پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مشکلات۔۔۔مائرہ علی

حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے, جمہوریت کہلاتی ہے”۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔ عرف عام میں جمہوریت کی رائج تعریف کے مطابق یہ عوام کے منتخب کیے ہوئے لوگوں کی حکومت ہے جس میں تمام فیصلے اکثریتی رائے کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں.  بقول اقبال

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

معروف انگریزی جریدے اکانومسٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے 4.5فیصد میں مکمل جمہوریت ہے. جمہوری درجہ بندی میں پاکستان 112 ویں نمبر پر ہے. پاکستان کو نیم جمہوری ممالک کی صف میں رکھا گیا ہے.
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں جمہوریت ایک ناہموار راستے پر چلتی رہی. جمہوری استحکام ہمارے لیے ایک خواب ہی رہا. اگر کبھی جمہوری حکومت مسند اقتدار پہ براجمان ہوئی بھی تو یا تو وہ صحیح معنوں میں جمہوری حکومت نہیں تھی یا پھر اسے اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی زبردستی گھر بھیج دیا گیا. گزشتہ دو جمہوری حکومتیں ہی اپنی مدت مکمل کرنے میں کامیاب ہوئیں اور اس طرح ایک اچھی روایت چل نکلی ہے جو کہ خوش آئند ہے.

سویلین حکومتوں کو کبھی بھی اتنی خودمختاری نہیں دی گئی کہ وہ مطلق العنان ہو کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں بلکہ ہمیشہ مارشل لاء کا خطرہ جمہوریت کے سر پر منڈلاتا رہا اور کوئی حکومت اس کے دباؤ سے باہر نہ نکل سکی جس نے بطور مجموعی جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا. کہتے ہیں خان عبدالولی خان کو جب جنرل ضیا نے کہا کہ سیاستدانوں کو سیاست کی اے،بی،سی تک نہیں آتی تو خان صاحب نے بڑا کلاسک جواب دیا
“جنرل صاحب, جب سیاستدان ابھی سیاست کی اے، بی، سی ، ڈی،ای, ایف تک پہنچتا ہے تو آگے جی ،ایچ،کیو(GHQ) آجاتا ہے”.

حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مشکلات میں ایک بہت بڑا مسئلہ سیاستدانوں کا غیر سنجیدہ رویہ بھی ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے لوگوں کا اعتماد جمہوری نظام سے اٹھتا ہے اور یوں غیر جمہوری عناصر کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہماری جمہوری تاریخ میں سیاسی بصیرت رکھنے والے رہنماؤں کی شدید کمی رہی ہے۔ دو چار رہنماؤں کو چھوڑ کر باقی ہمیشہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہی مصروف رہے جس وجہ سے جمہوریت ترقی کی راہ پر آگے نہ چل سکی اور یوں جمہوری نظام دن بدن مشکلات کا شکار ہوتا گیا۔
غیر شفاف اور دھاندلی زدہ انتخابات ہمیشہ سے پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک بہت بڑا مسئلہ رہے ہیں۔ جمہوری نظام سے عوام کی امیدیں اٹھ جانے کا ایک بہت بڑا سبب ہمارے انتخابات میں ہونے والی بے انتہا دھاندلی ہے۔ جب ایسے لوگ ہمارے ایوانوں میں جا بیٹھتے ہیں جن کو عوام نے منتخب نہیں کیا ہوتا تو پھر مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ لوگ عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور نتیجہ جمہوریت اور جمہوری نظام کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جارہا ہے سینوں میں
یہ لوگ اس کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں
کہ اقتدار رہے ان کے جانشینوں میں

ہماری سیاسی جماعتیں بصیرت رکھنے والے اور دوراندیش سیاسی رہنماؤں سے ہمیشہ محروم رہی ہیں۔ جب جب نااہل اور اپنے مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے والے لوگ سیاسی جماعتوں کی باگ دوڑ سنبھال رہے ہوتے ہیں تو ملک کا سیاسی نظام بطور مجموعی انحطاط کا شکار ہوتا ہے.
طلباء تنظیمیں اور طلبا سیاست، سیاست کی عملی تجربہ گاہ ہوتی ہے اور کسی بھی ریاست کی سیاسی بصیرت کی بہتری میں انتہائی اہم کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ دنیا کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا بھر میں آنے والے تمام عظیم رہنماؤں نے کسی نہ کسی شکل میں طلبہ سیاست میں حصہ ضرور لیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ چند ایک ادوار کو چھوڑ کر کسی بھی جمہوری دور میں طلبہ سیاست پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی بلکہ بیشتر اوقات تو طلبا تنظیموں پر مکمل پابندی عائد کردی گئی جس کی وجہ سے ہمارا مجموعی سیاسی شعور اس قدر ترقی نہیں کر سکا جس قدر کرنا چاہیے تھا۔ جو چند طلباء تنظیمیں عمل میں مصروف رہیں، ان میں بھی تشدد کا رجحان نمایاں رہا اور اس نے ہماری طلبا سیاست کے پرخچے اڑا دیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی شریف خاندان سے تعلق رکھنے والا طالبعلم طلبا تنظیموں کا حصہ بننا مناسب نہیں سمجھتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ طلباء تنظیمیں بچوں کو سیاست میں قدم رکھنے کیلئے پہلا پلیٹ فارم مہیا کریں مگر صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔

پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک سیاہ باب عدلیہ کا غیر آئینی رویہ بھی ہے۔ مختلف ادوار میں عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے نام پر آمروں اور سامراجی نظام کا ساتھ دیا جس نے غلام اسحاق خان اور پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کو ہم پر مسلط کر دیا۔ نظریہ ضرورت کا لفظ بجائے خود اس بات کی تصدیق ہے کہ جس اقدام کو وہ قانونی زندگی بخش رہا ہے مروجہ قانون و آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسے عدالتوں نے نہ صرف سکہ رائج الوقت قرار دیا بلکہ اسے جائز قرار دینے کے لئے بعض قابل احترام جج صاحبان بہت دور کی قانونی کوڑیاں بھی لاتے رہے۔ پرویز مشرف کے مارشل لاء کے نتیجے میں چیف جسٹس کی خلعت پانے والے جسٹس ارشاد حسن خان نے تو اس کا ماخذ اسلام کو قرار دے ڈالا اور کہا کہ اسلام نے انتہائی مجبوری اور اضطراب کے عالم میں تو حددرجہ کی حرام چیزوں کے استعمال کو جائز قرار دے رکھا ہے۔

ہمارا میڈیا وقتافوقتا غیر ذمہ دارانہ رویے سے جمہوریت کیلئے مسائل کھڑے کرتا رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی نجی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی شکل میں وہ طوفان بدتمیزی آیا جو ہماری سیاست سے اخلاقیات اور مصلحت جیسے عوامل کو بہا لے گیا۔ برسراقتدار جماعت پر بلا جواز تنقید جمہوری عمل کو شدید متاثر کرتی ہے اور بدقسمتی سے ہمارا میڈیا کافی عرصے سے اس کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی شکل میں ایک عذاب الہی ہے جو ہم پر نازل ہوا اور جس نے جمہوری روایات کا ستیاناس کردیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سب سے زیادہ عتاب اور تنقید کا شکار جمہوریت اور سیاست دان ہی رہے۔

یہ سارے عوامل مل کر پاکستانی جمہوری نظام کو شدید مشکلات سے دوچار کرتے رہے ہیں۔ گو کہ گزشتہ دہائی سے کچھ سیاسی استحکام حاصل ہوا ہے مگر آج بھی جمہوریت اس طور اور دھج سے رائج نہیں ہے جو کہ جمہوری نظام کا خاصہ ہوتا ہے۔ ہمیں کچھ باتوں کا ادراک کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے اور جمہوریت کو پنپنے کے لئے سازگار ماحول دینا ہے تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بن سکے۔

سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے لیے عوام کی زندگیوں میں شفاف انداز میں بہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی ملک میں جمہوریت اس وقت ہی مضبوط و مستحکم ہو سکتی ہے جب ہر ادارے اور سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی جمہوری عمل پر پختہ یقین ہو اور شفاف انداز میں انصاف صحت تعلیم کے شعبہ جات میں بہتری لائی جائے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی ہوئی فی کس آمدنی کی صورتحال کو بہتر کیا جائے۔ جب تک موجودہ جمہوری سسٹم کو تبدیل نہیں کیا جاتا پاکستان کے غریب عوام کی ترقی منجمد ہی رہے گی۔ جمہوری سسٹم کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ملک سے کرپشن اور اقربا پروری کا مکمل خاتمہ ہو، حکمران اور سیاسی شخصیات ملک سے لوٹا ہوا سرمایہ پاکستان واپس لائیں۔ اگر مفادات کی سیاست سے بالا تر ہو کر پاکستان کے استحکام اور دو قومی نظریہ پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے صادق و امین لوگوں کو کلیدی عہدوں پر ذمہ داریاں دی جائیں تو وہ دن دور نہیں جب قیام پاکستان کے مقاصد کے مطابق حقیقی اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا قیام عمل میں آئے گا اور پاکستان میں جمہوریت مضبوط و مستحکم ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply