• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جمہوریت کاعدم استحکام ،آمر وسیاستدان یکساں ذمہ دار۔۔۔ اے وسیم خٹک

جمہوریت کاعدم استحکام ،آمر وسیاستدان یکساں ذمہ دار۔۔۔ اے وسیم خٹک

پاکستان کی تاریخ کا بدترین لمحہ وہ تھا جب 1958ء میں فوجی جرنیل ایوب خان نے آئین کو معطل کرتے ہوئے پاکستان میں مارشل لاءنافذ کر دیا۔ ان کے چند اقدامات نے ملک کی جڑوں میں ایسےناسور پیدا کر دئیے جس کی وجہ سے آج تک نہ جمہوریت پنپ سکی نہ ہی ملک اپنے قیام کے حقیقی ثمرات حاصل کر سکا ۔ملک کے اندرسیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ جہاںسیاست دانوں کااسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکاﺅاورعدم اتحاد اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کے لیے جی ایچ کیو کا رخ کرنا بھی ہے، وہیں عوام کا غیر جمہوری رویہ بھی ہے جس کی مثال آجکل موجودہ حکومت کے خلاف ای میل، موبائل پیغامات اور ٹیلی وژن چینلوں پر خبروں کی صورت میں خواہشات پیش کرنا ہے ،یہ سلسلہ گزشتہ دور حکومت میں بھی جاری تھا اور اب بھی جاری ہے۔

ہماری ملکی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس میں زیادہ تر فوجی آمروں نے حکومت کی ہے جن میں ایوب خان 1958ء سے 1969ءتک، یحییٰ خان 1969ءسے 1971ءتک، ضیاءالحق 1977ءسے 1988ءتک اور پرویز مشرف 1999ء سے 2008تک مسند اقتدار پر قابض رہے۔ ان تمام ادوار کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ایک خاص ایجنڈے کے تحت ملکی معاملات چلائے گئے ایوب خان کے دور میں گو معاشی سطح پر پاکستان کو بہت استحکام دیا گیا لیکن سیاسی طور پر اس کے نظام میں وہ خامیاں پیدا ہوئیں جس کا پھل ہم آج تک کھا رہے ہیں۔ خصوصاً دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ ایسا تھا جس کے باعث آج تک ہماری پارلیمان جی ایچ کیو کی گود میں بیٹھنے پر مجبور ہے ۔اس فیصلے سے جہاں ملکی سیاست کو زبردست نقصان پہنچاوہیں جمہوریت پسند اور ملک کی اکثریتی بنگالی آبادی پر یہ واضح کر دیا کہ یہاں اکثریت کا نہیں بلکہ طاقت کا حکم چلے گا اور یقیناً یہی فیصلہ تھا جس نے سقوط مشرقی پاکستان کی راہ ہموار کی۔ اور بالآخر یحییٰ خان کے مختصر و پر آشوب دور میں ہم مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ضیاءالحق نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد 90 دن میں انتخابات کا وعدہ کیا اور ان کے 90 دن مرنے تک مکمل نہ ہوئے اقتدار کو طول دینے کے لیے ملک کو “اسلامی” رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں افغانستان سے کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر وارد ہوا ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کو آمریت کے خلاف قوت پکڑنے سے روکنے کے لیے قوم پرستی کی سیاست کو تقویت دی گئی نتیجتاً فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کو ہوا ملی، خصوصاً اہم صنعتی شہر کراچی اس کا بدترین نشانہ بنا۔
آمرانہ ادوار کے اس ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے بحیثیت عوام ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی کوئی جمہوری حکومت ایسی نہیں جس نے ایک روز جمہوریہ بننے کا اعلان کیا اور اگلے دن جمہوریت کے فیوض و برکات آسمان سے نازل ہونے لگے، بلکہ انہوں نے اس جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے طویل جدوجہد کی۔ جمہوریت کے حقیقی ثمرات سمیٹنے کے لیے ریاست ارتقائی مراحل سے گزرتی ہے ہمارے پڑوسی  ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کیا وہاں پارٹیاں خاندانوں کی ملکیت نہیں؟ مثال کانگریس، نہرو سے سونیا تک، کیا وہاں بد عنوانی نہیں؟ ایک سے بڑھ کر ایک بد عنوان ہندوستانی تاریخ میں گزرا ہے، کیا وہاں غربت نہیں دنیا میں سب سے زیادہ غریب وہیں پائے جاتے ہیں، کیا وہاں جہالت نہیں؟ اکیسویں صدی میں بھی ہندوستان کی شرح خواندگی اسے مہذب اقوام کی صف میں کھڑا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،کیا انہیں علیحدگی کی تحریکوں کا سامنا نہیں کشمیر سے لے کر آسام اور ناگالینڈ تک درجنوں تحریکیں اس کے درپے آزار ہیں ان کے اور ہمارے مسائل یکساں تھے اور ہیں لیکن اس کے باوجود وہ آج ایک ایسے ملک کے طور پر ابھر رہے ہیں جسے مستقبل کی عالمی قوت کہا جا رہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے بہر صورت سیاست کو سیاست دانوں تک محدود رکھا اور فوج کو تمام تر کارناموں کے باوجود اقتدار سے روکے رکھا۔ یہی واحد وجہ ہے جس نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اب بہت زیادہ فرق پیدا کر دیا ہے۔
تقریباً 80ء کی دہائی تک پاکستان اور ہندوستان تقریباً ہر درجہ بندی میں برابر ہی ہوتے تھے لیکن اب پاکستان دنیا کی ناکام ریاستوں میں شمار کیا جانے لگا ہے اور ہندوستان مستقبل کی سپر پاور سمجھا جا رہا ہے موجودہ دور میں بد ترین فیصلوں، ملکی سالمیت پر مجرمانہ خاموشی، معاشی دیوالیہ پن، بد عنوانی کی انتہاہے اور عوام کی نظریں بار بار فوج کی جانب چلی جاتی ہے، نواز حکومت کا خاتمہ ہو یا نئی حکومت کا برسراقتدار آنا ہو عوام کی آخری نگاہیں فوج کی جانب ہوتی ہیں ، حالانکہ سیاست دانوں اور فوجی آمروںدونوں نے ملک کو لوٹا ہے اور زیادہ تر امریت کے شکنجے نے ملک کو گھیرا ہے اگر یوں ہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب ایک دفعہ پھر کوئی آمر ملک کو ویسے ہی جکڑ لے گا جیسا کہ دنیا بھر کے مسلم ممالک کو جکڑا ہوا ہےمغرب کی سب سے بڑی مکاری یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے تو آزادانہ جمہوریت کو پسند کیا اور مسلمانوں کے لیے آمریت کو تاکہ وہ “فتن فردا” کو قابو میں کر سکے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو پیش آنے والے اگلے خطرے کو بڑھنے سے پہلے ہی ختم کر دے۔۔۔۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply