سکونِ قلب کی دولت۔۔۔بشریٰ نواز

آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں ،دیکھیں تو ہر نعمت میسر ہےکھانے کے لیے بے انتہا اشیاء، کسی سہولت کی بھی کمی نہیں ،سفر کے لیے گاڑیاں بسیں اور دنوں کا سفر گھنٹوں میں جہازوں کے ذریعےطے ہوتا ہے، ٹھنڈے پانی کے لیے فریج اور پوری دنیا آپکی مٹھی میں ایک ریموٹ کے ذریعے، تعلیم کے میدان کی طرف دیکھیں تو اعلیٰ  سےاعلی ڈگری ہولڈر،صحت کے شعبے میں دیکھیں تو کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج ناممکن ہو ،جس دور میں بظاہر کسی چیز کی کمی نہ ہو ،راوی سب چین ہی چین لکھتا ہو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی ہم میں اتنی بے چینی ہے، زندگی میں سکون کیوں نہیں ؟ہر طرف جیسے  پریشانی  کا راج ہے،زندگی سے بے زاری بڑھتی چلی جا رہی ہے، دلوں کا سکون ناپید ہو چکا ہے اور جب دل کو سکون نہ  ہو تو انسان کہیں بھی چلا جائے   پریشان ہی رہتا ہے۔یہ انتشار ،بےسکونی ،انسان کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔

کچھ لوگ اپنے سکون کے لیے بری عادتوں میں  مبتلا ہو جاتے ہیں جیسے کہ اپنے اندر کی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے نشے کا سہارا لیتے ہیں اور زندگی جیسی انمول  نعمت کو اپنے ہاتھوں حتم کر لیتے ہیں یا پھر انٹرنیٹ کے منفی استعمال، سینما اور تھیٹر میں سکون ڈھونڈتے ہیں لیکن ان کا اندر سکون سے خالی ہی ہوتا ہے، وہ حقیقی خوشی سے مرحوم ہی رہتے ہیں۔

بے سکونی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو دولت جمع کرنے، بڑے بڑے گھر بنانے اور رشتے داروں میں سب سے اونچا مقام رکھنے کی خواہش چین نہیں لینے دیتی، پھر بھی ان کا دل دولت ِسکون سے محروم رہتا ہے۔۔

انسان اپنے من کی دنیا میں جھانک  کر سراغ لگانے میں ناکام رہتا ہے کہ اس کی خواہشات اور تمناؤں کا یہ پھیلاؤ اس کی بے سکونی کی وجہ بن گیا ہے اور آرزوؤں کے اسی جال میں پھنس کر اپنے آپ کو مصروف کر لیتا ہے اور خوشی اور اطمینان کے سارے دروازے بند کر لیتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سکون ِ قلب حالات اور چیزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ نصیب اور انداز فکر کی بدولت میسر آتا ہے۔ کچھ لوگ محلوں میں بھی رہ کر دکھی ہیں اور اے سی والے کمروں میں بھی نیند نہیں آتی اور کچھ ایسے ہیں جو معمولی مکانوں میں بھی چین کی نیند سوتے ہیں ،سکونِ  قلب کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اللہ‎ کا احسان سمجھ کر اس کی منشا کے مطابق گزاریں۔ایک صدائے دلنواز  (القرآن) سن لو کہ دلوں کا اطمینان صرف ذکر الہی میں ہے، کوشش کریں کہ ہماری وجہ سے کسی کا کوئی بگڑا ہوا کام سنور جائے اوراپنی دولت کو جمع کرنے کی بجائے اسے غریبوں اور ناداروں پر خرچ کریں، اگر آپ صاحب علم ہیں تو اپنا علم خود تک محدود رکھنے کی بجائے اسے دوسروں تک پہنچائیں، اپنے دل کو نفرت اور کینہ سے پاک رکھیں، دوسروں کے لیے اچھا سوچیں، اپنے دل میں سے لالچ اور حرص نکال دیں ،اپنے دل کو ہمدردی ،محبت، خدمت، عاجزی اور تواضع سے آباد کریں۔

کہنے کو تو یہ معمولی باتیں ہیں مگر ان پر عمل کرکےہم اپنے قلب اور روح کو سرشار کر سکتے ہیں مخلوق میں ہر دلعزیز اور خالق کائنات کی نظر کرم کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الله ہمارے دلوں کو سکون و اطمینان بخشے(آمین)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply