متفق، شدید متفق، میرے منہ کی بات ۔۔۔ محمد اشتیاق

فیس بک جب سے آیا ہے ہماری زندگی اس تک محدود ہو گئی ہے۔ پہلے پہل شغل تھا، پھر بڑھ کے رابطے کا ذریعہ بنا، پھر ہر قسم کی پروپیگنڈا مشین۔ پچھلے 4،5 سال سے سنجیدہ لوگوں کا مسکن بننے لگا ہے۔ ہر شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیت نے اپنی امیج بلڈنگ کے لئے اس کا سہارا لینا شروع کیا۔ شوبز، سپورٹس، مذہب، صحافت، ادب کوئی شعبہ بھی اس سے دور نہیں۔ ہر شعبے کی بڑی بڑی شخصیتیں اس کو اپنا مسکن بنا چکی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی تھوڑے کمتر یا یوں کہہ لیں کہ نئے لوگوں نے بھی اپنی سی کوشش شروع کر دی ہے۔ تقریبا ہر شعبے سے نئے لوگ اس کے ذریعے پہچان بننانے میں جتے ہیں۔

میرا تعلق تین شعبوں سے بڑا قریبی ہے: آئی ٹی، سپورٹس اور صحافت/ادب۔ آئی ٹی دال روٹی کا ذریعہ، کرکٹ میرا شوق اور ادب/صحافت کا 3 عشروں سے قاری۔ آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد سوشل میڈیا پر پائی جاتی ہے تاہم آئی ٹی سے منسلک لوگ سوشل میڈیا پر اتنے سے نظر نہیں آتے جتنے ہونے چاہیے ہیں۔ سپورٹس کے حوالے سے بہت لوگ نظر آتے ہیں۔ خبروں کی شئیرنگ بھی بہت ہوتی ہے اور ایشوز پہ بحث بھی بہت ہوتی ہے۔ لوگ ذاتی تشہیر بھی کرتے ہیں اور اس پر مثبت کمنٹس اور لائیکس بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی پوسٹس یا تشہیری حربے دیکھ کر کبھی بھی طبیعت مکدر نہیں ہوئی۔ ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ نسبتاً کم تعداد میں ہیں۔ پرانی جانی مانی ادبی شخصیات ابھی اس طرف اتنا راغب نہیں ہوئیں۔ صحافت سے وابستہ لوگ بہرحال اچھی تعداد میں موجود ہیں البتہ ٹاپ نوچ کی اکثریت کی توجہ ٹوئٹر پہ مرکوز ہے۔

نئے آنے والے ادب اور صحافت کے طالب علموں نے البتہ طبیعت اوازار کر دی ہے۔ ذاتی تشہیر میں اس حد تک بڑھے ہوئے ہیں کہ پیسے کا بے دریغ استعمال، تعلقات کے ہتھیار، منت کے میزائل غرضیکہ کیا چیز ہے جس کے ذریعے حملہ آور نہیں ہو رہے۔ فیس بک پہ زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے لائیکس اور کمنٹس کی تعداد پر مشتمل حفظ مراتب کا ایک اور موضوع شروع ہو چکا ہے۔ اس دربار میں سبھی ایک ہوئے ہیں کوئی مولوی لکھاری ہے یا مذہب بیزار، کوئی سیاسی لکھاری ہے یا غیر سیاسی ہر شخص کو لائکس اور کمنٹ چاہیے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کمنٹس بھی “موافق” اور اپنی مرضی کے چاہیے ہیں۔ اگر آپ کے سہہ ہزار لفظی مضمون میں سے کسی نے 100 لفظوں کی مخالفت کر دی تو سمجھیں آپ جیسے “واجب القتل” ہی ہو گئے ۔ اب اس “قتل” کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔

طریقہ واردات یہ ہے کہ آپ گوگل، کسی پرانے جریدے، نیٹ فلکس یا کسی پرانی مذہبی یا ہسٹری سے کوئی چیز اٹھائیں، اس کی نوک پلک سنوار لیں اور پھر اگرپیسے زیادہ ہیں تو پاکستان میں موجود غریب لکھاریوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ذہن میں رکھنا ہے کہ موضوع متنازعہ ہو، اگر متنازعہ نہیں ہے تو کسی ایک گروہ کے مخالف ہو، یعنی اگر آپ مذہبی لکھاری ہیں تو ایک دن شیعہ کے حق میں اور اگلی دفعہ خلاف لکھیں۔ اگر آپ سیاسی لکھاری ہیں تو ایک دن پی ٹی آئی کے حق میں اور دوسرے دن ذرا کم حق میں لکھیں (سیاست کی حد تک اس کا اثر وہی ہو گا جو کسی دوسرے شعبے میں خلاف لکھنے پہ ہوتا ہے)۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اپنے سے اوپر والے گریڈ کے 10، 15 لوگ جن سے آپ نے “بنا کر” رکھی ہوئی ہے یا جن کو آپ “زینہ” سمجھتے ہیں، کو “ٹیگ” کر دیں۔

اس کے بعد جو لوگ آپ اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں، وہ اول تو خود آ جائیں گے، جو نہ آئیں ان ناہنجاروں کو “ان باکس” کر دیں۔ اگر آپ ان “ونگارے” لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو کسی بھی مشہور شخصیت کی گھٹیا سی تحریر دیکھ لیں جس کا موضوع “شلجم کی غذائیت اور اس کے سیاسی اثرات” بھی ہو سکتا ہے۔ آپ ان لوگوں کے انگوٹھے اور “متفق”، “شدید متفق” کے کمنٹ سے ان کی پہچان کر سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ذہنی طور پہ مانتے ہیں کہ صاحب تحریرجیسا بھی “چ۔۔ چیتا” ہے وہ ان سے زیادہ “ACCESS” رکھتا ہے۔ یہ “اکسیس” یا پہنچ فالوونگ کی صورت بھی ہو سکتی ہے اور بڑے لوگوں سے تعلقات کی صورت میں بھی۔ ایک کمیاب صورت “پیسہ ” بھی ہے۔ یہ لوگ خوشامدی بھی ہو سکتے ہیں اور سائل بھی لیکن ان میں اکا دکا آپ کو جینوئن “متفق” والے بھی نظر آئیں گے۔ ان کو ڈھونڈنا اتنا مشکل نہیں کیوں کہ کسی پوسٹ پہ وہ اختلاف کرتے بھی نظر آ ہی جائیں گے۔

خیر ان “متفق” اور “شدید متفق” (شدید متفق کو آپ باہر سیڑھیوں پہ بیٹھا مشیر سمجھ سکتے ہیں) والوں سے ایک اوپر گریڈ کا فالوور بھی ہوتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میرا گریڈ تو اس پوسٹ والے کے برابر کا ہے لیکن مجھے بھی ایسی ہی سپورٹ چاہیے ہوتی ہے اور پوسٹ والے صاحب نے کبھی میری وال پہ تبھی کمنٹ کرنا ہے لہذا میرا اس بے مقصد خرافاتی لفاظی پر کمنٹ تو کرنا پڑے گا۔ سوشل میڈیائی انسانوں کی یہ پیڑھ اپنے آپ کو سمجھدار ظاہر کرنے کے لئے تھوڑا الگ سا انداز اپناتی ہے۔ سنئیے اور سر دھنیے: “آپ نے تو بالکل میرے منہ کی بات چھین لی”، “میں یہی لکھنا چاہتا تھا”، “میری سوچ کو الفاظ دے دئیے” وغیرہ وغیرہ۔

ان میں ایک اور خوبی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ایسے لوگ جب کچھ لکھیں گے تو اس کے شروع میں “بیبلیوگرافی” دی ہوتی ہے کہ ان کو اس پوسٹ کے ذریعے کس کس کی خوشامد کرنی ہے یا کس کس کے موضوع اٹھانے پر ناراضگی کا ڈر ہے۔ ان کی خوشنودی کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پہ تمہیدی نوٹ لکھ دیتے ہیں۔

اگر آپ کو ایسے حضرات کی پوسٹس پڑھنی ہے تو چند احتیاط بھی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ان سے اختلاف کی جرات نہ کریں۔ 400 لائکس اور 500 کمنٹس والی پوسٹ پہ کسی بھی قسم کا اختلاف “بلاسفیمی” سمجھا جائے گا۔ ان کو لگتا ہے کہ ان کی پوسٹ خراب ہو گئی ہے۔ ان کے خیال سے ایسا اختلاف ہونے پر ان کے ترقی کے زینے پہ چڑھنے کے عمل میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ چونکہ ہر موضوع پر وہی حرف آخر ہیں لہذا اختلافی نوٹ ان کی بے عزتی ہے۔ اس بے عزت کا بدلہ اس طرح لیا جاتا ہے کہ اختلاف کرنے والے پر اپنا پالتو جتھہ چھوڑ دیا جاتا ہے جو زیادہ ظالمانہ اس وقت ہو جاتا ہے جب خواتین کی شکل میں ہو۔ خواتین کو دیکھ کر “بھائیوں” کی اچھی خاصی تعداد اکٹھی ہو جاتی ہے اور پھر “اخلاقیات کا دائرہ” بھی وسیع ہو جاتا ہے۔ اس اخلاقیات کے دائرے کو اپنے مرضی سے موافق لوگوں کے حق میں کھلا اور مخالف لوگوں کے خلاف تنگ کیا جا سکتا ہے۔

اب اخلاقیات کے دائرے پر بات چلی ہے تو بتاتا چلوں کہ دوسری احتیاط یہ ہے کہ ان سے “کردار” کی امید نہ رکھیں۔ یعنی اگر ایک دن کسی ایک فرقے کے خلاف کسی موضوع پہ دلیلیں دے رہے ہیں تو دوسرے دن اسی موضوع پہ اس کے حق میں دلیل دینے پہ بھی آپ نے سوال نہیں اٹھانا۔ اگر ایک دن وہ اسلام کا نام لینے کے ساتھ ساتھ شراب پینے کا اعتراف کر کے لبرل این جی اوز والے حضرات سے داد وصول کر رہے ہیں اور دوسرے دن “مسلمانوں ” کو بتا رہے ہوں کہ ان کو فلاح کے لئے کیسے کوشش کرنی چاہیے تو بھی آپ انہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ بھائی اگر اسلام کی تعلیمات کی پابندی نہیں کر سکتے تو اس کا مذاق اڑانا بند تو کرو۔ اس کے بعد مسلمانوں کی تربیت کا ٹھیکا لینا، ان کی فکر کرنا وغیرہ۔ یعنی خود کو مسلمانوں سے الگ دکھانا بھی چاہتے ہوں اور اس کی پابندیاں بھی قبول نہیں کرنیں، پھر یہ خواہش بھی کہ انہیں دوسروں سے اعلٰی مسلمان بھی سمجھا جائے اور انہیں باقیوں کی رہنمائی بھی کرنے دی جائے۔ آپ نے سب سننا ہے، “متفق”، “شدید متفق” وغیرہ جاری رکھنا ہے اور ان سب باتوں کے باوجود اعتراض نہیں کرنا۔ عین ممکن ہے لکھنے والا مجبور ہو، وہ توازن قائم کر رہا ہو، کسی لبرل ترجمان ویب سائٹ پر لکھاری بننے کی تگ و دو میں ہو اور ساتھ ہی ایک رائٹسٹ کے اخبار کا لکھاری بن کر کوئی پرانا احساس کمتری دور کرنے کی جد و جہد میں ہو؟

اس لئے برادران محترم آپ نے ایسے زیر تعمیر لکھاریوں کی پوسٹس پہ صرف جا کے لکھنا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

متفق
شدید متفق
آپ نے میرے منہ کی بات چھین لی
گھنگرو۔۔ میرا مطلب ہے قلم توڑ ڈالا

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply