زاویہ(ایک حکایت)نیا رنگ۔۔۔۔۔جواد بشیر

آج کا دن قیامت جیسا طویل معلوم ہوتا تھا،ناچاہتے ہوئے بھی کچھ کاموں کو کرنا،طبعیت پہ بوجھ کا سبب بنتا ہے۔۔خیر آج بھی کچھ ایسا ہی تھا،شادی کے لیے کروایا ہوا کمرے کی دیواروں کا رنگ شادی کے بعد محبت کی طرح ہی پھیکا پڑ چکا تھا۔۔اور بیٹی کو رنگوں سے کھیلنے کی اجازت دینے سےدیواریں اپنی اصل رنگت کھو کر خاصی بھدی دکھائی دیتی تھیں۔۔آج کی کارروائی اسی سے متعلق تھی۔۔۔

معمول کے مطابق رنگ ساز نے سارا کام مکمل کیا،اور چلتا بنا۔۔اور اب کمرے کی دیواروں پہ یہ نیا رنگ پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا،جس کی خوشبو ہی الگ تھی۔۔
پرانی دیوار جِسے دیکھ دیکھ کر میں مانوس ہوچکا تھا،یکسر بدل گئی تھی،کوئی داغ نہیں،ساری دیوار ایک رنگ ہوچکی تھی،اپنے ماضی کو جیسے طنزیہ مسکراہٹ دے کر کہہ رہی ہو،دیکھو !تنے پیار سے اب مجھے سجایا جارہا ہے۔

یہ دیوار اپنے ماضی سے مُکتی پاچکی تھی،جو چھوٹے چھوٹے گڑھے یا دراڑیں دیوار میں پڑی تھیں،انہیں بھی رنگ ساز نے مہارت سے بھر دیا تھا۔بِنا کسی شگاف اور بھدے لگنے والے رنگوں کے،دیوار آنکھوں کو سکون دے رہی تھی۔۔

پھر اچانک دماغ میں ایک گھنٹی سی بجی۔۔
“کیا دل کی دیواروں پہ بھی محبت کا نیا رنگ کیا جاسکتا ہے”۔۔؟
کیا کسی کی دغابازیوں سے ذات میں پیدا ہوئے شگافوں کے لیے کوئی رنگ ساز بلایا جاسکتا ہے؟
کیا ہم ا س دیوار کو یکسر بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا بدلنا نہیں چاہتے؟
کیا پرانے ہوچکے بیوفائی کے پھیکے رنگوں کو ہمیشہ دیکھتے رہنا مقد ر ہے یا ہمارا اپنا انتخاب؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

کہتے ہیں اب دل بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے،ایسی ٹیکنالوجی آچکی ہے،جو آپ کا پرانادل بدل کر نیا دل لگا دیتی ہے،
کیا ایسا کرنے سے ہماری کیفیتوں کی دیوارِ محبت پہ کچھ اثر پڑتا ہوگا؟
کیاہم اس نئے رنگ کی بدولت پرانی یادوں سے پیچھا چھڑا سکیں گے؟
کیا دل کی دیوار کو محبت کے نئے رنگوں سے مزیّن کیا جاسکتا ہے؟
کیا پچھلے داغ ایک ہی بار کی صفائی میں غائب ہوسکتے ہیں؟

Facebook Comments

جواد بشیر
تحریر بارے اپنی رائے سے کمنٹ میں آگاہ کیجیے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”زاویہ(ایک حکایت)نیا رنگ۔۔۔۔۔جواد بشیر

  1. اگر ہم دل کی دیوار پر نیا رنگ کرنا چاہیں ۔۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے ہم اپنے ماضی کو ہی نہیں بھولنا چاہتے کیون کہ ہمیں اس یادِماضی میں عجیب سی لذت و سکوں حاصل ہوتا ہے۔

Leave a Reply to Furqan Randhawa Cancel reply