مائے نی میں کِنوں آکھاں۔ قسط 4

یہاں تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ماں محنت سے مجھے اور میری دونوں خالاؤں کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔ ماں روازنہ سکول جاتے ہوئے مجھے اٹھنی بھی دیا کرتی تھی اور روزانہ رات کو ایک گلاس دودھ بھی دیا کرتی تھی، مری زندگی کے سفر میں اس وقت بھونچال آیا ،جب بختو نے عطر کا کام شروع کیا اور وہ ہمارے گھر ماں سے اور اپنے دادا یعنی بغلولی سے ملنے کے لیے آیا ،دن بھر وہ یہیں رہا مجھ سے بھی پیار جتلاتا رہا اور جاتے ہوئے میری ہتھیلی پر ایک روپیہ دھرتا گیا۔ میرے لیے اس وقت ایک روپیہ بہت بڑی رقم تھی جیسے کوئی قارون کا گمشدہ خزانہ مل گیا ہو ،دوسرے دن اس روپے سے جتنی عیاشی کر سکتا تھا وہ کی اور شام کو بختو پھر ہمارے گھر لکشمی کی صورت آن ٹپکا ۔اس کا رویہ ماں کے ساتھ اور میرے ساتھ بہت ہمدردانہ تھا، شاید اس طرح وہ ماں کا دل جیتنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ جاتے ہوئے پھر وہ مجھے ایک روپیہ دے کر گیا، بختو اس وقت مجھے دنیا کا سب سے اچھا انسان لگا تھا ۔

ماں تو صبح اٹھنی دیتی اور شام کو مجھے بختو سے ایک روپیہ یعنی دو اٹھنیاں ملتیں، آپ کو اگر سونے کا انڈہ دینے والی مرغی مل جائے تو جو کیفیت آپ کی ہو گی وہی اس وقت میری تھی ،یہ کیفیت چند دن ہی رہی کسی طور بھی مہینہ نہیں گزرا تھا، دو ہفتے اور اوپرکچھ دن اورپھر جب ماں کی طرف سے مجھ پر پانچ روپے چوری کرنے کا الزام لگا اور پھر میری آنکھوں میں مرچیں ڈالی گئیں اس وقت بختو گھر میں موجود تھا جبکہ ماموں بغلولی اور ا ن کی بیوی اور بیٹی کسی رشتے دار کے گھر گئے ہوئے تھے ۔ دونوں خالہ تو گھر میں موجود تھیں لیکن وہ بھی ماں سے ڈرتی تھیں بس وہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ جلد از جلد وہ بیاہی جائیں اور اس گھر سے ان کی جان چھوٹ جائے اور ماں کو اپنے عزائم سے روکنے والا کوئی نہ تھا۔

اوپر سے بختو ماں کو یہ کہہ کہہ کر بڑھوتری دے رہا تھا کہ یہ تو شکل سے ہی چور لگتا ہے ،پوچھو اس سے اسی نے چوری کی ہو گی سالا موالی ۔۔۔اس کی عمر کے بچے تو کما کر گھر لاتے ہیں یہ کتا مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔اس دن کی داستان تو آپ کو سنا ہی چکا ہوں لیکن بس یہ بتانا مقصود تھا کہ اسی دن سے ماں کے رویے میں ایسی تبدیلی آئی  کہ جو میرا ننھا ذہن سمجھنے کے قابل نہ تھا، یہ وہ وقت تھا کہ جب میرا ننھا ذہن   اس بات سے بھی ناآشنا تھا کہ چوری ہوتی کیا ہے چوری کرتے کیسے ہیں؟اس واقعے کے چند ہی دن بعد مجھ پر ماں کی طرف سے دوسرا الزام لگایا کہ تم نے خالہ کا قلم توڑا ہے ۔۔نہ تو میں نے قلم دیکھا اور نہ اس کے ٹوٹنے کا حادثہ دیکھا ،خدا جانے قلم ٹوٹا بھی تھا کہ نہیں اور اگر ٹوٹا بھی تھا تو کس نے توڑا ،یا تو اللہ جانتا ہے یا پھر قلم توڑنے والا لیکن مجھے اس الزام کے تحت ایک بار پھر بھرپور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ،پھر چند روز اور گزرے تو پانچ روپے کی ایک عدد اور چوری کا ملزم میں تھا اور میری ہڈیوں کی مرمت کرنے والی میری ماں اور اسی ایک مہینے میں چوتھی بار پھر میری ٹکور اس وجہ سے کی گئی  کہ تم نے خالہ کا قلم توڑا ہے ایک ہی مہینے میں دو بار پانچ روپے کی چوری اور دو بار قلم ٹوٹنے کی بناء پر میں چار بار جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنا۔

میں یہ تو جانتا ہوں کہ یہ کام میں نے نہیں کیے لیکن آج تک یہ نہیں جان سکا کہ کیا واقعی حقیقتاً کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی تھا یا ماں صرف مجھے  پیٹنے کے بہانے تراشتی تھی ۔ جن باجی سے میں نے قرآن ناظرہ مکمل کیا تھا ان کا ایک بیٹا پڑھا لکھا تھا جو بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا بھلا ہو اس کا کہ اس نے بلا معاوضہ مجھے ٹیوشن پڑھائی لیکن جو بچے بلا معاوضہ ٹیوشن پڑھتے ہیں ان پربھلا کوئی توجہ کیوں دے ۔۔۔۔۔۔ وہ بھی مجھ پر زیادہ توجہ تو نہیں دیتا   تھا  لیکن پھر بھی اتنا پڑھا دیا کرتا تھا کہ میں سکول میں فیل نہیں ہوتا تھا ۔یہ محترم بھی بات بے بات مجھے مار کھانے کی کافی پریکٹس کرایا کرتے تھے ۔محلے کے بچوں کے لیے بھی میں ایک لاوارث بچہ ہی تو تھا، سبھی مجھے مارتے مجھ پر آوازیں کستے اور ماں اُلٹا مجھے ڈانٹتی قصوروار ہر حال میں مَیں ہی تھا ۔بختو کے چھوٹے بھائی بھی ماں کے چہیتے تھے اور جب کبھی وہ ہمارے گھر آتے تو اپنے ہاتھ مجھ پر ہی سیدھے کرتے ۔

ایک دن میں مجھے کس کس سے اور کہاں کہاں مار پڑتی بتانا مشکل ہے ۔۔ جب میری عمر نو سال تھی تو بڑی خالہ کی شادی ہو گئی ، ماں اور بختو اکثر ان سے ملنے جاتے اور مجھے ساتھ لے جاتے ،راستے میں ایدھی ویلفیئر سینٹر آتا تھا وہ جب بھی اس کے سامنے سے گزرتے تو مجھے کہتے کہ وہ دیکھو یتیم خانہ ہم تمھیں ایک دن یہاں بھجوا دیں گے اور پھر ایک دوسرے کے ہاتھ پر تالی مار کر ہنستے، جسمانی تشدد تو اپنی جگہ لیکن جس قسم کا ذہنی تشدد مجھ پر کیا جا رہا تھا وہ اپنی مثال آپ تھا،کہیں کسی تقریب کسی شادی بیاہ یاکسی فنکشن میں جانا ہوتا تو ماں مجھے کہتی چلو تیار ہو جاؤ فلاں فنکشن میں جانا ہے اور پھر عین وقت پہ مجھے یہ کہہ کر گھر چھوڑ جاتی کہ شکل دیکھی ہے اپنی یہ شکل لے کر تم وہاں جاؤ گے ۔اگر کبھی کہیں کسی فنکشن میں لے بھی جاتی تو پھر وہاں سب کے سامنے کوئی بہانہ بنا کر میرے گالوں کو لال کر دیتی تھپڑو ں سے۔

ایک دن رات آٹھ بجے ماں نےکوئی بہانہ بنا کر مجھے خوب پیٹا اور ننگا کر کے گھر سے باہر نکال دیا ۔۔۔۔۔۔اگرچہ اس وقت میں بچہ ہی تھا لیکن ننگے ہونے کا احساس مجھے شدت سے ستا رہا تھا کوئی بیس منٹ تک میں گھر کے باہر کھڑا رہا اور اس کے بعد مجھے اندر بلا کر ایک بار پھر مجھے پیٹا، ماں اکثر کھانا پکا کر رکھ دیا کرتی  تھی اور جب مجھے بھوک لگتی تو میں خود ہی کھا لیا کرتا تھا یا وہ میرے آگے کھانا ایسے پھینکا کرتی تھی جیسے کتوں کے آگے پھینکتے ہیں بلکہ کئی  بار اس نے یہ الفاظ اپنے منہ سے کہے بھی کہ ہم کتوں کو بھی تو کھانا ڈال ہی دیا کرتے ہیں لے تجھے بھی ڈال دیا لے کھا ۔۔۔

ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا ابھی میری عمر نو سال تھی کہ صبح لگ بھگ ساڑھے پانچ بجے ماں نے مجھے جگایا اور کہا کہ اٹھو پیشاب کر لو، یہ ایسا وقت تھا کہ تقریباً سبھی کو اس وقت جاگنے پر پیشاب کی حاجت ہوتی ہی ہے مجھے بھی ہو رہی تھی سو میں پیشاب کرنے چلا گیا جب میں بیت الخلاء سے باہر نکلا تو ماں باہر کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔باہر نکلتے ہی ماں نے ایک زوردار چانٹا میرے منہ پر رسید کیا اور کہا کہ کھڑے ہو کر کیوں پیشاب کیا ہے حالانکہ میں نے بیٹھ کر پیشاب کیا تھا، میں نے ماں کو بتایا کہ ماں جی ایسا نہیں ہے اور میں نے کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا ۔۔۔ماں نے مجھے بالوں سے پکڑا اور زور سے دھکا دیا ،میرا سر پیچھے دیوار سے جا ٹکرایا۔۔۔دیوار پر جس جگہ میرا سر ٹکرایا تھا اس سے کوئی بالشت بھر کے فاصلے پر دیوار میں ایک کیل تھی جو کہ تقریباً دو انچ دیوار سے باہر نکلی ہوئی تھی،میری نظر اس کیل پر پڑی تو دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ بچ گیا،ماں کی نظر بھی اس کیل پر پڑ چکی تھی اور اسے دیکھ کر ماں کی نظروں میں ایک عجیب سی چمک آ گئی ۔۔۔۔ماں نے پھر سے مجھے بالوں سے پکڑ لیا،میں سمجھ گیا کہ اب ماں کیا کرنے جا رہی ہے ،ماں اس اصرار کے ساتھ کہ میں مانوں کہ میں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے مجھے دھکیلتے ہوئے دیوار کے قریب لے گئی اور میرے سر کو اس زاویے پہ لانے کی کوشش کی کہ میرا سر اب کیل کے اوپر لگے۔۔۔۔میں بھی اپنی کوشش کر رہا تھا کہ میں   اس کیل سے بچ سکوں ۔۔۔۔اس مقصد کے لیے میں نے اپنا ہاتھ بھی سر کے پیچھے کر لیا ۔۔۔۔

ماں نے بالوں سے پکڑے پکڑے ہی پوری قوت سے میرا سر دیوار  پر  ابھرے کیل پر مارنے کی کوشیش کی ۔۔۔۔میں اپنے سر کو کیل سے بچانے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن میرا سردیوار پر بہت زور سے ٹکرایا اور سر پر رکھے ہاتھ کی انگلیوں کو چوٹ لگی ،اب ماں نے دوبارہ سے وہی کوشش شروع کی اور میں بچنے کی جستجو کر رہا تھا،پھر سے میں کیل سے سر بچانے میں کامیاب ہو گیا،لیکن ماں بھی کہاں ہمت ہارنے والی تھی،پندرہ سے بیس بار یہی کوشش کی اور ہر بار میں بچنے میں کامیاب ہو گیا ۔میری انگلیاں بری طرح زخمی ہو چکی تھیں ۔آخر ماں نے کہا بے غیرت کتے میں صبح تجھے ننگا کر کے گھر سے باہر نکالوں گی سب لوگ تیرا تماشہ دیکھیں گے،میں بہت پریشان ہوا پہلےبھی ایک بار ماں مجھے ننگا کر کے باہر نکال چکی تھی لیکن اس وقت تو پھر بھی رات تھی بہت کم لوگ میری اس بےعزتی کے شاہد تھے لیکن اب کی بار ماں نے صبح سویرے میرے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا جو مژدہ سنایا تھا یہ میرا حساس ذہن برداشت نہیں کر پا رہا تھا،میں چشمِ تصور میں دروازے کے باہر خود کو  ننگا کھڑا دیکھ رہا تھا اور سکول جاتے بچے دفتروں کو جاتے مرد وز ن کو خود پر ہنستے دیکھ رہا تھا انھیں خود پر جملے کستے سن رہا تھا ۔۔۔۔۔اب تک جو بھی میرے ساتھ ہو چکا تھا وہ اپنی جگہ لیکن ننگے ہونے کا احساس میرے لیے جان لیوا تھا،میں نے بہت سوچا بہت غور کیا کہ آخر کیا کیا جائے ۔۔۔اور گزشتہ تجربات سے یہ ثابت شدہ تھا کہ ماں جو کہہ کر گئی ہے وہ کر کے رہے گی۔

آنے والی اس تذلیل سے بچنے کے لیے میں نے گھرسے بھاگ نکلنے کا فیصلہ کیا اور میرے قدم خود بخود انجانی منزل کی طرف اٹھنے لگے ۔۔۔میں صبح ہونے سے پہلے ہی گھر سے بھاگ نکلا ،میں نہیں جانتا تھا کہ میں نے کہاں جانا ہے کیسے زندہ رہنا ہے کون سی چھت کے نیچےپناہ لینی ہے ،میں جانتا تھا تو بس یہ کہ میں نے اس تذلیل سے بچنا ہے جو گھر میں موجود رہتے ہوئے میرے ساتھ صبح پیش آنے والی ہے۔۔۔جب میں گھر سے نکلا تو کراچی جیسے شہر میں موت کا سا سناٹا تھا ۔اب تک اذانِ فجر بھی نہیں ہوئی تھی کہ کوئی نمازی ہی نظر آ جاتا۔مجھے منزل کاتو پتہ نہ تھا اور جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی ان کا کوئی رستہ بھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔بس جدھر کو منہ اٹھا ادھر کو ہی چل پڑے۔رستے میں کوئی اکا دکا آوارہ کتا نظر آ جاتا جو مجھ جیسے آوارہ ننگ پیرے کو دیکھ کر بھونکنے لگتا۔کتے کا بھونکنا مجھے بالکل بھی خوفزدہ نہ کرتا میں اس کے پاس سے یوں گزر جاتا جیسے وہ کوئی بے جان سی شئے ہو ۔

کتا اپنی یہ بےعزتی برداشت نہ کر پاتا اور مزید زور زور سے بھونکتا اور میرے پیچھے بھاگ کر مجھے خوفزدہ کرنے کی کوشیش کرتا ۔۔۔۔لیکن میری طرف سے کسی بھی قسم کا ردِعمل نہ ملنے پر تھک ہار کر بیٹھ جاتا۔۔۔۔میں کبھی ایک گلی مڑ جاتا تو کبھی دوسری گلی ، کبھی کسی سڑک پر پہنچ جاتا اور پھر اس پر چلتے چلتے کسی اور انجانی گلی میں گھس جاتا، پھر صبح کی اذان ہوئی ۔نمازی لوگ اٹھ اٹھ کر مسجدوں کارخ کرنے لگے اور میں چلتا جا رہا ہوں ۔پھر سورج نکل آیا اور دفتروں کو جانے والے لوگ اور سکولوں میں جانے والے بچے میرے پاس سے اپنی اپنی منزل کی طرف  جانے  لگے۔کراچی جیسے شہر میں کون کسی کی طرف توجہ دیتا ہے کہ ایک بچہ ننگے پیر کیوں گھوم رہا ہے ۔نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہر کسی کو اپنی ہی فکر ۔دس بجے کے بعد اکا دکا دکانیں بھی کھلنا شروع ہو گئیں ،میں اسی طرح بھوکا بغیر ناشتے کے ننگے پیر کبھی اس گلی تو کبھی اس گلی ۔۔۔

گھومتے گھومتے کوئی لگ بھگ بارہ بجے کے قریب میرے سامنے وہی یتیم خانہ یعنی ایدھی ویلفئر سینٹر تھا جسے دکھا دکھا کر ماں اور بختو مجھے وہاں بھجوانے کا کہہ کر ہنستے تھے ۔۔۔۔ شاید نادیدہ قوتوں نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے وہاں پہنچا دیا تھا ۔۔۔۔مجھے اس وقت کچھ معلوم نہیں تھا کہ ایدھی ویلفئر سینٹر کیا ہوتا ہے یا یتیم خانہ کس بلا کا نام ہے ۔میں نے اندر جانے کا فیصلہ کر لیا ۔گیٹ پہ موجود چوکیدار نے مجھے روکا کہ کدھر جا رہے ہو تو میں نے اسے بتا دیا کہ میرا دنیا میں کوئی نہیں ہے اس لیے یہاں آ گیا ہوں ۔وہ مجھے وہاں کے انچارج کے پاس لے گیا۔انچارج نے مجھ سے میرا نام پوچھا تو میں نے اسے غلط نام بتایا باقی وہی کہانی کہ میرا دنیا میں کوئی نہیں ہے تو میں یہاں آ گیا ہوں ۔اپنی دانست میں تو میں اس انچارج کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن یہ شاید میری بھول تھی اس بھلے آدمی نے اس لیے مجھے داخل کر لیا ہو گا کہ گھر سے بھاگا ہوا لڑکا ہے کہیں کسی غلط آدمی کے ہتھے نہ چڑھ جائے ۔۔۔ خیر اس نے اپنے رجسٹر پر ضروری اندراجات کرنے کے بعد مجھے وہاں رکھ لیا۔

وہاں مجھ جیسے اور بھی بچے تھے ۔شاید ان کی بھی مائیں میری ماں جیسی تھیں یا پھر انھیں ان کے جائز و ناجائز والدین بھوک یا بدنامی کے ڈر سے کوڑے میں پھینک آئے تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچا دیے گئے تھے کچھ بچوں کے والدین مر گئے تو رشتے داروں نے ان کی ذمہ داریوں سے خلاصی پانے کے لیے انھیں وہاں چھوڑ دیا تھا ۔کچھ بھی تھا وہ جگہ میرے لیے کسی جنت سے کم نہ تھی مجھے فوراً پہننے کے لیے جوتے اور کپڑے مہیا کیے گئے اور کھانے کے لیے بہترین ناشتہ ۔۔ناشتے میں جو کچھ بھی تھا اس سے قطع نظر جس عزت اور پیار سے بٹھا کر مجھے وہ ناشتہ دیا گیا میں نے زندگی میں اس طرح کبھی نہ کھایا تھا۔ وہاں کھیلنے کے لیے جھولے لڈو کیرم بورڈ وغیرہ بھی تھے اور وقتِ مقررہ پر پڑھایا بھی جاتا تھا ۔۔۔ہر کام کا وقت مقرر تھا کھانا ،کھیلنا ،پڑھنا ،سونا، جاگنا سب ایک ضابطے اور نظام کے تحت مقررہ وقت پر ہوتا ۔سونے کے لیے بہترین بستر مہیا کیا جاتا ۔یہ سب انتظام دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔وہاں کوئی مجھے مارنے والا نہ تھا ۔

میری یہ خوشی انتہائی عارضی ثابت ہوئی ۔۔چوتھے دن اچانک وہاں کا ایک اہلکار آیا اور مجھے پکڑ کر انچارج کے دفتر لے گیا ۔اندر داخل ہوتے ہی مجھے بختو کی شکل میں ملک الموت نظر آیا۔۔میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔انچارج نے بختو سے سوال کیا کہ یہی ہے ۔بختو کے اثبات میں سر ہلاتے ہی انچارج نے مجھے تین چار تھپڑ رسید کیے اور مجھ سے میرا نام پوچھا۔۔ سچ بولنے کے سوا اب چارہ نہ تھا۔میں نے اسے اپنا اصل نام بتایا اور پھر اس نے مجھ سے بختو کے متعلق سوال کیا کہ انھیں جانتے ہو، میں نے بتا دیا کہ یہ ہمارے رشتے دار ہیں۔انچارج کے یہ سوالات ضروری چھان بین کے لیے تھے اور میری اصلیت ثابت ہو چکی تھی لہذا انہوں نے مجھے بختو کے حوالے کر دیا ۔بختو مجھے گھر لے آیا جہاں ایک بار پھر بختو اور ماں نے مل کر میری دھلائی کی

پورے محلے کو میرے گھر سے بھاگنے اور ایدھی ویلفیئر سینٹر میں قیام کا علم ہو چکا تھا۔اب میں جہاں سے گزرتا   مجھ پر آوازیں کسی جانے لگیں کوئی ایدھی سینٹر کہہ کر تو کوئی بھگوڑا کہہ کر مجھے تنگ کرتا ۔خالہ بشیراں کے چار بیٹے تھے جن میں سے ایک اسلم میرا کلاس فیلو تھا ، اسلم سب سے چھوٹا تھا ۔ چار میں سے تین چھوٹے پہلے پہل میرے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور اکثر مجھے مارا پیٹا بھی کرتے میں اکیلا ان بھائیوں کا کر بھی کیا سکتا تھا۔۔پھر میں کچھ اور لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیلتا تو یہ لوگ وہاں بھی ٹانگ اڑانے سے باز نہ آتے ۔ میرے ساتھ کھیلتے بچوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے اور مجھے کھیل سے باہر نکال کر خود کھیلنے لگتے۔۔۔۔آہستہ آہستہ میں محلے میں بھی اکیلا ہوتا چلا گیا۔نہ کوئی میرے ساتھ کھیلتا نہ بات کرتا بلکہ اُلٹا آتے جاتے مجھ پر آوازیں کستے اور مجھے مارنے کے بہانے ڈھونڈتے۔

ایک دن اماں نے مجھے ٹماٹر لانے کے لیے دو روپے دیے ۔۔۔ ڈیڑھ روپے کے ٹماٹر ملے اور اٹھنی بچ رہی۔ واپسی پر اسلم وغیرہ سے بچنے کے لیے میں نے ایک اور گلی کا انتخاب کیا جس سے میرے گھر کا راستہ تھوڑا لمبا پڑتا تھا۔اس گلی میں سے گزرتے ہوئے میں نے ایک دکان دیکھی جس کا شٹر تو اوپر تھا لیکن اس کے دروازے پر پردہ پڑا ہوا تھا اور اندر سے میوزک اور بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔مجھے تجسس ہوا کہ یہاں کیا ہے میں پردہ اٹھا کر اندر داخل ہو گیا ۔اندر میرے لیے ایک نئی ہی دنیا تھا چھوٹے چھوٹے سٹینڈز  پر ٹی وی لگے ہوئے تھے سٹینڈ کے اوپر کسی پر ایک تو کسی پر دو کِلیاں لگی تھیں اور کچھ بٹن لگے ہوئے تھے ،بچے وہ کلیاں گھماتے اور بٹن دباتے اور خوش ہوتے غُل غپاڑہ کرتے ۔میں نے مزید غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ٹی وی کے اندر جو کارٹون یا کار وغیرہ ہیں ان کا کنٹرول ان کلیوں میں ہے بچہ جس طرف کِلی گھماتا ہے اندر موجود کارٹون یا کار وغیرہ بھی اسی جانب حرکت کرتے ہیں ۔ویڈیو گیم ۔۔۔۔۔میرے لیے ویڈیو گیم بالکل ایک نئی چیز تھی ۔مجھے یہ بہت دلچسپ لگی ۔ وہاں کھڑے ایک لڑکے سے میں نے ویڈیو گیم کے متعلق مزید معلومات لیں کہ یہ کیا چیز ہے اور کیسے کھیلی جاتی ہے۔سب گیموں میں میرے لیے دلچسپ ترین گیم سٹریٹ فائٹر تھی جس میں مارشل آرٹ کے حربے دو کشتی کرنے والے ایک دوسرے پر آزماتے ہیں اور آخر میں ایک کی جیت ہو جاتی ہے ۔میں تو محلے میں ہر کسی سے پِٹنے والا بندہ تھا ۔اپنا غصہ ویڈیو گیم میں مخالف پر نکالنا مجھے بہت اچھا لگا ۔۔میرے انتقام کو تسکین ملنے کا بہت اچھا ذریعہ میرے ہاتھ لگ گیا تھا ۔ ۔۔۔ دوسرے کو خوب مارو اور گھر میں کوئی شکایت کرنے والا بھی نہ آئے اور اگر خود پِٹ گئے تو نہ کوئی زخم نہ کوئی درد ۔واہ بنانے والے نے کیا خوب چیز بنائی تھی ۔

ویڈیو گیم کی راہ تو مجھ پر کھل گئی  تھی لیکن ایک اور مسئلہ درپیش تھا کہ اسے کھیلنے کے لیے پیسے درکار تھے جو میرے پاس نہیں تھے ۔بس اک وہی اٹھنی تھی جو ٹماٹروں کے پیسوں میں سے بچی تھی ۔اس وقت چونی کے دو اور اٹھنی کے پانچ ٹوکن ملتے تھے ۔میرا دل گیم کھیلنے کو بھی للچا رہا تھا اور اگر گیم کھیلتا ہوں تو ماں کو بقایا کہاں سے دیتا ۔بقایا نہ دینے کی صورت میں میری ہڈیوں کی مرمت تو یقینی تھی۔تھوڑی دیر میں اسی شش وپنج میں مبتلا رہا۔۔۔پھر مجھے ایک ترکیب سوجھی کہ اٹھنی سے ٹوکن لے کر گیم کھیلتے ہیں اور ٹماٹروں کا بھاؤ بڑھا لیتے ہیں ۔ماں کو بتاؤں گا کہ ٹماٹر دو روپے کے آئے ۔میں اپنی ذہانت ، چِتر اور حیلہ سازی پر خود کو داد دینے لگا اور اٹھنی کے پانچ ٹوکن خرید کر سٹریٹ فائٹر گیم کھیلنے لگا۔چونکہ میں یہ گیم پہلی دفعہ کھیل رہا تھا اس لیے جلد ہی ہار جاتا اور میرے سارے ٹوکن ختم ہو گئے۔گیم کھیلتے ہوئے مجھے بہت مزا آیا اور ایک عجیب سی تسکین ملی ۔میں گھر کی طرف چل دیا ۔اب پھر سے مجھے ماں کا خوف پریشان کرنے لگا کہ کہیں ماں کو ٹماٹروں کا بھاؤ معلوم ہوا تو میرا کیا بنے گا ۔سارے رستے میں اللہ سے دعائیں مانگتا رہا کہ یا اللہ آج مجھے بچا لے آئندہ یہ کام نہیں کروں گا ۔اللہ نے میری سن لی میں نے بہت کامیابی سے ماں کے ساتھ جھوٹ بولا کہ ٹماٹر دو روپے کے آئے ہیں ۔۔ماں ٹماٹر لے کر کچن میں چلی گئی تو مجھے اپنی اس کامیابی پر بےحد خوشی ہوئی ۔میں اللہ سے کیا وعدہ کہ آج بچا لے آئندہ نہیں کروں گا بھول گیا ۔مجھے اللہ کی مدد کی بجائے اپنی چوری ، ہوشیاری اور چالاکی پہ یقین ہونے لگا اور اسی وقت منصوبہ بنا لیا کہ آئندہ ایسے ہی پیسے بچا کر ویڈیوگیم کھیلا کروں گا ۔سارا دن میں سٹریٹ فائٹر کے خیالوں میں کھویا رہا حتیٰ کہ رات کو سویا تو بھی سٹریٹ فائٹر گیم میں جا گھسا اور کراٹے کا لباس پہنے سر پہ پٹی باندھے میں گلی محلے کے لڑکوں کو لاتیں گھونسے مار رہا ہوں ۔

اب ہر وقت میرے خیالوں میں سٹریٹ فائٹر گیم کا بھوت گھومتا رہتا ۔۔۔۔سکول جاتے ہوئے جو ماں سے اٹھنی ملتی اسے بچا لیتا اور سکول سے واپسی پر پہلے گیم کھیلتا اور پھر گھر آتا لیکن میرے ٹوکن فوراً ہی ختم ہو جاتے اور دس پندرہ منٹ بعد میں گیم کھیلنے کے قابل نہ رہتا ۔لیکن میں کافی دیر وہاں کھڑا رہتا اور لوگوں کو گیم کھیلتے ہوئے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا۔مجھے ہر وقت یہ انتظار رہتا کہ کب ماں مجھے کوئی چیز لینے دکان پر بھجوائے اور میں اس میں سے اٹھنی چونی بچا کر ویڈیو گیم کھیل لوں۔ماں سلائی مشین میں یا کسی برتن پیالی میں پیسے رکھ دیتی اور مجھے کہتی کہ فلاں جگہ پیسے پڑے ہیں چوری نہیں کرنا۔شاید ماں کی طرف سے یہ مجھے سُقہ بازی،دُزدی اور چوری کی دعوت دینا تھی۔ایک اور عجیب بات جہاں پیسے پڑے ہوتے وہاں سگریٹ کی ڈبی بھی پڑی ہوتی جبکہ ہمارے گھر کوئی بھی سگریٹ پینے والا نہیں تھا حتیٰ کہ بختو بھی سگریٹ نوشی نہیں کرتا تھا

۔۔میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ مجھے چوری اور سگریٹ نوشی پر لگانے کی ایک سازش تھی ۔سگریٹوں کو تو میں ہاتھ نہ لگاتا لیکن چوری کی اس ترغیب نے مجھے ماں کا چور بنا ہی ڈالا ۔میں ماں کے پیسوں سے اٹھنی چونی چوری کرنے لگا تا کہ ویڈیو گیم کا چسکا پورا کر سکوں۔یہ چوریاں میرے ویڈیو گیم کی تسکین کے لیے ناکافی تھیں کیونکہ چوونی کے صرف دو ٹوکن ملتے تھے ۔۔میں محلے میں نظریں جھکائے سہما سہما سا گزرا کرتا تھا اور ہر کسی کو سلام کرتا تھا۔گلی کی نُکر پہ ایک پچاس پچپن سال کا شخص اکثر کھڑا ملتا میں اسے بھی سلام چچا کہہ کر گزر جاتا ۔۔ایک دن چچا نے مجھے بلا لیا اور مجھ سے بہت ہمدردی سے گفتگو کی۔میں تو ویسے ہی محبت اور شفقت کا بھوکا تھا مجھے وہ چچا بڑا بھلا لگا۔۔چچا نے جاتے ہوئے مجھے دو روپے بھی تھما دیے میں نے بہت انکار کیا لیکن انہوں نے میری جیب میں زبردستی رکھ دیے ۔اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں ۔میں انکار بھی اوپر اوپر سے کر رہا تھا دل میں تو میرے لڈو پھوٹ رہے تھے کہ آج جی بھر کے گیم کھیلوں گا ۔اور وہاں سے میں سیدھا ویڈیو گیم چلا گیا لیکن مجھ جیسے اناڑی کھلاڑی کے لیے دو روپے بھی بہت کم تھے ،دوسرے دن پھر چچا مجھے وہیں کھڑے ملے انہوں نے مجھے بلا لیا اور پوچھا کہ دو روپے کا کیا کھایا۔میں نے بتا دیا کہ ویڈیو گیم کھیلی لیکن بہت جلدی سارے ٹوکن ختم ہو گئے ۔چچا مسکرائے اور اب کی بار انہوں نے مجھے پانچ روپے تھما دیے!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply