یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ ان کی اخلاقیات اور سماجیات کے پیمانے کیا ہیں؟ عجیب سا جھٹکا دیا ہے مجھے اس تصویر نے جس میں شہباز شریف گرمجوشی سے بلاول بھٹو کا استقبال کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں ایک تصویر ہزار لفظوں پر بھاری ہوتی ہے لیکن یہ تصویر ایک نہیں کئی ہزار الفاظ پر ہی نہیں تقریباً 22کروڑ جیتے جاگتے انسانوں پر بھی بھاری ہے۔ ان سب پہ بھاری ہے جن کے بارے میں حبیب جالب نے طنزاً لکھا تھا۔
’’یہ جو ’’کچھ‘‘ کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں‘‘صدیاں نہیں صرف چند سال پہلے اسی شہباز شریف نے اسی بلاول بھٹو کے والد محترم آصف زرداری کے بارے میں سرعام کیا کہا تھا؟
لکھتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے اور عوام کو بھی اچھی طرح یاد ہو گا لیکن یہ دونوں عظیم جمہوری قائدین سب کچھ بھول بھال کر کس طرح سرعام جپھیوں، پپیوں اور گرم جوشیوں کا محیر العقول مظاہرہ کر رہے ہیں تو یہ صرف اس لئے ہے کہ یہ حصول اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں ’’یہ‘‘جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں ’’یہ‘‘اور یہ سب صرف اس لئے ہے کہ یہ سیاستدان ہیں۔ یہ ہمارے ’’رول ماڈلز‘‘ ہیں یہ ہمارے ’’رہنما‘‘ اور ’’قائدین‘‘ ہیں جن کے ساتھ مل کر ہمیں ووٹ کو عزت دینی ہوتی ہے، جمہوریت کو مستحکم کرنا ہوتا ہے اور جب ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے بعد یہ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں تو وہ شے جنم لیتی ہے جسے یہ لوگ ’’جمہوریت کا حسن‘‘ قرار دیتے ہیں۔
اگر یہ جمہوریت کا حسن ہے تو پھر بدصورتی کسے کہتے ہیں؟ اگر یہ کردار ہے تو بے کرداری کیا ہوتی ہے؟ لیکن کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ با اصول باوقار قائدین کہاں سے امپورٹ کریں کہ ڈالر بہت مہنگا ہو چکا اور ’’امپورٹ ڈیوٹی‘‘ دینے کے لئے بھی جیب میں کچھ نہیں۔ جمہور کو مبارک ہو کہ یہ شاندار روایت اور صحت مند جمہوری رویے صرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ تک ہی محدود نہیں۔
’’پی ٹی آئی‘‘ تک لامحدود ہیں اور خود میں کتنا ڈھیٹ اور چکنا گھڑا ہوں جو اس ماحول میں ایسے لیڈرز کے ہوتے ہوئے ان جیسے لوگوں سے ’’انسان سازی‘‘ کی توقع رکھتا ہوں۔
کیا یہ ہمیں تمیز، تہذیب سکھائیں گے؟ کیا یہ ہماری تربیت فرمائیں گے؟ کیا یہ ہمیں اچھے برے، صحیح اور غلط کی پہچان کرائیں گے؟’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘’’جیسے عوام ہوں ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں‘‘سیانے سر جوڑ کر بیٹھیں اور بتائیں کہ یہ ’’خود کش بمبار‘‘ قسم کا کلچر کب کینچلی بدلے گا؟
PTIکے باغی اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ ’’غیر ملکی فنڈنگ کیس سے پاکستان کی سیاست تبدیل ہو سکتی ہے تو اگر یہ تبدیلی بد سے بدتر اور ستیاناس سے سوا ستیاناس ہوئی تو ہم آپ کسی کا کیا بگاڑ لیں گے؟
بائی دی وے اک اور فرحت بخش تبدیلی بھی قوم کی منتظر ہے۔ روک سکو تو روک لو کیونکہ 2020تک اسلامی جمہوریہ پاکستان ایشیا کے تین مہنگے ترین ممالک میں شامل ہو جائے گا جبکہ ترقی کی شرح سب سے کم ہو گی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی اک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2020میں پاکستان کا گروتھ ریٹ تاریخ کی پست ترین سطح پر ہو گا (روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے) 2018میں افراط زر 3.09فیصد تھا جو 2019 میں بڑھ کر 7.05ہو گیا اور چشم بددور 2020میں افراط زر کی شرح 12فیصد تک پہنچ جائے گی۔
مبارک ہو صرف دو اور ’’تان‘‘ یعنی صرف ترکمانستان اور ازبکستان کی افراط زر کی شرح ہم سے زیادہ یعنی 13فیصد ہو گی جبکہ باقی تمام ایشیائی ملکوں میں افراط زر 10فیصد سے کم رہے گی۔ یاد رہے 2018میں پاکستان کا اقتصادی گروتھ ریٹ 5.5فیصد تھا، 2020میں یہ شرح 2.8فیصد رہ جائے گی جو ایشیا میں سب سے کم ہو گا۔
آخری خبریں آنے تک آٹا مہنگا ہونے پر کابینہ ناراض پائی گئی حالانکہ اگر صرف ناراضگیاں دکھانے سے مہنگائی رک سکتی یا کم ہو سکتی تو صرف آٹا ہی کیوں؟ ہر شے کی مہنگائی میں کمی لائی جا سکتی ہے لیکن میں نے ادھر ادھر سے سنا ہے کہ صرف ناراض ہونے سے مہنگائی اور جرائم کا بڑھنا اور ڈینگی کا پھیلائو کم ہونا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
ایسے اہداف حاصل کرنے کے لئے روٹھنے اور ناراض ہونے کی بجائے کچھ اور قسم کے کام کرنے پڑتے ہیں یا کم از کم مہذب ترقی یافتہ دنیا میں یہی پریکٹس ہے کہ وہاں ہر کام کے لئے بروقت منصوبہ بندی کی جاتی ہے، موزوں ترین لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی اور وسائل مہیا کئے جاتے ہیں۔
نری ناراضگی دکھانے سے مہنگائی اور جرائم کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر بڑھنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مہنگائی اور جرائم جڑواں بہن بھائی ہیں اور مہنگائی کا تعلق ناراض ہونے سے نہیں، ان عوامل کے ساتھ ہے جن کا انکشاف ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے کیا اور ہمیں بتایا ہے کہ 2020میں ہمارے ہاں ترقی کی شرح ایشیا بھر میں سب سے کم ہو گی اور صرف دو ممالک ہی اس دوڑ میں ہم سے آگے نکلنے کا اعزاز حاصل کر پائیں گے اس لئے وزیراعظم اور ان کی کابینہ خوامخواہ اپنی قیمتی ناراضگی ضائع نہ کرے۔
ویسے قصور وار PTIبھی نہیں کہ ان بیچاروں سے ایک سادہ سی غلطی ہو گئی بلتستانیوں کا ایک مقبول ترین محاورہ ہے کہ ’’ایک ہاتھ میں دو خربوزے نہیں سما سکتے‘‘ PTIنے جوش جذبات سے مغلوب ہو کر ایک ہاتھ میں کئی خربوزے پکڑنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں سارے ہی ہاتھ سے نکل گئے۔ مطلب یہ کہ باری باری مرحلہ وار مختلف کام چھیڑتے، اناڑیوں نے آتے ہی بیک وقت کئی محاذ کھول دیئے اور پنجاب کا واٹرلو تو ہے ہی اس لئے اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ…..دیکھی جا مولا دے رنگ!
بشکریہ روزنامہ جنگ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں