محترم اے وسیم خٹک صاحب کے کالم کا جواب۔۔۔عدنان بشیر

مورخہ 22اگست 2019کو مکالمہ  پر جناب اے وسیم خٹک صاحب کا کالم اساتذہ کے بیس نمبر اور جنسی ہراسانی  شا ئع ہواجس میں انھوں نے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروائی، معزز مضمون نویس نے کئی حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سمسٹر سسٹم ہی فساد کی اصل جڑہے۔ان کے اُس مضمون اور اس میں پیش کیے گےٗ دلائل کو پڑھ کے ہمیں بھی اس سلسلے میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا خیال آیا۔اگرچہ ہم اپنے آپ کو اس میدان کا ماہر کھلاڑی تو نہیں سمجھتے لیکن استادی  کے میدان کی خاک چھانتے ہوئے ایک دہائی سے  زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری اس تحریر کا مقصد نہ تو فاضل کالم نگار کو غلط ثابت کرنا ہے اور نہ ہی موضوع کی اہمیت کو کم کرنا ہے بلکہ ان وجوہات کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جن کی وجہ سے اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، تاکہ مستقبل میں ان واقعات اور ان کے نقصانات سے بچا جاسکے۔

پہلی گزارش تو یہ ہے کہ اس طرح کا طرزعمل کسی کے ساتھ اور بالخصوص خواتین سے قابل مذمت ہے اور استحصال کرنے والا اگر استاد ہو تواس کے مضمرات کا دا رہء  کاربڑھ جاتا ہے، کیونکہ قوم کے معماروں سے اس قسم کے رو یے کی توقع کسی بھی صورت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس حقیقت کو کیسے جھٹلایاجائے کہ استاد بھی تو معاشرے کا حصہ ہے اور جہاں معاشرہ بحیثیت مجموعی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو وہاں ایسے واقعات کاہونا بعید از قیاس نہیں۔ کالی بھیڑیں ہر معاشرے اور ہر طبقے میں موجود ہوتی ہیں اور اساتذہ بھی اس سے مبرا نہیں۔میرے نزدیک اس مسئلے کا حل ان گندے انڈوں کی نشاندہی اور ان کو قرار واقعی سزا دینا ہے ناکہ سمسٹر سسٹم کو مورود الزام ٹھہرانا۔

دانشمندانہ رویہ سمسٹر سسٹم کی اصل روح کے مطابق اس پہ عمل کرنا اور اسکی کمزوریوں کا تدارک کرنا ہے کیونکہ یہ سسٹم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنی تمام خامیوں کے باوجود چل رہا ہے۔ کوئی  بھی سسٹم خامیوں سے مبرا نہیں ہوتا ،ہر سسٹم میں خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ جہاں تک سمسٹر سسٹم میں استاد کے پاس بیس یا پچیس نمبر(سیشنلز) یا اسکے کلی طور پہ خود مختار ہونے کی بات ہے تو یہ اس نظام کی خوبی ہے، رہی بات اس کے ناجائزاستعمال کی تو یونیورسٹیوں میں موجو د طریقہ کار کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

ا س ضمن میں ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ استادبالخصوص یونیورسٹی کے معلم کو ملازمت دیتے وقت ان کی تعلیمی اسناد اور تحقیقی مقالات کوتوا ہمیت دی جاتی ہے لیکن ان کے عمومی کردار او رطالبعلموں کے ساتھ ان کے رو یے کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کیا جاتا۔ پھر جب ا ستاد ملازمت شروع کر دیتا ہے تو کیا ہمارے اداروں میں اس کی تربیت اور استعداد کار بڑھانے کی مناسب سہولتیں موجود ہیں؟۔۔کیا ہمارے اداروں میں جنسی استحصال کے الزامات اور واقعات کی شکا یتوں کے لیے مناسب فورم موجودہیں؟۔۔اور اگرہیں تو وہ کس قدر آزاد ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس ضمن میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پھر بحیثیت معاشرہ ہمارہ رویہ  بھی اس طرح کے معاملات میں اہم کردار کرتا ہے۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ عمومی طور پر،نا خوشگوار واقعات کی جڑ تک جانے کی بجائے ہم ان کو قا لین کے نیچے د بانے کی کوشش کرتے ہیں، بد قسمتی سے ہمارا “مٹی پاؤ” کلچر اس ضمن میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے۔کوئی تو وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک کرپشن کی تازہ ترین رینکنگ میں دنیا کے 175ممالک میں 117ویں نمبر پہ آتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک ہم حقیقتوں کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے نظریں چراتے رہیں گے؟ ایسا کب تک چلے گا؟ ہمیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانا ہوگی۔ہمیں غلط کوغلط سمجھنا  اور کہنا ہوگا۔ کسی کو تو اس ضمن میں بارش کا پہلا قطرہ بننا ہوگا؟

Advertisements
julia rana solicitors

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply