باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ۔۔۔۔ناصر خان ناصر

ساری بات اکنامکس اور پیسے کی ہے ۔۔۔
باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ۔
چار پیسے کی میت دنیا، آج کل سچ تولتی ہے، نہ حق بات مانتی ہے۔ چار سو صرف اپنی تجارت، مفادات اور اپنے فائدے ہی دیکھے جاتے ہیں۔ ہندو بنیا ایک تو منہ کا میٹھا ہے، دوسرا سیانا کوّا بھی ہے۔ پچھلی کئی  دہائیوں سے جب ہم غفلت میں سوئے پڑے رہے اور وزیر خارجہ تک نہ رکھا، بھارت نے اپنے محبِ وطن سمجھدار لوگ ساری دنیا میں بطور سفیر پھیلا کر ہر ملک سے تجارت سفارت میں اپنے پکے تعلقات استوار کر لیے۔ ہمارے چاچے مامے نالائق سفیر صرف ڈالر بٹور کر عیاشیاں ہی کرتے رہ گئے۔

ابھی تک باہر کے ممالک میں پاکستانی سفیروں کا ہر جگہ یہی حال ہے۔ امریکہ میں کسی پاکستانی سفارت خانے یا قونصلیٹ میں چلے جائیے، ہمارا سفیر آئیوری ٹاور پر بیٹھا رہ جائے گا مگر اپنا چہرہ مبارک تک نہ دکھائے گا۔ بد تمیز عملہ چھوٹے سے کام تک کے لئے ٹال مٹول کر کے دوبارہ یا سہ بار بلائے گا۔

ہم امریکن سٹیزن ہیں۔ پاکستان جب بھی گئے، وہاں امریکن سفارت خانے گئے تو سفیر نے خود اپنے آفس سے باہر آ کر ہمارے حال چال پوچھے۔ مسکراتے خوش اطوار عملے نے ہر کام منٹوں سیکنٹوں میں کر دیا۔

پوری دنیا کے سفارت خانے اپنے شہریوں کی اسی طرح ترنت مدد کرتے ہیں۔ ہمارے چور اور نکمے نا اہل لوگ ملک و ملت کی بھلائی  کے لیے کوئی  کام نہیں کرتے۔ خود کو سپیرئیر سمجھ کر اپنے ہی لوگوں سے نہیں گُھلتے ملتے تو ملک و ملت کے لیے تنکا توڑنا بھی ان کے لیے دشوار ہے۔

ایسے حالات میں برادر مسلمان ممالک کا بھی ہم سے منہ پھیر کر بھارت کی گود میں جا بیٹھنا ہماری ناقص سمجھ میں تو بخوبی آتا ہے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ تمام مسلمان ممالک جنہوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، وہاں کے سارے پاکستانی سفیروں کو فائر کر کے نئے مخلص، قابل اور اہل لوگ رکھے جائیں جو اپنا سفارتی کام کرنا بھی جانتے ہوں۔

ہمارے نکھٹو ،اَن پڑھ، جاہل وزیر مشیر بھی جب باہر کے ممالک میں جاتے ہیں تو اپنا سارا ٹبر ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ انھیں سوائے شاپنگ اور سیر و  تفریح کے کسی اور کام سے ہرگز دلچسپی نہیں ہوتی۔

پھر ہمارے تمام کے تمام لیڈروں نے سارے اندرونی وسائل اور بیرونی قرضے ہڑپ کر کے ڈکار تک نہ لی۔ ہمارے ہاں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی  تصور تک نہیں ہے۔ نہ کبھی کوئی  آڈٹ کیا جاتا ہے نہ کہیں کوئی پڑتال۔ حکومتی حکام سے کسی قسم کی جوابدہی کا کوئی  سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اندھیر نگری چوپٹ راجہ بنے ہمارے وطن عزیز میں جہاں جس کا جو داؤ لگتا ہے، وہی کھا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سارا معاشرہ ہی تباہ ہو چکا ہے۔ چھوٹے بڑے سبھی چور بن چکے ہیں۔ سب کے سب لوگ رشوت خور ہیں اور تعلقات، سفارش وغیرہ کی بنیاد پر ہی سارے کام چلتے ہیں۔ انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ بدامنی بد حالی اور مہنگائی  کا عفریت منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ اچھی تعلیم صحت تو درکنار، بنیادی ضروریات بجلی پانی گیس تک کا فقدان ہے۔ غریب کا کوئی  پُرسانِ حال نہیں۔ اسی کرپشن، غربت اور عوام کی بدحالی نے ہمیں دنیا بھر کا وہ غریب رشتہ دار بنا دیا ہے، جسے دیکھتے ہی نظریں پھیر کر سرد مہری اختیار کر لی جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply