ذیابیطس،سنگین صورتحال۔۔ایم اے صبور ملک/ہیلتھ بلاگ

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں شوگر یعنی ذیابیطس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے،ایک وقت تھا جب یہ مرض معدودے چند افراد کو لاحق ہوتا تھا، اور عرف عام میں اسے امیروں کی بیماری کہا جاتا تھا،جیسے فشارخون اور عارضہ قلب،لیکن آج یہ امراض بنا امیر وغریب کے فرق کے ہر تیسرے مرد و زن کو لاحق ہورہے ہیں،جس کی وجہ سے سرکاری اورنجی شفا خانوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے،اور ریاست کوان امراض میں مبتلا افراد کے علا ج ومعالجہ کے لئے ہر سال پہلے سے زیادہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں،کیونکہ یہ تینوں امراض خاص طور پر شوگر بہت تیزی سے پاکستان میں پھیل رہی ہے۔

خود راقم آج سے تین سال پہلے اس مرض میں مبتلا ہوا،اور گزشتہ تین سالوں میں اس کے علا ج معالجہ اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے کافی جانکاری حاصل ہوئی،پاکستان کے ہر دوسرے گھر میں ایک یا دو ایسے مرد وزن مل جائیں گے جو شوگر سے متاثرہ ہوں،میڈیکل سائنس اس کو سرے سے مرض ماننے سے انکاری ہے،بقول ڈاکٹروں کے یہ کوئی مرض نہیں بلکہ انسان کا روزمرہ زندگی گزارنے کے طور طریقے بدلنے کا نام ہے،جس میں ہمارے کھانے پینے،سونے جاگنے کے معمولات سے لے کر ہلکی پھلکی ورزش،واک اور احتیاطی تدابیر سے ہم اپنا شوگر لیول برقرار رکھ کر نارمل زندگی گزار سکتے ہیں،بنیادی طور پر واقعتاً  ذیابیطس کوئی بیماری نہیں بلکہ دنیا میں صدیوں سے موجود ہے،ہندوستان اور یونانی آریو ویدک کی پرانی کتابوں کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ مرض زمانہ قبل مسیح سے موجود ہے۔

تاہم شوگر کا پہلا معلوم کیس مصر میں 1550 قبل مسیح میں ڈاکٹر میسیراکے چھوڑ ے ہوئے ایک ریکارڈ میں ملتا ہے جس میں اُس نے ایک ایسے مریض کا ذکر کیا ہے جس کو باربار پیشاب آتا تھا،ڈاکٹر کو اس وقت یہ تو معلوم نہ ہوا کہ اس کو کیا مرض ہے لیکن اس نے مریض کو ایک خاص خوراک کھانے کا مشورہ دیا،جس میں پھل،اناج اور شہد شامل تھے،لیکن افاقہ نہ ہوا،کچھ دوسرے ڈاکٹروں نے اس مریض کو بیر،کھیرے کے پھول اور تالاب کے پانی سے علاج کرنے کا مشورہ دیا،سروتا جن جنہیں انڈیا میں طب کا بانی سمجھا جاتا ہے،انھوں نے 422قبل مسیح میں ایک بیماری تشخیص کی جس کو بعد ازاں ذیابیطس کا نام دیا گیا،وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس مرض کی تشخیص اور علاج میں میڈیکل سائنس نے بہت ترقی کرلی،ٹیکنالوجی کے استعمال سے اب کسی بھی مرض کا پتہ لگانا مسیحا کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

تاہم بپرا ہواتو یہ کہ جوں جوں میڈیکل سائنس نے ترقی کی،اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے امراض پرقابو پایا جاتا،لیکن ہوااسکے بالکل برعکس،بقول شاعرمرض بڑھتاگیا جوں جوں دواء کی،والا حساب چل رہا ہے،اور اس میں قصور میڈیکل سائنس کا بھی نہیں،اس کا تو عالم انسانیت کو احسان مند ہونا چاہیے کہ ان امراض کے لئے آئے روز نت نئی دوائیں اور علاج کے طریقے دریافت کررہی ہے،یہ جو فشار خون،عارضہ قلب اور شوگر کی بڑھوتری ہو رہی ہے اس کے پیچھے کوئی گہرا راز نہیں،بلکہ یہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں لائی ہوئی وہ تباہی ہے جس کا شکار آج ہر دوسرا شخص ہو رہا ہے،پیدا ہونے والا نومولود ہو یا بیس سال کا نوجوان،چالیس سالہ بردباد شخص ہو یا ادھیڑ عمر خاتون،کوئی بھی با آسانی اس کا شکار ہو جاتا ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری روزمرہ خوراک اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہے،سادہ متوازن غذا کی بجائے فاسٹ فوڈز کا استعمال،کولڈ ڈرنکس،دیسی مرغی کی بجائے محض چالیس دن میں تیار شدہ گرم خوراک اور مصنوعی ہارمونز کی پیداواربرائیلر مرغی،پاکستان کے ہر کونے ہر علاقے،ہر شہر اور ہر گاؤں میں قائم برگرز،شوارمے اور فرنچ فرائز کی دکانیں اور سٹال،بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں،ریلوے سٹیشنز اور ہوائی اڈوں،نیز پورے ملک میں قائم غیر ملکی فوڈ چین،خالص دیسی ماحول میں پلنے والے دودھ دینے والے جانوورں کی بجائے ڈبے کا دودھ،موبائل کی دنیا میں گم ہو کر آج بچوں کا کھیل کود سے گریز،بنا کسی مستند ڈاکٹر کے ازخود دوائی لینا،بچوں خصوصاً بچیوں کا وقت سے پہلے جوان ہوجانا،یہ سب وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے آج پاکستان کی آنے والی نسل تباہ ہورہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے جیسے یا خود سے کم عمر کسی مرد وخاتون کو جب میں بلند فشار خون،شوگر یا عارضہ قلب میں مبتلا دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے،یہ ہم کس طرف چل دئیے ہیں ایک بیمار شخص کیسے اس معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے جیسا کہ ایک نارمل انسان،اور جب بیماری کے گڑھ تعلیمی اداروں میں کھلے ہوں،جہاں بچوں کو اپنے روایتی کھانوں کی بجائے فاسٹ فوڈز کے نام پر بیماری کھلائی جارہی ہو تو کیا بنے گا ہماراپھر؟مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں یہ سب نہیں ہوتا تھا،بلکہ اس کی جگہ پاپ کارن،دہی بھلے،فروٹ چاٹ،چنا چاٹ یا پھر گول گپے جیسی عیاشی ہوتی تھی جو آج بھی موجود ہے لیکن ہمارا رحجان ادھر کی بجائے فاسٹ فوڈز کی جانب ہے اور یہ فاسٹ فوڈز کھا کر بندہ ایک دن سیدھا ہسپتال پہنچ جاتا ہے اور پھر معلوم پڑتا ہے کہ شوگر لیول متاثر ہے،فشار خون بڑھ گیا یا پھر دل دغا دے گیا،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس جانب فوری توجہ دے اور ہماری آنے والی نسلوں کو اس زہر سے بچایا جائے،وگرنہ آنے والے سالوں میں صورتحال سنگین ہونے کے پورے امکانات ہیں،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply