• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان کا غیرمحفوظ مستقبل ۔۔ کچھ عملی اقدام وقت کا تقاضا ہے۔/شیر علی انجم

گلگت بلتستان کا غیرمحفوظ مستقبل ۔۔ کچھ عملی اقدام وقت کا تقاضا ہے۔/شیر علی انجم

محترم قارئین سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے ایک معروف صحافی کا 2014 میں بریک  کی ہوئی خبر وائرل ہورہی ہے جس میں اُنہوں نے تجزیہ پیش کیا تھا کہ مودی کسی بھی صورت  جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مکمل طور پر کشمیر پر قبضہ کرکے گلگت بلتستان پر بھی دعویٰ کرے گا۔ یوں مورخہ پانچ اگست 2019 کو مودی نے وہی کام کرکے دکھایا اور گلگت بلتستان کے حوالے سے مودی سرکاری کے بیانات اور بھارتی میڈیا کے واویلے  پر مبنی خبروں  اور ویڈیوز سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اس قسم کی دور اندیش شخصیات کیلئے گلگت بلتستان کی زمین تنگ ہے اُس نامور تجزیہ نگار اور صحافی کو بھی کچھ اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔

گلگت بلتستان کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا جاچُکا ہے۔ لہذا مختصر یہ ہے کہ انقلاب گلگت کی ناکامی یا اُس انقلاب کو تسلیم نہ کرکے متنازعہ بنانے اور اُس بنیاد پر اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں حقوق دینے کے بجائے 28 اپریل 1949 کو ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکائی کے کسی اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کے بغیر معاہدہ کراچی کی ایک شق سے باندھنےاور گزشتہ ہفتے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اقوام عالم سے خطاب۔ جس میں ان کا کہنا کہ میں خصوصی طور پر یہاں کشمیر کے لئے آیا ہوں اور اُنکا حق خودارادیت کشمیر کے عوام کا بنیادی حق قرار دینے اور گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے چند حقائق ریاست پاکستان کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موقف کو سامنے رکھتے ہوئے چند گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سے پہلے اس بات کا بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ یہاں کے عوام کیا چاہتے ہیں اور یہاں کے عوامی نمائندوں کی کیا سوچ ہے۔ گلگت بلتستان میں چونکہ مذہبی افکار کی بنیاد پر لوگ سیاسی مطالبات اور خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے صوبہ بنانے کیلئے قانون ساز اسمبلی میں دو بار متفقہ قرارداد منظور ہوئی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح خطے کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنانے کا مطالبہ اور بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اُس مطالبے کا دم توڑنا بھی ہمارے مقدر کا حصہ سمجھیے۔ یوں ایک اور نیا نعرہ ایجاد ہوا جس کے مطابق گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بننا چاہیے لیکن اس حوالے سے بھی نفی میںاسلام آباد کے حکمرانوں کا جواب آناستاروں کی گردش سمجھیے۔پھر ایک نئی فکر کی ایجاد ہوئی جس کے مطابق خطے کو عبوری آئینی صوبہ بننا چاہیے جس میں متنازعہ حیثیت کے مطابق سٹیٹ سبجیکٹ رول بھی شامل ہو۔ اس مخملی نعرے کی ہوا بھی 17جنوری 2019 کوسپریم کورٹ لارجر بنچ کےفیصلے نے نکال دی۔ لاجرر بنچ کے فیصلے میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری ہونے تک خطے کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں اورگلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی کیونکہ ان علاقوں کی آئینی حیثیت استصواب رائے کے ذریعے طے ہونا باقی ہے۔
اسی طرح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 12 اگست 2019 کو دورہ مظفر آباد کے موقع پر کہا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کا دو ٹوک موقف ہے کہ خطےکو کوئی صوبہ نہیں بنایا اور نہ ہی بنائیں گے، وہاں کے لوگوں کی ڈیمانڈ کے باوجود ہم ایسا کوئی بھی فیصلہ نہیں کرینگے جس سے کشمیر کاز متاثر ہو۔ اس کے علاوہ سابق حکومتوں کے دوران دفتر خارجہ کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، جس میں خطے  کو ریاست جموں کشمیر کا قانونی حصہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں پر عوام میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں، اورخطے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی موجودگی کا دفتر خارجہ کی جانب سے بارہا اقرار بھی میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ یوں ہماری خواہشات اور مطالبات کے باوجود یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خطے کو پاکستان میں قانونی طور پر شامل کرنا اتنا آسان کام نہیں جتنا یہاں کے عوام سمجھ رہےہیں ۔حالانکہ سی پیک کے تناظر میں خطے کو گیٹ وے ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور خطے کی قانونی حیثیت کے تناظر میں اس راہداری کے گزرگاہ پر ناقدین سوال بھی اُٹھا رہےہیں۔ لہذا اگر ممکنات میں سے ہوتے تو یقیناًمملکت پاکستان ایسا ضرور کرتے اور ایسا کرنے سے جہاں پاکستان کو فائدہ ہوتا وہیں گلگت بلتستان میں ترقی اور تعمیر کی ایک نئی راہ کھل جاتی۔ مگر بدقسمتی سے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ایسا ممکن نہیں اور یہ ریاست پاکستان کا قومی بیانیہ بھی ہے۔
محترم قارئین، تاریخی حقائق اور اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی بنیاد پر یہ بات طے ہوگئی  کہ گلگت بلتستان پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آزاد کشمیر،جموں کشمیر اور لداخ کی طرح ایک متنازع  خطہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں کی سیاسی قیادت کی ناکامی اور ذاتی مفادات اور مراعات کیلئے عوامی مفادات کا سودا گلگت بلتستان کی سیاست کا اہم جزو رہا ہے۔ ایسے میں آج جس تیزی سے کشمیر کے مسئلے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ہندوستان کے فاشسٹ وزیر اعظم نریندر مودی کی ملی بھگت سے تبدیلی رونما ہورہی ہے اُس تناظر میں گلگت بلتستان کا وجود خطرے میں نظر آتا ہے اوراس جرم میں گلگت بلتستان کے عوامی نمائندے برابر کے شریک ہیں۔
قارئین، موجودہ صورتحال میں عالمی گریٹ گیم کو دیکھ کر ضروراندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان خدانہ کرے پھر سے تقسیم کی طرف جاررہا ہو۔ مودی اور ٹرمپ کا گٹھ  جوڑ گلگت بلتستان کے حوالے سے نیک شگون پیغام نہیں۔ اس وقت جو بین الاقوامی گریٹ گیم جو مودی اور ٹرمپ ملکر کھیل رہے ہیں، اُس کا مرکز یقینی طور پر گلگت بلتستان ہے اور گلگت بلتستان میں اگلے چند ماہ یا سال میں کچھ بھی ہوسکتاہے۔ بھارتی آرمی چیف کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جس کیلئے حکومت پاکستان کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر پرپاکستان کے موقف کو مزید تقویت دینے کیلئے گلگت بلتستان کی سیاسی محرمیوں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اس حوالے سے مدبرانہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اس وقت گلگت بلتستان کے حوالے سے اُٹھتے سولات مودوی سرکار اور ہندوستانی میڈیا کا گلگت بلتستان کے حوالے سے مسلسل ٹاک شوز بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو کمزور کرسکتا ہے۔ لہذا گلگت بلتستان کو سیاسی محرومیوں سے نکالنا ہوگا اور اس حوالے سے موجود اقوام متحدہ کے چارٹرڈ پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے۔گلگت بلتستان کے اُن سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو اب یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ گلگت بلتستان صوبے کا خواب اور خواہش اپنی جگہ لیکن موجودہ صورتحال میں ایسا ممکن نہیں بلکہ اس قسم کی ضد مسئلہ کشمیر کو کمزور کرسکتی ہے۔ لہذا صوبے کا کھاتہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں مکمل طور پر بند ہونے کے بعد اقوام متحدہ کی قرارداد وں کی روشنی میں گلگت بلتستان کو حقوق دیں ۔ اور خطے کی ترقی اور تعمیر کیلئے ایک نئی سمت کا  تعین کرکے آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لاکربین الاقوامی سطح پر سیاحت کے فروغ کیلئے  زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں۔ گلگت بلتستان کے آبی وسائل کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہائڈور الیکٹرک جنریشن کیلئےجامع پالیسی مرتب کریں جس سے پورے پاکستان میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ خطے میں تعلیم صحت کیلئے سہولیات اس وقت نہ ہونے کے برابر ہیں لہذا خطے کے وسائل سے خطے کو رائیلٹی دیکر اس خطے کے عوام کو زیادہ سے  زیادہ معاشی طور پر مستحکم بنائیں۔ اور آئین ساز اسمبلی کے ذریعے ہندوستان کی جانب سے اٹوٹ انگ جیسے من گھرٹ دعوؤں کے خلاف قرارداد منظور کریں۔ انشااللہ دشمن کو ہر میدان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا بشرطیکہ آپ اقوام عالم سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنائیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply