو سپہ سالار سے ملاقات کرکے شکوہ کرنے کی ضرورت پیش آگئی،بدھ 2اکتوبر کی شام ہونے والی ملاقات رات  گئے تک جاری رہی،آرمی ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں سب سے بڑا مسئلہ بیڈ گورننس کا زیر بحث آیا،تمام سرکاری اداروں اور کارپوریشنز اس وقت بے انتہا مسائل سے دوچار ہیں،صرف دوسال پہلے مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں منافع کمانے والے ادارے یا خسا رے میں چل رہے ہیں یا پھر ان کا منافع پہلے سے کافی حد تک کم ہوچکا ہے،آٹو موبائیلز انڈسٹری جس میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے آخری دنوں میں نئی سرمایہ کاری ہورہی تھی،جس کا کریڈٹ عمران خان حکومت نے بھی لینے کی کوشش کی تھی لیکن محض ایک سال میں پی ٹی آئی حکومت کی ناکام معاشی پالیسی کی بدولت اس وقت نئی سرمایہ کاری تو ایک طرف ملک میں موجود گاڑیاں بنانے والی بڑی کمپنیاں بھی اپنی پیداوار کم کرنے اور ڈاؤن سائزنگ کے عمل سے گزر رہی ہیں،کسی دور میں نئی گاڑی لینے کے لئے دیا جانے والا لون اب ختم ہو چکا،کیونکہ خریدار نہ ہونے کی وجہ سے ڈیلرز ہاتھوں پر ہاتھ دھرے کسی گاہک کے منتظر ہیں،راقم کے ایک دوست جو کہ پنجاب حکومت کے ایک ادارے میں ملازم ہیں سے کل میری گفتگو ہوئی،میں نے ان سے پوچھا کہ پہلا دور اچھا تھا یا اب،بولے کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے ہمارا سٹیشنری اور عمارت کا بجٹ کردیا گیا ہے،جس سے ہماری مشکلات بڑھ گئی ہیں،ملک کی کسی بڑی مارکیٹ میں  چلے جائیں،یا پھر کسی گاؤں کی چھوٹی سی دکان پر،ہر دو جگہ ایک جیسی ہی صورتحال ہے،تاریخی مہنگائی نے لوگوں سے قوت خرید چھین لی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت وفاقی وزارتوں،سرکاری کارپوریشنز اور ادارو ں میں 134اسامیاں خالی ہیں،جن میں مستقل چیئرمین،ڈائرایکٹر جنرل،منیجنگ ڈائرایکٹر ز،چیف ایگزیکٹو آفیسرزجیسے عہدے شامل ہیں،تما م اسامیاں پر کرنے کے لئے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،سٹیٹ بنک کے دوڈپٹی گو رنر موجود نہیں،اوجی ڈی سی ایل 5سال سے مستقل سربراہ سے محروم ہے،اکتوبر 2018سے زرعی ترقیاتی بنک کا کوئی صدر مقرر نہیں کیا گیا جبکہ وفاقی کابینہ اسکی منظوری بھی دے چکی ہے،اس حکومت سے باقی ملک کی معیشت کیسے سنبھلے گی یا کسی ادارے کے سربراہ کا تقرر کیا ہوگا،جو عین اپنی ناک تلے وفاقی ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کا ابھی تک تقرر نہیں کرسکی اور سی ڈی اے کے چیئرمین کا اضافی چارج اس وقت کمشنر اسلام آباد کے پاس ہے،ملکی معیشت پر بوجھ بنے سفید ہاتھی جیسے ادارے جن کی نجکاری کا ابھی تک حکومت کوئی فیصلہ نہ کرسکی،جو سالانہ اس قوم کا اربوں روپے کھا رہے ہیں،دوسری طرف کرپشن کرپشن کا شورسنتے سنتے کان پک گئے،لیکن ابھی تک کرپشن کے الزام میں گرفتار دو سابق وزیر اعظم،ایک صدر سے حکومت ایک روپیہ تک نہیں نکلوا سکی،نیب والے کسی کو بھی الزام لگا کر گرفتار کرنے میں تو بہت پھرتی دکھاتے ہیں لیکن جب معاملہ عدالت جاتا ہے تو نیب کا وکیل سوائے بغلیں جھانکنے کے کچھ نہیں کرتا،اور گرفتار ہوا بندہ ضمانت پر رہاہو کر باہر آجاتا ہے،جس سے نیب کی کریشن کے حوالے سے کارکردگی پر بھی سوال اُٹھتا ہے،نااہل حکومتی زعما کی وجہ سے پورا ملک اس وقت جمود کا شکار ہے،نئی سرمایہ کاری رُک چکی ہے،ہزاروں پاور لومز بند ہونے کو ہیں،بڑے کاروباری کسی جگہ سرمایہ لگانے کو تیار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پرسوں ایک دوست جو کہ ایک بڑی کمپنی میں ملازم ہیں مجھے بتانے لگے کہ شناختی کارڈ کی شرط کی وجہ سے دکان داروں نے ہم سے سامان لینا کم کردیا ہے کیونکہ شناختی کارڈ کی وجہ سے وہ ڈر گئے ہیں،ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ فکس ٹیکس کا نظام لاگو ہو تاکہ کمپنیاں اور دکاندار دونوں راحت کی سانس لے سکیں،ٹیکس لینا ہر حکومت کی مجبوری ہے کیونکہ ملکی معیشت کا دارومدار ہی ٹیکس پر ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بے جا ٹیکس لے کر بھی اگر ریاست اپنے شہریوں کو سہولیات دینے میں ناکام ہو اور جہاں خود ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ہی ٹیکس دینے والوں کو ٹیکس چوری کا راستہ دکھائیں اور جمع شدہ ٹیکس شہریوں کی فلاح وبہبود کی بجائے اللے تللے میں خرچ کیا جائے تو ایسے میں کون ٹیکس دے گا؟اُوپر سے بڑے تاجروں سے لے کر چھوٹے دکان دار تک جب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے گا،تو ایسے میں معیشت کا پہیہ چلنے کی بجائے رک جائے گا،اور یہی صورتحال اس وقت پاکستان کی ہے،جس کی وجہ سے بزنس لیڈرز کو سپہ سالار سے ملاقات کرنا پڑی،صورتحال بہت گھمبیر ہوچکی ہے،سٹاک مارکیٹ رو زبروز مندی کی جانب گامزن ہے،صنعتیں دم توڑ رہی ہیں،بیرونی سرمایہ کاری تو ایک خواب ہے اندرون ملک کوئی پیسہ لگانے کو تیار نہیں،اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے معاشی ٹیم کے بزرجمہر وں نے ملک کو وہ لاکھڑا کیا ہے کہ اب واپس کا راستہ دشوارتر اور کٹھن ہو چکا ہے،حکومت کوچاہیے کہ وہ اس بات کا اقرار کرے اور قوم کو ابھی بھی خواب دکھانے کی بجائے سچ بولے تاکہ قوم بھی ایک مشکل اور کڑے وقت کے لئے تیار ہوجائے،وگرنہ یہی حال رہا تو اس حکومت کو گھر کا راستہ دکھانے کے لئے کسی آزادی مارچ کی ضرورت نہیں پڑے گی،بلکہ یہ اپنی ہی غلطیوں تلے دب کر دم توڑ دیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply