• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کشمیر کتھا، کا دوسرا افسانہ ” تقریروں کے سائے تلے سسکتے کشمیری”۔۔۔رمشا تبسم

کشمیر کتھا، کا دوسرا افسانہ ” تقریروں کے سائے تلے سسکتے کشمیری”۔۔۔رمشا تبسم

کمرے میں اندھیرا تھا۔فجر کی  آنکھ کھلی، اسے سمجھ نہیں آیا ،ابھی دن ہے یا رات۔اور وہ کہاں ہے؟
اس نے آہستہ آواز میں ماں , باپ کو پکارا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور اٹھ کر زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی .اس نے دماغ پر زور دینا شروع کیا۔اندھیرے کی ایک خاصیت ہے وہ نظروں سے چیزیں اوجھل کر سکتا ہے مگر دل و دماغ سے نہیں اور نہ ہی اندھیرا سوچ کو راستہ بھٹکا سکتا ہے۔اندھیرا اس وقت بھی فجر کی نظروں سےہر چیز اوجھل کر چکا تھا۔
مگر فجر کا دل و دماغ اور سوچ سے کچھ بھی ذیادہ دیر اوجھل نہ رہ سکا۔اسے یاد آنے لگا۔کیسے کرفیو میں ذرا سی نرمی ہونے کی وجہ سے کشمیری رات کے اندھیرے میں احتجاج کے لئے باہر آ گئے تھے۔ فجر بھی گھر والوں کے ساتھ احتجاج میں شامل تھی۔مظاہرین پر حملہ کیا گیا۔ فوجی اس کے بابا کو مار رہے تھے اور بابا کو چھڑوانے کے لئے فجر مسلسل کوشش کر رہی تھی ۔اور اسی دوران فوجی نے فجر کو دبوچ لیا۔جب اسے گاڑی میں ڈالا گیا۔اس نے بھرپور مزاہمت کی مگر فوجیوں نے فجر کو نہیں چھوڑا۔ اس کے چہرے پر کئی  تھپڑوں کے وار کئے گئے اسکو مسلسل گاڑی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اور پھر کچھ دیر بعد ایک جگہ گاڑی رکی۔۔

کشمیر کتھا کا پہلا افسانہ،ہم کیا چاہتے”آزادی”۔۔۔۔رمشا تبسم

آس پاس جنگل سا تھا۔یہ شائد کوئی فوجی کیمپ تھا۔اس کو گھسیٹ کر گاڑی سے اتارا گیا۔اور لاتوں اور گھونسوں سمیت ہر طرح کا تشدد کر کے اسکو چپ کروانے کی کوشش کی گئ۔
اسی لمحے ایک فون آیا۔اور فوجی ایک دوسرے سے دھیمی آواز میں بات کرتے ہوئے واپس بھاگنے لگے۔
“اِس لڑکی کو کمرے میں پھینک دو اب رات کو دیکھیں گے اس کو۔جلدی چلو رویش کمار”۔ایک فوجی نے کہا۔
فجر کو کسی جگہ اندر دھکیل کر دروازہ بند کر دیا گیا۔پھر گاڑیوں کے چلنے کی آوازیں آنا بند ہو گئیں ۔
فجر دروازے کے قریب ہی گری تھی۔اس وقت اس جگہ پر کچھ اور لڑکیاں بھی موجود تھیں۔فجر کو یاد آیا کہ  اس نے رونے کی بہت سی  آوازیں سنی تھیں۔
وہ کسی کو بھی دیکھے, سنے اور پکارے بغیر جلدی سے دروازے کی طرف بھاگی تھی ۔مگر تکلیف کے باعث بے ہوش ہو گئی تھی۔
اور اب ہوش میں آ کر اسکا دل ڈوب رہا تھا۔اس نے دھیمی آواز میں پکارا “کمرے میں کوئی ہے؟کیا کوئی مجھے سُن رہا ہے۔خدارا کوئی ہے تو جواب دے”۔ مگر کمرے میں خاموشی تھی۔ شاید  بھیڑیے اپنے اپنے شکار لے جا چکے تھے۔
اس نے ڈوبتے دل اور بوجھل وجود کے ساتھ تھوڑا آگے بڑھ کر ہاتھوں سے ٹٹولا، دروازہ قریب ہی مل گیا جو بند تھا۔اس نے کھینچ کر کھولنے کی کوشش کی مگر بے سود رہا۔ اور بے بس ہو کر گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی۔
“اماں ۔بابا مجھے ڈر لگ رہا ہے۔بابا جانی آپ ٹھیک تو ہوں گے نا؟۔مجھے یہاں سے لے جائیں بابا”۔وہ اپنے ہاتھوں میں چہرہ دے کر زارو قطار رو رہی تھی۔
ایک دم دروازے کے باہر سے آوازیں آ نا شروع ہو گئیں ۔اس نے آگے بڑھ کر دروازے سے کان لگایا۔باہر قہقہے بلند ہو رہے تھے۔
“آئے بڑے کشمیریوں کے ہمدرد۔۔ساری دنیا جو بھی کر لے کشمیر ہمارا ہی رہے گا۔اور ہم ہی ان پر راج کریں گے”.اسکے ساتھ ہی باہر قہقہے کی آواز بلند ہوئی۔
خبریں سنتے ہوئے فوجی بار بار اونچی آواز میں ہنس رہے تھے۔اور یہ ہنسی پوری دنیا میں کشمیریوں کے حق میں ہوئے احتجاج پر تھی۔

“پوری دنیا کشمیریوں کے حق میں دعا گو ہے۔دنیا میں ہر جگہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔تمام دنیا کا ایک ہی پیغام ہےکہ کشمیریوں , ظلم کی اس فضا میں ہم آپ کے ساتھ ہیں”. اس خبر کے ساتھ ہی فوجیوں نے زور دار قہقہہ لگایا۔

“رام دیو ایک گلاس اور دے۔ابھی نشہ چڑھا نہیں اور نشے کے بغیر شباب کا مزہ نہیں” شیطان کی یہ آواز فجر کو اور سہما رہی تھی۔

فجر آوازیں سنتی بے بسی سے دروازے سے سر ٹکا کر بیٹھ گئ۔
ایک منٹ چپ ہو جاؤ۔۔ آواز اونچی کر رمیش کمار یہ خطاب سننے دے ذرا۔
ساتھ ہی آواز بہت اونچی کر دی گئی۔فجر کو باہر کسی چیز پر چلنے والے بیان کی آواز اب اور بھی صاف سنائی دے رہی تھی اور لگنے والے قہقہوں کی آوازیں دھیمی ہو رہی تھیں۔

“پاکستان کی نمائندگی کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے”

“ہاہاہا۔کر نمائندگی ہماری بلا سے”۔کوئی ہنستا ہوا بولا۔

باہر کسی بیان کو سنتے ہوئے بھارتی فوجی نشے میں دھت محظوظ ہو رہے تھے۔اور مذاق اڑا رہے تھے۔
فجر دھیان سے قہقہوں کو نظر انداذ کر کے بیان سننے کی کوشش کر رہی تھی۔

“جنرل اسمبلی میں بہت سے مسائل پر بات کرنا چاہتا ہوں، سب سے پہلے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات کروں گا”

“ہاہاہا۔ساری باتیں کر ۔۔ہمیں کیا”رمیش کمار جو شکار ہم نے پکڑا ہے اس کو نہ اب دیکھ لیں، ذرا تھکن دور ہو گئی ہے، اب ذرا سکون کی رات گزارتے ہیں”شیطانی آواز بلند ہوئی ۔۔
“جیسی تیری مرضی مگر بیان پورا نہ  سُن   لیں۔یہ دنیا کا کشمیریوں کے لئے ڈرامہ کرنا اور رونا یہ بھی ایک الگ نشہ ہے”۔شیطانوں میں گفتگوں جاری تھی اور قہقہے مزید بلند ہوئے اور فجر کا دل ڈوبنا شروع ہو گیا۔بیان اب بھی جاری تھا۔۔۔۔۔
“چل لگا رہنے دے بیان۔ساتھ بیان بھی سن لیتے”۔کسی نے شیطانیت بھری آواز میں کہا۔
فجر کو قدموں کی بھاری آواز قریب آتی سنائی دے رہی تھی۔جو اب مزید تیز ہو رہی تھی۔۔

“پاکستان میں دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا ہے، کوئی بھی ملک اکیلے ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو نہیں پاسکتا،امید ہے اقوام متحدہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر آگے بڑھے گی”(باہر سے بیان کی آواز مسلسل آ رہی تھی)

قدموں کی آواز اب مزید قریب آئی۔

“‏میرے لیے دوسرا مسئلہ اس سے بھی بڑا ہے، ہر سال اربوں ڈالر ترقی پذیر ممالک سے منی لانڈرنگ ہوتی ہے”بیان بغیر کسی خلل کے جاری تھا۔

ساتھ ہی جھٹکے سے دروازہ کھولا گیا۔فجر جو دروازے کے قریب بیٹھی خبریں سن رہی تھی چونک گئی ۔بیان کی آواز اب دروازہ کھلنے سے مزید صاف سنائی دے رہی تھی۔

“پاکستان میں ٹیکس وصولی کا آدھا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے، پاکستان کے سابق حکمران ملکی دولت لوٹ کر منی لانڈرنگ کرتے رہے،‏کرپٹ لیڈرز کی جائیدادوں کی”.

ایک شخص نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی۔۔روشنی اچانک جلنے سے فجر کو دیکھنے میں مسئلہ ہو رہا تھا اس نے دونوں آنکھیں ہاتھوں سے مسلنا شروع کر دیں۔سامنے کھڑے چار آدمی دو بھارتی فوج کے یونیفارم میں اور دو عام کپڑوں میں تھے۔سب نشے میں دھت اور شیطانیت بھری نظریں فجر پر جمائے ہوئے تھے۔
فجر انکے وحشی چہرے دیکھ سکتی تھی۔اب اس کمرے میں باہر سے آتے بیان کی تیز آواز ,کمرے میں کھڑے درندے اور سہمی ہوئی فجر تھی۔
فوجی ایک دوسرے کو اشارے میں شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ کہہ رہے تھے۔۔
“تیسرے نمبر پر اسلاموفوبیا پر بات کرنا چاہتا ہوں، نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، حجاب کرنے والی مسلم خواتین کو کئی ممالک میں مسئلہ بنا دیا گیا”

فجر پیچھے ہٹنا شروع ہو گئی۔۔اسکو اپنا وجود کسی کال کوٹھڑی میں  بند محسوس ہوا۔وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگی۔جب آگے بڑھ کر ایک شخص نے اسے دبوچ لیا۔
“چھوڑو مجھے  خدا کے لئے” فجر زارو قطار رو رہی تھی۔

“اب مسئلہ کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہوں جس کیلئے میں یہاں آیا ہوں ، جب اقتدار میں آیا تو پہلی ترجیح سب کے ساتھ امن لانا تھی”
کشمیر کا نام سن کر فجر کی آنکھیں باہر سے آتی آواز کی طرف گئیں۔شاید کسی مسیحا کا انتظار آخری سانس تک ہمیں پُرامید رکھ سکتا ہے۔

ایک شخص نے سلگتا ہوا سگریٹ فجر کے چہرے پر لگایا۔اور فجر کے چیخنے پر وہ سب قہقہے لگا رہے تھے۔دو لوگوں نے فجر کو دبوچ لیا۔وہ نازک تتلی سی اپنے پر نوچتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔اسکے آس پاس اس وقت حیوانیت دندناتی  پھر رہی تھی۔اسکی چیخ و پکار درندوں کے قہقہوں اور باہر سے آتے بیان کی اونچی آواز میں دب رہی تھی۔۔

“نائن الیون کے بعد ہمیں بتایا گیا افغانستان میں جہاد نہیں دہشتگردی ہے اس لیے امریکہ کی جنگ میں شمولیت کا مخالف تھا”

کشمیریوں کے سسکنے اور تڑپنے کو زوال کیوں نہ تھا،دنیا نے صرف الفاظوں اور احتجاجوں سے ہمیشہ کشمیریوں کا بھرپور ساتھ دیا مگر حقیقت میں تمام ایٹمی طاقتیں کشمیریوں پر ہونے مظالم پر بے بس تھیں ۔
فجر کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ جنگ صرف کشمیریوں کی جنگ ہے اور انکی ہی رہے گی ۔اور فجر اپنے حصے کی جنگ اب ہار چکی تھی۔
چاروں فوجی فجر پر ٹوٹ پڑے۔نوچ کھسوٹ بے دردی سے جاری تھی۔ فوجیوں کے قہقہوں, گالیوں اور بیان کی باہر سے آتی اونچی آواز کے باوجود وقتاً فوقتاً فجر کی کرب ناک چیخوں سے کمرہ گونج اٹھتا۔۔

“‏دنیا نے حالات جان کر بھی کچھ نہیں کیا کیونکہ بھارت ایک ارب سے زیادہ کی منڈی ہے۔‏مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹتے ہی خون بہنے کا خدشہ ہے، مقبوضہ کشمیریوں میں لوگوں کو گھروں میں بند کرکے کیا حاصل کیا جائے گا” باہر چلتے بیان کے ساتھ ساتھ اکثر تالیوں کی آواز بھی بلند ہورہی تھی جس سے فجر کی چیخوں کی آواز سنائی دینا بند ہو جاتی۔

یہ اذیت ناک سلسلہ شروع ہوتے ہی فجر نے خود کو آزاد کروانے کی کوشش کی تھی مگر اب وہ ان درندوں اور بھیڑیوں کی وحشت سہتی انکا تختہء  مشق بنی بے جان ہو رہی تھی۔فجر کا وجود چار بھیڑیوں کی درندگی سے مسلسل مسلا جا رہا تھا۔فجر کی آہیں اور چیخیں دھیمی پڑ رہی تھیں ۔درندوں کی وحشت اور بیان کی آواز اب عروج پر تھی۔۔

“ایک ارب 30 کروڑ مسلمان دنیا بھر میں کشمیریوں پر مظالم دیکھ رہے ہیں،‏دنیا بھر کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کشمیریوں پر صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم ہو رہا ہے”

مسلسل کئی منٹوں سے درندگی سہتی فجر کا رواں رواں بری طرح مسلا جاچکا تھا ،مگر گدھ نما حیوان اب بھی حیوانیت کے ننگے ناچ میں مصروف تھے، اور بلآخر حیوانیت نے اس معصوم کی جان کو اتنا پامال کیا کہ وہ بے جان ہونا شروع ہو گئی۔اب جسم میں مزاحمت باقی نہ رہی۔

فجر کی بند ہوتی آنکھیں سامنے کھلے دروازے پر تھیں جہاں باہر سے بیان کی آواز آ رہی تھی اور اسکو چلنے والا بیان وحشیوں کے قہقہوں کے درمیان اب بھی سنائی دے رہا تھا۔۔
آواز کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ درندوں اور بھیڑیوں سے بھی خوف نہیں کھاتی اور آزادی سے سفر طے کرتی ہے۔یہاں صرف آواز آزاد تھی خواہ وہ بھیڑیوں کے قہقہوں کی ہو, باہر چلنے والے بیان کی یا فجر کی کرب ناک چیخوں کی۔۔۔
” ہم آخری سانس تک لڑیں گے، جب آخری سانس تک لڑیں گے تو نتائج کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں”
باہر سے آتا یہ جملہ انسانیت کے منہ پر زور دار تھپڑ تھا۔اور کشمیر کے ٹھیکیداروں پر تُف تھی۔۔

اور ایک دم تیز دھار آلے سے فجر کے مسلے ہوئے وجود کی شاہ رگ کاٹ دی گئی۔۔

“انسانیت کا ساتھ دیں، بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانا ہوگا اور سیاسی قیدی رہا کرنے ہوں گے”
اس جملے کے ساتھ ہی تالیوں کی باہر سے آتی آواز ختم ہونے سے پہلے ہی فجر کی روح اسکے خاکی وجود سے پرواز کر گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور کشمیریوں کے حق میں ہونے والی خالی اور خاکی تقریروں کے نیچے کشمیری زندگی ہمیشہ یونہی سسکتی رہے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply