جنگل ، بارش اور آگ۔۔۔محمد اسد شاہ

پاکستان میں اور بے شمار مسائل ہیں – ماحولیات یا انسانی حقوق جیسے معاملات پر سوچنے یا بولنے کی فرصت کس کے پاس ہے ! حیرت تو اس بات پر ہے کہ دنیا بھر کے معاملات میں ٹانگیں اڑانے اور اصلاح کرنے کا ٹھیکہ جن قوتوں نے لے رکھا ہے وہ بھی اس معاملے میں خاموش کیوں ہیں ؟ یہ معاملہ ہے ایک آگ کا ، جو دراصل امیزون کے جنگلات کو نہیں ، انسانیت اور عالمی ماحول کو لگا دی گئی ہے – تقریباً 55 لاکھ مربع میل پر پھیلا دنیا کا سب سے بڑا قدرتی جنگل اور سدا بہار ساون کا علاقہ امیزون کس کرب و بلا کا منظر پیش کر رہا ہے اور دنیا اس کے اثرات سے کیسے نکلے گی ، کوئی تو سوچے !

دنیا بھر کی 20 فی صد ماحولیاتی آلودگی کو جذب کرنے اور 20 فیصد  کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پی جانے والا یہی برساتی جنگل دنیا بھر کے انسانوں اور جان وروں کو سانس لینے اور جینے کے لیے مطلوب آکسیجن کا 20 فی صد حصہ بھی فراہم کرتا ہے – یہ جنگل صرف نباتات ہی نہیں ، بلکہ کروڑوں اقسام کے جانوروں ، پرندوں اور حشرات کا بھی مسکن ہے – جہان بھر کے سائنسی محقیقین کی تسکین کا باعث یہ جنگل فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے راحت کا سامان بھی ہے – کرہ ارض کا سب سے بڑا برساتی دریا یہیں سے نکلتا اور زندگی کو رومان پرور بناتا ہے – یہ برساتی جنگل دھرتی پر اللّٰہ کی رحمتوں میں سے ایک عظیم رحمت ہے – لیکن ہوس پرست ، بے بصیرت اور سطحی سوچ کے حامل لوگوں کے ہاتھوں میں جب اقتدار آ جاتا ہے تو وہ صرف انسانوں ہی نہیں ، درختوں ، پرندوں ، جان وروں ، پانی اور ہوا کو بھی برباد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے –

دھرتی کے ماتھے کے جھومر اس محبوب جنگل میں اس وقت لاکھوں جگہوں پر آگ لگی ہوئی ہے – ایسی آگ کہ مسلسل برسات بھی اس کو بجھانے سے قاصر ہے – یہ خوف ناک آگ اب تک امیزون کے تقریباً 2400 مربع میل کے رقبے سے نباتات اور جنگلی حیات کو ختم کر چکی ہے – صدیوں   سے اسی جنگل میں رہنے والے قبائلی انسان موت اور خوف کے آگے بے بس ہوتے جا رہے ہیں – انھیں بھی ان کے ٹھکانوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے – آگ کا الاؤ اس قدر بلند ہے کہ تقریباً 250 میل دور ، پڑوسی ملک بولیویا کا دارالحکومت تقریباً ایک ماہ سے دھوئیں کے بادلوں میں گھرا ہے اور وہاں کے لوگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں – یہ آگ جو انسانی قابو سے باہر نظر آ رہی ہے ، لگائی ہوئی انسانوں ہی کی ہے – مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ میں ان ظالموں کو انسان لکھ رہا ہوں –

برازیل کے موجودہ صدر جائر بولسو نارو اپنے انتخاب سے پہلے اس جنگل کو برازیل کی معیشت میں “شامل” کرنے کے نعرے لگاتے رہے ہیں – لیکن ان کے انتخاب سے پہلے بھی اس جنگل اور یہاں کے باسیوں کو آگ اور خون میں جھونکا جاتا رہا ہے – برازیل میں 1964 سے 1985 تک آمریت کا راج رہا – اس دوران امیزون میں آباد ہزاروں قبائلیوں کو قتل کیا گیا – اور ہزاروں کو زبردستی یہاں سے نکال کر مختلف شہروں میں جاری تعمیراتی منصوبوں میں بے گار پر لگایا گیا – یاد رہے کہ امیزون کے اس قدرتی اور برساتی جنگل میں 305 قبائل کے تقریباً 10 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں – یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا، کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا، کبھی کسی کے خلاف جلسہ ، جلوس یا جنگ کا نعرہ نہیں لگایا – لیکن درندوں سے بدتر قبضہ مافیاز کو ہر حال میں اس جنگل پر قبضہ کرنا ہے – چنانچہ کئی دہائیوں سے جنگل کو آگ لگانے اور یہاں کے رہائشیوں کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں – لیکن حالیہ آگ بہت مختلف ہے ، ایسے کیمیکلز استعمال کیے جا رہے ہیں کہ آگ بارش سے بھی نہیں بجھ رہی – دنیا بھر میں آگ بجھانے کے جتنے لوازمات موجود ہیں ، ان میں کوئی بھی کارگر نہیں ہو رہا –

جائر بولسو نارو 1998 میں کانگریس سے ایک خطاب میں یہ کہہ چکے ہیں کہ “برازیلی افواج اتنی ماہر نہیں ، لیکن امریکی افواج کی مہارت قابل داد ہے جنھوں نے امریکہ میں رہائش پذیر قدیم باشندوں کو ختم کر کے اس “مسئلے” سے نجات پا لی -” بعد میں اپنے ان الفاظ کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے بولسو نارو نے ایک وڈیو بیان جاری کیا لیکن اس بیان میں بھی انھوں نے امیزون کے رہائشی قبائلیوں کے حوالے سے کوئی نرمی اختیار نہیں کی – برازیلی آئین ان جنگلات اور ان میں آباد قبائلیوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے – لیکن بولسو نارو نے الیکشن سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ زرعی اور کان کنی کے مقاصد کے لیے ان جنگلات کو صاف کروائیں گے اور یہاں کی زمین کی نیلامی کے ذریعے برازیل کو امیر ترین ممالک میں شامل کریں گے – چنانچہ انھوں نے منتخب ہونے کے بعد چند اہم کام کیے ، انھوں نے تحفظ ماحولیات کے قوانین کو بہت نرم اور کم زور بنا دیا ، پھر انھوں نے ماحولیاتی تحفظ کے قومی ادارے کے سالانہ بجٹ میں 95 فی صد کمی کر دی، اور زرعی اور کان کنی کے کاروبار کے لیے جنگلی زمین کی “صفائی” کی حوصلہ افزائی کی – لکڑی کے غیر قانونی کاروبار کو روکنے میں بظاہر ناکام رہے ، لیکن دراصل انکاری رہے – ان کی حکومت کے آغاز سے ہی جنگلات میں آباد قبائلیوں پر منظم حملوں میں باقاعدگی اور شدت آ گئی ہے اور ان کی حکومت اس سلسلے کو روکتی نظر نہیں آ رہی –

Advertisements
julia rana solicitors

برازیل میں یکم جنوری 2003 سے 31 دسمبر 2010 تک لولا ڈا سلوا صدر رہے ، انھوں نے ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی خاتون مارینا سلوا کو وزیر ماحولیات بنایا تھا- لولا حکومت کے بعد آج کل مارینا عالمی سطح پر تحفظ ماحولیات کے لیے اٹھنے والی چند توانا آوازوں میں سے ایک ہیں – انھوں نے امیزون کی اس خوفناک تباہی کو انسانی نسل کشی اور جنگی جرائم کی طرح “انسانیت کے خلاف عالمی جرم” قرار دیا ہے –
ان کی بات میں وزن بھی ہے ، اس آگ سے پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ چکی ہے   کہ اگر آج بھی یہ آگ اور خون کا کھیل بند ہو سکے تو اس جنگل کو دوبارہ اصل حالت میں آنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply