محبت کُھرک ہے،سے اقتباس۔۔۔سلیم مرزا

سعودیہ ائیر لائن کی ائیر ہوسٹس مصری تھی ۔آتے ہی میرے سر پہ کھڑی ہوگئی ۔مجھے اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیا ۔
“پانی یا چائے ”
“چائے”
“دودھ والی یا بغیر دودھ “؟
میں نے پھر اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی ۔۔اور کہا”دودھ والی ”
“ایک یا، دو”؟
اب وہ تھوڑا پیچھے ہٹی تو چہرہ دکھائی دیا ۔
“دو ہی ٹھیک ہیں ”
اس نے مسکرا کر دو ساشے خشک دودھ کے پکڑائے اور آگے نکل گئی ۔
میں نے ساشے والا دودھ پہلی بار دیکھا تھا ۔
ریاض ائیرپورٹ کی اناؤنسمنٹ ہوتے ہی ایک عجیب منظر دیکھا ۔خواتین سیٹوں سے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔
حجاز مقدس سے عقیدت کا یہ منظر روح میں اتر گیا ۔۔
میں بھی اٹھ کھڑا ہوا ،ساتھ والی سیٹ کے مشٹنڈے نے مجھے بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا ۔
“انہوں نے عبایہ پہننے ہیں”
میں شرمندہ نہیں ہوا ۔۔
کیونکہ میں عبایہ نہیں پہنتا،
ریاض ائیرپورٹ خوبصورت تھا مگر سارا حسن پیک تھا ۔۔

اب اگلی منزل طائف تھی ۔
بورڈنگ اناؤنس ہوئی ۔کاؤنٹر پہ دو سعودی دوپٹے اوڑھے چائے جیسا کچھ پی رہے تھے ۔
میں نے ٹکٹ آگے کی ۔۔اس نے عربی میں کچھ کہا ۔
میں نے آمین کہا،اور بتایا کہ بورڈنگ کے سلسلے میں حاضر ہوا ہوں ۔دادا حضور کا ختم مبارک تین مہینے بعد ہے ۔
دوسرے نے مجھے گھورا اور انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے انگلش میں کہا “کیو “میں جاؤ ۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سو سوا سو ۔پاکستانی، انڈین فلپینی اور بنگلہ دیشی زمین پہ دھرنا دیے بیٹھے تھے ۔
میں مُڑا اور، سعودی سے کہا ۔
یہ “کیو “نہیں ہے ۔یہ تو Q ہے ۔
ساتھ میں انگلی سے کاؤنٹر پہ Q لکھ کر بھی دکھایا۔
وہ ہنس دیا ۔اور میری ٹکٹ پکڑ لی ۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ آخری سعودی ہے جسے میں ہنستا ہوا دیکھ رہا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

(محبت کھرک ھے سے اقتباس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply