گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر۔۔۔یاور عباس

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سکھوں کے حملے اور ڈوگروں کی عملداری سے قبل گلگت چاروں طرف سے حملہ آوروں کی  زد میں تھا،یہاں کی قلیل آبادی کو مستقل طور پر سکون سے رہنا نصیب نہیں تھا،سکھوں کے حملے اور اس کے بعد ڈوگروں کی یلغار سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے جن کی اجتماعی قبریں اب بھی گلگت قلعے کے اردگرد دریافت ہوتی ہیں ،ڈوگروں نے گلگت پر 1862 سے لے کر 1935 تک یعنی 73 سال حکومت کی۔ سول انتظامیہ کا پہلا نگراں اعلیٰ جواہر سنگھ 1862 میں مقرر ہوا۔1889 میں انگریزوں نے گلگت پولیٹیکل ایجنسی قائم کی اس طرح پولیٹیکل علاقہ جات اور دو سال بعد 1892 میں ہنزہ-نگر ریاستیں بھی انگریزوں کے کنٹرول میں آ گئیں اور گلگت وزارت بنی جس میں استور کی نیابت بھی شامل تھی ڈوگرہ وزیر وزارت کے ماتحت رہیں، مہاراجہ جموں و کشمیر کی طرف سے گلگت میں تعینات کردہ وزیر وزارت کی عملداری میں گلگت سب ڈویژن استور بلتستان اور لداخ کا علاقہ شامل تھااس کا گرمائی صدر مقام لداخ اور سرمائی صدر مقام گلگت ہوا کرتا تھا اور اس کو وزارت لداخ اور اس خطے کو فرنٹیئر ڈسٹرکٹ کہا جاتا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ نظام 1899 میں قائم ہوا تھا اور اس ڈسٹرک کا پہلا وزیر وزارت خان بہادر سرداراکبرخان مقرر ہوا تھا لیکن دو سال بعد 1901 میں گلگت اور لداخ کو علحدہ وزارت نے منقسم کر دیا گیا73 سالہ ڈوگرہ حکومت کے عہد میں کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آئی البتہ چند ایک لڑائیاں ہوئیں جو تاریخی اہمیت رکھتی ہیں 1851 میں چلاس فتح ہوا 1866 میں داریل پر حملہ کیا گیا 1884میں راجہ پہلوان کا شیر قلعہ پر حملہ ہوا 1891ءمیں ہنزہ نگر کی لڑائی ہوئی جس میں دونوں آزاد ریاستوں پر انگریزوں اور مہاراجہ جموں و کشمیر کا قبضہ ہوا گیا 1897 میں چترال فتح ہوا ان لڑائیوں کے بعد غیر منقسم ہندوستان کی یہ لمبی اور انتہائی دفاعی اہمیت کی سرحدیں محفوظ ہوگئیں اور بعد میں اس سرحد کا باقاعدہ طور پر تعین ہوا جو اب تک ڈیورنڈ لائن کے نام سے موسوم ہے اس سرحد کی حفاظت کی خاطر انگریز اپنے دور حکومت میں وہ تمام وسائل بروئے کار لائے جو ان کو اس وقت حاصل تھے، وسائل کے استعمال کے علاوہ انگریزوں کی  عیارانہ ڈپلومیسی بھی کار فرما رہی ہے،1947 میں ریاست جموں و کشمیر میں دو جگہ سے آزادی کی تحریک شروع ہوئی تھی ،ایک پلندری آزاد کشمیر میں غلام نبی گلگار کی سرپرستی میں سیاسی شعور رکھنے والوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، دوسری تحریک گلگت سے شروع ہوئی تھی ،گلگت اسکاؤٹس جس کا بابر خان صاحب اور  اس کے جو صوبیدار تھے میجر براؤن تھا اور پھر کرنل حسن خان صاحب جو کہ 6 کشمیر انفنٹروں کے تھے وہ تو ایک خود مختار کشمیر اور پورے کشمیر کو الگ کرنے کی جدوجہد کرتے تھے،پلندری اور گلگت والوں نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت شروع کی اس  تمام صورتحال سے گلگت والے واقف نہیں تھے، لیکن آزاد کشمیر پلندری کے علاقے پونچھ میں ان حالات کو دیکھ کر ان کی مدد کے لیے پاکستان نے قبائلیوں کو بھی بھیجا، ان حالات کو دیکھ کر مہاراجہ کشمیر نے 26 اکتوبر کو ہندوستان کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، پہلے تو یہ کہا کہ میری مدد کریں تو ہندوستان کی حکومت نے کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ الحاق کرتے ہیں تو ہم مدد کریں گے اور اگر آپ الحاق نہیں کرتے تو ہم مدد نہیں کریں گے ،پھر اسے الحاق کرنا پڑا، 27 اکتوبر کو بھارتی آرمی آگئی، تب تک آزاد کشمیر کے اندر یہی کوئی چار پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد ہوا تھا، پھر انہی دنوں   یکم نومبر میں گلگت ایجنسی کو مقامی لوگوں نے گلگت اسکاؤٹ کی مدد سے آزاد کرایا اور پھر آمنے سامنے انڈین آرمی کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی کرنل حسن خان کی کمانڈ میں ٹائیگر فورس اور کرنل احسان علی کی قیادت میں آئی بیکس فورس نے بالترتیت تراگبل اور  سکردو کے محاذوں پر دشمن پر بھاری ضربیں لگائیں اور پیشقدمی جاری رکھی، محاذوں کے اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے بھارتی فضائیہ حرکت میں آگئی اگر چہ وہ محاذوں پر شروع سے ہی بمباری کرتی تھی لیکن اس بار اس کو جانبازوں کو  سپلائی لائن کاٹنے کا خیال آیا ،چنانچہ 7 جولائی 1948 کو صبح 9-10 بجے کے درمیان بھارتی فضائیہ نے پہلی بار گلگت شہر پر بمباری شروع کی ،اس حملے کا ہدف چھاؤنی، وائرلیس سٹیشن، گلگت پُل اور اس قسم کی  دیگر تنصیبات تھیں ،لیکن ایسا لگتا تھا ان جہازوں کے پائلٹ زمینی فائر کے خوف میں مبتلا تھے اور ان کا مورال پست تھا ان کا کوئی نشانہ صحیح نہیں لگا،اس فضائی حملے کے دوران 2 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں شفا علی اور پنڈت اوم کارناتھ شامل تھا جبکہ تین افراد زخمی ہوئے سلیم خان ہمایوں خان اور عبدالحق۔اس کے بعد گلگت پر دوسرا فضائی حملہ 14 ستمبر 1948 کو ہوا تھا  اس میں بھی دشمن کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو سکی پھر جب یکم نومبر 1948 کو جنگ بندی ہوگئی تو یہاں کوئی 28 ہزار مربع میل گلگت بلتستان کا علاقہ   اور چار ہزار مربع میل آزادکشمیر کا  علاقہ آزاد ہوا تھا ،ہندوستان اور دنیا کو نہیں پتہ تھا کہ پلندری کی تحریک الگ اور گلگت کی تحریک الگ تھی ،دنیا اور بھارت کے نزدیک آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کوئی الگ الگ علاقے نہیں تھے لیکن گلگت بلتستان اور پلندری کے عوام کو معلوم تھا ان  کے مقاصد الگ الگ تھے، پلندری والے ڈوگروں سے آزادی حاصل کرکے ایک الگ ڈیموکریٹک خودمختار جموں وکشمیر بنانا چاہتے تھے گلگت بلتستان والے ڈوگروں کو بھی بھگانا چاہتے تھے اور آئندہ کشمیریوں کا راستہ بھی روکنا چاہتے تھے،گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالا مال اور جغرافیائی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل خطہ تھا اور یہاں کے لوگ سیاسی شعور نہیں رکھتے تھے اس لیے ریاست پاکستان نے اس کو اپنے زیر کنٹرول رکھا آزاد کشمیر کے لوگوں میں سیاسی شعور زیادہ تھا۔لیکن جغرافیائی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی آزاد کشمیر کی سیاسی بیداری کو دیکھ کر چھوٹے سے خطے کو کشمیر کی وارث حکومت بناکر وہاں آزاد جموں و کشمیر کی حکومت بنا دی، اب وارث حکومت تو آزاد کشمیر کی چار ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل بن گئی۔گلگت بلتستان کے اوپر پاکستان کا قبضہ ہوا جی بی کے ساتھ ریاست پاکستان کا کوئی الحاق نامہ لکھ کر نہیں ہوا تھا ،اب اس قبضے کو جواز بنانے کے لئے اور پاکستانیت کو فروغ دینے کے لیے کراچی کے اندر ایک معاہدہ ہوتا ہے اس معاہدے میں بھی گلگت بلتستان کے لوگ شامل نہیں ہوتے ہیں بلکہ کشمیری قیادت اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں گلگت بلتستان کے انتظامات پاکستان کے حوالے کیے  جاتے  ہیں ۔
اس تمام صورتحال میں ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ گلگت بلتستان والوں نے نہ صرف ڈوگروں سے آزادی حاصل کی تھی بلکہ ہمیشہ کے لیے کشمیریوں کا بھی راستہ روکا، یہ مسئلہ چونکہ ہندوستان اقوام متحدہ میں گیا تو پیدا ہوا، گلگت بلتستان نے تو اپنے لیے آزادی حاصل کی تھی اپنے لئے ایک ریاست بنائی تھی ،پاکستان  سے الحاق کے لئے ایک درخواست بھی دی  ہوئی تھی لیکن جب انڈیا کا معاملہ  اقوام متحدہ کے اندر گیا تو کشمیر کے ساتھ یہ علاقہ بھی متنازعہ بن گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply