مرتبے والا۔۔۔مرزا مدثر نواز

دوسری بہت سی خصوصیات کے علاوہ جو خوبی مذہب اسلام کو دوسرے مذاہب سے منفرد و ممتاز کرتی ہے وہ “مساوات “ہے، یعنی بڑائی و برتری کے تمام خود ساختہ اعزازی مرتبوں کے مقابل صرف ایک ہی امتیازی معیار تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کی بدولت رنگ‘ نسل‘ زبان‘ وطن‘ علاقہ‘ قبیلہ‘ برادری‘ دولت‘ حسب و نسب سے قطع نظر کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھنے والا کلمہء گو اپنی محنت و کوشش کے بل بوتے پر گروہِ مسلم میں ایک خاص مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اسی کی بدولت بظاہر غلام و خوش شکل دکھائی نہ دینے والا باطن سے اتنا گورا و حسین و جمیل ہوتا ہے کہ محمد ﷺ معراج سے واپسی پر پوچھتے ہیں کہ بلال کیا نیکیاں کرتے رہتے ہو کہ میں نے تمہارے قدموں کی آواز جنت میں اپنے آگے آگے سنی ہے اور آج ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کا نام بلال ہو۔

شاہ و گدا‘ امیر و غریب‘ ادنیٰ و اعلیٰ‘ گورا و کالا‘ عربی و عجمی‘ محمود و ایاز جب ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر معبود برحق کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو پھر نہ کوئی بندہ رہتا ہے نہ بندہ نواز۔ ارشاد ربانی ہے ”ہم نے تم کو مختلف خاندان اور قبیلے صرف اس لیے بنایا کہ باہم شناخت ہو سکے‘ تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے“ (الحجرات)۔

نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں‘ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے،وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اسی کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرورآگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جن کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا ہے‘ ابھی اسیّ سال پہلے ہی اسی نسلی غرور کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔ قدیم ہند کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریہ اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبو رکیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔ اس نظام کے تحت مذہبی رہنما یعنی برہمن سب سے بلندوبرتر،سیاسی رہنما یعنی کھشتری دوسرے نمبر پر، محنت کش اور تاجر یعنی ویش تیسرے نمبر پر اور ادنیٰ درجے کے کام کرنے والے شودر چوتھے درجے کی ذات قرار پائے۔ کہتے ہیں کہ برہما یعنی خدا نے برہمن کو اپنے سر سے، کھشتری کو اپنے بازوؤں سے، ویش کو اپنی ٹانگوں سے اور شودر کو پاؤں سے پیدا کیا‘ اس تقسیم کے نتیجے میں پہلی دو ذاتیں اعلیٰ ترین اور آخری دو ذاتیں ادنیٰ ترین قرار پائیں۔ آج بھی ہندوستان میں دلت مونچھیں نہیں رکھ سکتے‘ اعلیٰ ذات کے برابر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے‘ شادی کے موقع پر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتے۔

جب برصغیر میں اسلام کی کرنیں داخل ہوئیں تو سب سے پہلے نچلی ذات کہلانے والوں نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے حسن سلوک اور اسلام کے آفاقی پیغام سے متاثر ہوکر یا پھر اپنے مفادات کے تحت اعلیٰ کہلانے والی ذاتوں کے افراد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اگرچہ ان نومسلموں نے اسلام کے بہت سے احکام کو اپنا تو لیا لیکن اپنی بعض پرانی عادات و خصائل سے نجات حاصل نہ کر سکے جن میں سے ایک عادت ذات پات کی تفریق بھی تھی۔ ایک تکبر اعلیٰ حسب و نسب والے کا اپنے سے کم نسب والے کو حقیر اور کم تر تصور کرنا ہے خواہ وہ علم و عمل اور تقویٰ میں اس سے بڑھ کر ہی کیوں نہ ہو‘ نسب کا تکبر بعض لوگ اتنا زیادہ کرتے ہیں کہ جیسے دوسرے لوگ ان کے غلام ہیں‘ ان سے میل جول رکھنے اور ان کے پاس بیٹھنے سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ موقع بے موقع نسب کا یہ تفاخر ان کی زبان پر جاری رہتا ہے۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کا کہنا ہوتاہے کہ ان کی کیا اصل ہے؟ میں فلاں فلاں کا صاحبزادہ اور فلاں فلاں کا پوتا ہوں۔ تیرے جیسے کی کیا مجال کہ میرے سامنے بات بھی کر سکے یا میری طرف نگاہ بلند کر کے دیکھ سکے۔ نفس کے اندر نسب ایک ایسی چھپی ہوئی رگ (بیماری) ہے کہ اس سے اعلیٰ نسب والے خالی نہیں ہوتے خواہ وہ نیک بخت اور عقلمند ہی کیوں نہ ہوں۔ حالتِ اعتدال میں تو اسے ظاہر نہیں کرتے مگر غصہ اور غضب کے غلبے کے وقت ان کا نورِ عقل تاریک ہو جاتا ہے۔ ایک صحابیؓ نے حضور ﷺ سے پوچھا ”یارسول اللہ کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی عصبیت میں داخل ہے‘ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ عصبیت یہ ہے کہ انسان ظلم میں اپنی قوم کا مدد گار ہو“۔ ایک اور موقع پر فرمایا”جس نے (لوگوں کو) قوم پرستی کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں۔“

روایت ہے کہ رسول اللہ سے پوچھاگیا: اے اللہ کے رسول، لوگوں میں سے سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ آپ نے جواب دیا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے‘ لوگوں نے کہا:ہم اس بارے میں نہیں پوچھ رہے‘ آپ نے جواب دیا،تو لوگوں میں سے سب سے زیادہ عزت والے یوسفؑ ہیں جو خود بھی اللہ کے نبی تھے اور اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے اور اللہ کے دوست کے پڑپوتے تھے‘ لوگوں نے کہاکہ ہم اس بارے میں بھی نہیں پوچھ رہے‘ آپ نے فرمایا: اچھاتوتم عرب کی کانوں کے بارے میں پوچھ رہے ہو‘ لوگ اچھائی اور برائی کے معاملے میں سونے اور چاندی کی کانوں کی طرح ہیں‘ان میں سے جو دور جاہلیت میں بہترین تھے، وہ دور اسلام میں بھی بہترین ہوں گے اگر وہ اپنے اندر دین کی سمجھ بوجھ پیداکرلیں (بخاری)۔

ایک اور موقع پر اس طرح  درج ہے  کہ”بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت و غرور کو ختم کردیا اور باپ دادا کا نام لے کر فخر کر نے سے روک دیا، (اب دو قسم کے لوگ ہیں) ایک متقی و پرہیزگار مومن، دوسرا بدبخت فاجر، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، لوگوں کو اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ ان کے آباء جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں (اس لیے  کہ وہ کافر تھے، اور کوئلے پر فخر کر نے کے کیا معنی) اگر انہوں نے اپنے آباء پر فخر کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کے نزدیک اس گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے، جو اپنی ناک سے گندگی کو دھکیل کر لے جاتا ہے“(ابو داؤد)۔

”چار باتیں میری اُمت میں زمانہ جاہلیت کی ہیں (۱) حسب و نسب میں فخر کرنا (۲) دوسروں کے نسب میں طعن کرنا(۳) بارش کو تاروں کی طرف منسوب کرنا(۴) میت پر نوحہ کرنا“(مسلم)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج جب کسی تعلیم یافتہ کو صرف اور صرف نسب یا خاندانی نسبت کی وجہ سے دوسرے کو بادشاہ‘ پیر و مرشد‘ باوا جی‘ تمہارے قدموں کی خاک وغیرہ وغیرہ کہتے سنتا ہوں تو بہت تعجب ہوتا ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply