سماج، عورت اور مخنث: ایک تبصرہ

دنیا میں جب بھی کسی قوم کا غلبہ ہو تو اس قوم کی اقدار، معاشیات اور رسوم کا دوسری اقوام پر خاطرخواہ اثر پڑتا ہے اور خاص کر ان اقوام پر جنکی اپنی کوئی پہچان نہ ہو۔ شروعاتی ادوار میں تہذیبوں کا اختلاط زیادہ تر جنگوں کے بعد ہوا کرتا تھا جب ایک قوم کسی دوسری قوم پر بادشاہت کرتی تو وہ بہت سے رسوم و آداب چھوڑ جایا کرتی تھی۔ اب جب دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے تو یہ کام زیادہ تیزی سے اور زیادہ پر اثر انداز میں ہونا شروع ہوا ہے۔ ہمارے دور میں یورپی اقوام کا چونکہ غلبہ ہے تو انکا خاطرخواہ اثر ہمارے ہاں کے کچھ بڑے چھوٹے سب ہی دماغوں پر ہوا ہے۔اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہم نے سوچنا شروع کردیا ہے لیکن چونکہ ہمیں اساتذہ میسر نہی ہیں اور نہ ہم پرانے لوگوں سے سیکھنے میں کچھ فائدہ دیکھتے ہیں اسلئے اس سوچنے کا رخ بعض اوقات بدل جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سارے موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔

مکالمہ کانفرنس میں، سیکس اور سماج نامی کتاب کے مصنف جو کہ میرے لئے ایک قابل احترام شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنا موقف بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا، جسے کچھ لوگوں نے سراہا، کچھ نے صحت مند تنقید کی اور بعض روایتی انداز بھی اپناتے ہوئے نظر آئے۔ میں اگر اختلاف کر رہا ہوں تو درخواست اتنی سی ہے کہ اسکا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ میں انکے مقدمے کے خلاف ہوں۔ ہمارے سماج میں وہ برائیاں بلکل موجود ہیں جنکی طرف انہوں نےا شارہ کیا لیکن کیا یہ برائیاں اس درجے میں موجود ہیں جس درجے میں اسکا احساس دلایا جاتا ہے۔

اس صدی میں داخل ہوتے ہی جو نعرے باآواز بلند لگائے گئے ان میں سے ایک نعرہ عورت کی آزادی سے متعلق بھی ہے۔ یہ خوش آئند بات تھی کی مرد حضرات میں عورت کی ذات کو تسلیم کرنے کی جرات پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی۔ لیکن اس جھنڈے تلے جو کچھ ہوا اور اب بھی ہو رہا ہے اس میں کچھ قابل اعتراض چیزیں ضرور موجود ہیں۔ اس نعرے کے تحت عورت کو اس احساس کمتری میں مبتلا کیا گیا کہ اسے مسلسل مردوں کی طرف سے دبایا جارہا ہے اور مرد حضرات کی طرف سے اسکا استحصال کیا جا رہا ہے۔ جب بھی کسی نئی چیز کو لانچ کیا جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ اسکی ضرورت پیدا کی جائے۔ فیمنزم کا چورن بیچنے کو یہ بہت ضروری چیز تھی کہ اس چیز کا احساس پیدا کیا جائے کر عورت کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اسکے بعد اس چیز کا ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ عورت اٹھ کھڑی ہو اور مرد کے برابر کے حقوق حاصل کرے۔

حقوق، حقوق ہوتے ہیں، برابر یا متوازی حقوق کیا ہوتے ہیں یہ آج تک مجھے سمجھ نہ آسکا۔ آپ یہ نعرہ بلند کریں کہ عورت کو اسکا حق ملنا چاہیے تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ برابر کا حق ملنا چاہیے اسکا کیا مطلب ہوا؟

خیر، میرا یہ موضوع نہی، ہاں ایک بات ہمیں ضرور مان لینی ہوگی کہ ہمارےمعاشرے میں ابھی تک لاشعوری طور پر عورت کے متعلق کچھ تصورات پائے جاتے ہیں جنہیں ہم دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسکا حل شدت پسند عورت کو گھر میں بند کردینے کو اور لبرل عورت کو باہر نکال لینے میں جانتے ہیں حالانکہ اسکا حل تربیت میں ہے۔ ہماری تربیت ہی وہ معاشرہ کرتا ہے جو اخلاقی گرواٹ کے اعلیٰ میعار کا عکاس ہے۔ تو اس معاشرے سے پاکیزگی کی امید آپ کیسے کرینگے؟

مجھے جس بات سے شدید اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ آج بھی ایک بات کو کچھ طبقوں کی طرف سے بار بار دہرایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کو کمزوری کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ عورت کو کبھی (شائد کبھی کوئی ہزاروں سال پہلے) کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہو ورنہ آپ یونانی متھالوجیز اٹھا لیں آپکو جہاں دیوتا ملیں گے وہیں دیویاں بھی مل جائیں گی۔ کسی خاص پوسٹ کے لئے کسی کو مناسب نہ گردانے جانے کا مطلب اسے کمزوری کی علامت سمجھنا تو نہی ہے۔ میرا خیال عورت اپنی فطرت میں نرم مزاج واقع ہوئی ہے۔ عورت کے لب و رخسار اور اسکی نزاکت کی تعریف کی جاتی ہے، اب کوئی مرد اٹھ کر کہے بھائی یہ تو زیادتی ہے ہمارا استحصال ہورہا ہے ذرا میرے لب و رخسار کو پھول کی سرخی سے تشبیہ دیں تو آپ کیا کل کو ایک نئی تحریک کی بنا ڈال دینگے؟ یا یہ کہیں گے کہ شاعر مرد کا استحصال کر رہے ہیں؟

میرا خیال ہے اس مرد کی اس بات کے جواب میں آپ لفظ "بیوقوف" استعمال کرنا زیادہ مناسب سمجھیں گے۔

مخنث (ٹرانس جینڈر) حضرات کے ساتھ ہونے والے معاملات کا تعلق کسی بھی قسم کی کمزوری سے کم اور جہالت سے زیادہ ہے۔ تو بجائے ایسی بے تکی باتوں کہ میرا خیال ہے کہ ہمیں تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں اس بات کا احساس اجاگر کرنا ہوگا کہ انسان کی قدر و قیمت اور منزلت کیا ہے، اسکی معراج کیا ہے۔کسی کے ہکلانے کا مذاق اڑانے کی ذمہ دار اسکی کمزوری نہی میری جہالت ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم کمیوں کا احساس دلا کر احساس کمتری میں لوگوں کو مبتلا کردیتے ہیں۔ حالانکہ کسی کا مذاق اڑانے والا ایک جاہل انسان ہوتا ہے۔

یہ غیرت کے نام پر قتل، عورتوں کے معاملے میں حساس ہونا، انہیں انسان تصور نہ کرنا اور ایسے بہت سارے معاملات کا تعلق معاشرے یا مذہب کی اقدار سے کم اور افراد کی جہالت سے زیادہ ہوتا ہے۔ تو افراد کی جہالت کو مخاطب کیجئے، وہ زیادہ بہترین طریق ہے۔

آپ کہیں گے بات تو ایک ہی کان ادھر سے پکڑو یا ادھر سے، بلکل بھی نہی بات بہت مختلف ہے۔ عورت کو یا مخنث حضرات کو اس طرف اکسانا ایک جنسی تفریق پیدا کرنا ہے اور اس تفریق کی بنیاد پر گروہ بندی کرنا ہے۔ اس سے معاشرے میں اصلاح ہرگزنہی ہوگی۔ ہمیں معاشرے کی تربیت کرنا ہوگی، خواہشات کا احترام کرنا سکھانا ہوگا۔ اب اگر انعام رانا بھائی مکالمہ کی بجائے کوئی اور ویب سائٹ شروع کرتے اور اپنی مرضی کے چار لوگوں کو پکڑ کر جن چیزوں کو مناسب نہی سمجھتے ان پر تنقید شروع کردیں اور اس طرح لیفٹ اور رائٹ ونگ کے جھتے بن جائیں تو کیا یہ کوئی صحت مند کام ہوگا؟ جی نہی، بلکہ یہ فساد ہوگا۔

ہمیں غیر جنس کے احترام کو وجود میں لانا ہوگا۔ ورگرنہ ہم یورپی اقوام سے ان اقدار کو مستعار لے کر کچھ اچھا نہی کر رہے اور میں سچ عرض کرتا ہوں کہ یہ ہمیں ایک ایسے سفر پر گامزن کردے گا کہ پھر بس ہم یہی کہتے پھرینگے کہ

Advertisements
julia rana solicitors

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ اِدھر کے رہے نہ ادھرکے

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply