قرآنک تھیوری اور اُمت کا اتفاق۔۔۔۔۔ کاشف حسین سندھو

میں نے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں نے ایک مدت ان تاریخی مغالطوں میں گزاری جو مذہبی تعبیرات کے زیرِ اثر پیدا ہوئے تھے، مثلاً۔۔۔
ایک زمانے میں ہمیں ہمارے مذہبی و سماجی مفکرین کی جانب سے قرآن کی اس آیت ” اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو وگرنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ” کے ذریعے یہ سمجھایا جاتا تھا کہ یہ جو مسلمانوں پہ زوال طاری ہے یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے قرآن کی ہدایت کے مطابق آپسی اتحاد کو ختم کر دیا تھا اور تفرقے کا شکار ہو گئے تھے لیکن جب ہم نے تاریخ پڑھنی شروع کی تو کہانی بالکل اُلٹ نکلی۔

مسلمانوں کے نام نہاد  عروج کے دور میں مسلمانوں کا باہمی تفرقہ عروج پر تھا بلکہ انکے حریف عیسائی اکثر پاپائے روم کے جھنڈے تلے صلیبی اتحاد بنا کر لڑتے تھے ( ملاحظہ ہو پونے دو سو برس تک چلنے والی صلیبی جنگیں اور خلافتِ عثمانیہ کے حملوں کے خلاف مشترکہ دفاع ) گویا کہ اسوقت امتِ مسیح کے سیاسی اتحاد کا تصور عملی طور پہ موجود تھا ،البتہ امت مسلمہ کا تصور اثر پذیر نہ تھا ،صلیبی حملوں کا سامنا بھی کسی مشترکہ مسلم اتحاد کے ذریعے نہیں کیا گیا تھا عموماً کوئی ایک مسلم حکومت ہی اسکا سامنا کرتی تھی ،پہلے حملے کا سامنا سلجوقیوں نے اکیلے ہی کیا ،اسکے بعد زنگی و صلاح الدین و مملوک اپنے اپنے ادوار میں بطور فرمانرواء شام و مصر انہیں جھیلتے رہے ،انکے دائیں بائیں مسلم حکومتیں موجود تھیں، مراکش میں مئوحدین اور بغداد میں خود مسلم خلیفہ براجمان تھا، لیکن کوئی مسلم اتحاد نہیں بنا ،اسی طرح آگے چلیے تو خلافت ِ عثمانیہ صدیوں تک ایک طرف یورپ کے مسیحی کلچر میں اپنے قدم بڑھاتی رہی اور دوسری جانب “مسلمان بھائیوں” کا پانجا لگاتی رہی ،انہوں نے مصر کی مملوک سلطنت ختم کی اور ایرانیوں سے مستقل محاذآرائی جاری رکھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئینے کے دوسری جانب دیکھیں تو یہی معاملہ مسلمانوں کے ساتھ ہوا ،اکیلا انگریز برصغیر میں گھسا اور دس مسلم سلطنتوں کو آگے لگا کر جیت گیا ،دوسری مثال عرب اسرائیل جنگ کی ہے، جس میں 6 رکنی عرب اتحاد جسے باقی مسلم دنیا کی اخلاقی حمایت بھی حاصل تھی، بری طرح شکست سے دوچار ہوا ،گویا کہ عجیب معاملہ ہے کہ جب بھی مذہبی عصبیت کے نام پہ امت کے وجود کا تقاضا کیا جاتا ہے تو وہ نا صرف یہ کہ بن کے کامیاب نہیں ہو پاتی بلکہ مسلم و مسیحی اقوام کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مطالبہ خود دورِ زوال کی نشانی ہے، جب بھی کسی قوم کی مت ماری جاتی ہے تو وہ اپنے زوال کی درست وجوہات پہ غور کرنے کی بجائے امت کے اتحاد جیسے   تصورات پہ دھیان دینے لگتی ہے، پیچھے رہ گئی قرآنک تھیوری تو اس پہ علمائے کرام سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی نئی تاویل کریں ،علمِ تاریخ کم از کم اس تھیوری کو مسلمانوں کے سیاسی اتحاد کے معاملے میں اب تک ثابت کرنے سے قاصر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply