بچوں سے زیادتی ! صرف قصور ہی کیوں؟ (دوسری قسط)۔۔۔۔وقاص اے خان

پہلی قسط کا لنک: بچوں سے زیادتی، صرف قصور ہی کیوں؟ (پہلی قسط)۔۔۔۔۔۔۔۔وقاص اے خان

ایک ایسا معاشرہ جہاں کسی بچے سے بدفعلی میں کامیاب ہو جانا بہادری، ستائش اور مردانگی کا باعث ہو وہاں آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ گراونڈز میں، گلیوں میں، کھیل کے میدانوں میں، سکولز اور کالجز میں اور محلے اور شہر کی سطح پر بچوں کے تحفظ کا معیار کیا ہوتا ہو گا؟

میں بھی بہت سے معصوم اور خوبرو بچوں کی طرح اسی ٹام اینڈ جیری کھیل کا ایک کردار تھا۔ والدین لڑاکے نہیں تھے اور لڑائی کو پسند بھی نہیں کرتے تھے۔ ہاں تربیت بہت اچھی کرتے تھے۔ مثلاً بڑے بچوں کے ساتھ دوستی نہ کرو، نماز پڑھا کرو، قرآن پڑھاتے تھے، نعت اور تلاوت کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کروائی گئی، لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ میں اس سب کے باوجود خوش نہ تھا۔میرے گھر کے سامنے ایک گراؤنڈ تھا۔ جہاں پورے چھانگا مانگا کے بچے آ کر کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ گھر کے بالکل سامنے گراؤنڈ کا ایک فائدہ تھا اور ایک نقصان۔ فائدہ یہ کہ کسی بھی خطرے کی صورت میں بھاگ کر گھر میں داخل ہو جاتا تھا اور نقصان یہ  کہ میرے پاس کھیل کا مقام بدلنے کی کوئی چوائس بھی نہ تھی۔

ہوتا یہ تھا کہ جب ہم کھیلنا شروع کرتے تھے تو ناکام “لونڈے باز” بھی وہاں پہنچ جاتے تھے۔ کبھی بیٹ چھین لیتے تھے، کبھی گیند۔ کبھی دھکے لگاتے تھے اور کبھی گالیاں دیتے تھے۔  یہ عمر میں ہم سے بڑے تھے۔ کیونکہ صاف ستھرے کپڑوں، ماں کی جانب سے کیے جانے والے سپیشل “میک اپ” اور والدین کی علاقے میں بطور استاد بکھری شہرت مجھے دوسرے بچوں سے ممتاز بناتی تھی اس لیے مجھے “گرانا” کئی لونڈے باز بدمعاشوں کے لیے ایک چیلنج بن چکا تھا۔

دوسری جانب میری مزاحمت تھی۔ والدین شریف تھے جھگڑے سے بچتے تھے اور جھگڑا تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ کبھی رحمان پورہ سے بدمعاش آ ٹپکتے تھے تو کبھی کارخانے سے، کبھی مین بازار سے تو کبھی ساتھ والی گلی سے۔ میں اکیلا تھا۔ اگر اپنے آپ کو شیر کہوں تو ایسا شیر جس کے اردگرد بہت سے لگڑ بگڑ اسے کھانے اور نوچنے کے لیے بے چین رہتے تھے اور وہ شیر ہو کر بھی گیدڑ بنا رہتا تھا اور اگر اپنے آپ کو گیدڑ کہوں تو ایسا گیدڑ جسے کھانے کے لیے بہت سے لومڑ ٹپکتی رالوں کے ساتھ موجود رہتے تھے۔

لونڈے باز بدمعاشوں کی بات کریں تو ان کا پہلا مقصد اپنے ٹارگٹ کو “کانا” کرنا ہوتا تھا۔ “کانا” کرنا کیا ہے؟ کسی بچے سے جنسی زیادتی کرنا اور اس کے بعد اسے اپنا غلام بنا لینا۔ کبھی تو یہ کانا کرنے کی خواہش صرف بچے تک محدود ہوتی تھی لیکن زیادہ تر یہ کانا انتقامی طور پر کیا جاتا تھا۔

مثال کے طور پر اگر کسی کے باپ سے آپ کو یا آپ کے والدین کو عداوت تھی تو اس سے انتقام لینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے بچے کو کانا کر دو۔

باپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو اس کی اولاد پر حملہ کر دو۔ میرے ساتھ یہ دوسرا معاملہ تھا۔ زیادہ تر لونڈے باز بدمعاش جاگیرداروں اور مقامی سیاستدانوں کی اولادیں تھیں۔ جو اپنے علاوہ وقار چاہنے والے، اپنی پہچان بنانے کی کوشش کرنے والے یا ان سے زیادہ شہرت پانے والے ہر انسان کی اولاد کے درپے ہو جاتے تھے۔

اگر آپ حسین خان والا  کیس پر نظر دوڑائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ 280-300 بچے جو زیادتی کا شکار ہوئے اور ان کی ویڈیوز بنائی گئیں، میں تمام کے تمام لونڈے باز مقامی کونسلرز، چئیرمین، وائس چئیرمین اور دیگر سیاسی چمچوں کڑچھوں کی اولادیں تھیں اور زیادتی کا شکار ہونے والے تمام بچے غلامی کی زندگی جینے سے انکار کرنے والوں کی اولادیں تھیں۔ سیاستدانوں کی بدمعاشی کے سامنے جو جو اٹھا اس کا بچہ “کانا” کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ویڈیوز کی موجودگی کے بعد اس سیکنڈل میں مقامی ایم پی اے ملک احمد سعید کا نام بھی آیا اور پھر رانا ثنا اللہ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ قصور میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا بلکہ یہ زمین کے لین دین کا جھگڑا ہے۔ قصور کے ہر گاؤں میں ہر شہر میں تب بھی ایک حسین خان والا تھا۔ فرق صرف کیمرہ موبائل کا تھا جو 37 سال پہلے ناپید تھا اور ویڈیو بنانے کا عمل نہیں ہوتا تھا۔ اب صرف اتنا ہوا ہے کہ 2006 سے کیمرہ موبائل عام ہو چکے ہیں اور 2006 ہی وہ سال ہے جب حسین خان والا سے بچوں سے زیادتی کا پہلا ویڈیو سکینڈل منظر عام پر آیا۔

اس کے بعد سے قصور کا کون سا شہر، کون سا گاؤں ایسا ہے جہاں لڑکوں یا لڑکیوں سے زیادتی اور پھر اس کی ویڈیو کا سکینڈل سامنے نہیں آیا؟ اگر ان تمام معاملات کو حسین خان والا، زینب کیس یا چونیاں کیس جیسی میڈیا شہرت نہ ملی ہو تو یہ علیحدہ بات ہے۔ لیکن یہ بات قصور کا ہر باسی جانتا ہے کہ قصور میں “کانا” کرنے کا عمل 4 دہائیوں سے شروع ہے اور اب صرف اس کے ثبوت منظر عام پر آ رہے ہیں۔

تو میں اپنی جانب واپس آتا ہوں۔ نشانہ صرف میں ہی نہیں تھا بلکہ درجن بھر اور لڑکے بھی تھے اس لیے کچھ محفوظ بھی تھا۔ میں نے محفوظ رہنے کا ایک طریقہ سیکھ لیا تھا۔ ان لونڈے باز بدمعاشوں کی ایک عادت تھی۔ یہ اپنی پسند کے لڑکے کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اگر وہ شدید انکار یا گالیوں پر اتر آتا تھاتو یہ اس کے پیچھے پڑ جاتے تھے۔ اور اگر آپ ان سے ہاتھ ملاتے، تھوڑا بہت ساتھ بیٹھتے اور پھر چل دیتے تو یہ آپ کے لیے متشدد نہیں ہوتے تھے بلکہ انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن رہتے تھے۔ لیکن ایک نیا مسئلہ بھی تھا۔ جب آپ ان لونڈے باز بدمعاشوں کے ساتھ لڑائی سے بچنے کے لیے ان کے قریب ہو جاتے تھے تو جنسی عمل کیے بغیر آپ کو اس صحبت کے نتیجے میں  ایک لقب دیا جاتا تھا یعنی ” گ” ۔ لہذا آپ کو ایک بہت باریک لائن پر چلنا تھا۔

لونڈے باز بدمعاشوں کے ساتھ لڑائی سے بچنا، والدین تک لڑائی کی شکایات پہنچنے سے بچنا، نامناسب لقب سے بچنا اور پھر “کانا” ہونے سے بھی بچنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply