تھوڑے سے ریچھ ۔۔۔ محمد اشتیاق

موجودہ حکومت کے قیام کے بعد اس قوم کو آگاہی دی گئی کہ ہم “ففتھ جنریشن وار” کے زمانے میں جی رہے ہیں ۔ یہ وار کیا ہے ؟ گویا ہوے ” جب دشمن پہ ہتھیاروں کی بجائے میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا، کے تنخواہ دار اور پالتو لوگوں سے حملہ کیا جائے ۔ سچ جھوٹ کو ایسے مکس کیا جائے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہ ہو سکے۔ جب بے سروپا باتوں جو درحقیقت مذاق کی حد تک لا یعنی ہوں، کو ایسے اور اتنی دفعہ بیان کیا جائے کہ سچ لگنے لگیں۔ جب معصوم اور سادہ لوگوں کی ایسی ذہن سازی کی جائے کہ وہ آپ کے فائدے کو اپنا فائدہ سمجھنے لگ جائیں۔ اسے ففتھ جنریشن وار کہتے ہیں “۔ ہم نے کہا ” جیسا پانامہ کیس “۔ لہجہ کرخت ہو گیا اور انہوں نے مڑ کہا یہ بھی دشمن کا ایجنٹ ہے نظر رکھو۔

ففتھ جنریشن وار کے سب سے آزمودہ ہتھیار وہ صحافی اور تجزیہ نگار ہیں جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہیں ۔ ایسے دو درجن لوگوں سے آپ کسی بھی ملک کی درودیوار ہلا سکتے ہیں اور اگر ملک اپنا ہو تو اور زیادہ آسانی سے ۔ ایسا گندا اسلحہ ہر ملک کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں پایا جاتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس ملک میں اس اسلحے کا رخ صرف اندر کی طرف ہے۔ ہم اس وار کے چشم دید گواہ ہیں اور کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں فتح ان مجاہدوں کی ہوئی۔ مسئلہ صرف ایک فتح تو پا لی اب کرنا کیا ہے ۔ نہ تو اس جنگ کے جرنیلوں کو پتہ، نہ ہتھیاروں کو ۔ خواہشات کا ڈھیر اور مسائل کا ادراک نہیں ۔ نتیجہ وہی جو نظام سقہ کا ہو سکتا ہے ۔ بلی کے ہاتھ اون کا گولہ یا بندر کے ہاتھ استرا۔

حالات اتنے الجھ گئے کہ ماہر ڈاکٹرائن اور چی گویرا الگاندھی و مہاتیر بھی ناکام اور ان کے ریٹائرڈ میزائل بھی ٹھس۔ کالی دال والے موکل بھی بے بس ۔ سارے جن کوہ قاف کو واپس صرف ایک گونگا جن بچ گیا جو پنجاب کی سنسان اور بیابان گلیوں کا پھیرا لگا کہ یہاں کے مردہ ضمیروں کو یہ بتا کہ کوہ قاف روانہ ہو گا کہ بہتری ایک مسلسل عمل کا نام ہے کسی جادو ، سفلی عمل یا کسی ری فربشڈ پیرنی کے وظائف سے جنم پانے والے آکڑ بکڑ بمبے بو قسم کے ازدواجی رشتوں کی تشکیل سے بہت مختلف ۔

مایوسی کے اس عالم میں ان ہتھیاروں کی جھنجھلاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس وار کا ہر ہتھیار اپنی ہی رینج کی تکلیف میں مبتلا ہے ۔ایک ادھیڑ عمر ہتھیار جو اربوں والے کیلکیولیٹر کو گیڑنے کے لئے رکھا گیا تھا اس کو سیاست کی تھالی کے بینگن کے ہاتھوں بھری محفل میں رسوائی اٹھانی پڑی ۔ تھپڑ رسید کیا گیا اور کل ہی اس کے اندر مردہ ضمیر کی دم توڑتی لکیر نے جھٹکا لیا اور آواز آئی کہ ایسا سلوک تو ہم سے انہوں نے نہیں کیا جن پہ ہم روز تنقید کرتے تھے ۔ کسر نفسی سے کام لیا کہ مزدوری کو تنقید کہہ دیا ۔

ایک اور نامور بڑبولا جس کو لوگوں کے کچن کی ہر خبر ہوتی ہے، کو ایک ایسی خبر دینے پر جو پوری دنیا کو پتہ ہے اور جو محاورتاً نہیں حقیقتاً چھپ چکی ہے، شرابی قرار دے دیا گیا ۔

ایک اور بزرگ صحافی جو اپنے آپ کو ٹشو پیپر کی بجائے نیوی گیٹر سمجھنے لگے تھے کو پہلے ہی شرابی قرار دیا جا چکا ہے ۔ لیکں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں یہ اغوا اور پامال شدہ وہ مال ہیں جس کو مالکوں نے لینے سے انکار کر دیا ہے اور اس پا مالی کو انہوں نے مقدس پیشہ سمجھ لیا ہے۔ یہ کہیں نہیں جانے والے ۔ چند سکے، ایک آدھ وڈیو، ایک آدھ زیارت اور یہ دوپٹہ پہن کے پھر دھمال ڈالنے لگ جائیں گے۔

مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لیسلے ہتھیار جو ابھی تک اپنے کام میں جٹے ہیں یہ جاننے کے باوجود کہ ان کی مسلسل خدمت کسی کو مزا نہیں دے رہی لیکن ان کو ڈی این اے سے ایک ہی ہدائت ملی ہے اور وہ اسی عمل کو دوہرانے کی، اس حقیقت سے بے نیاز کہ وہ اس فطری عمل سے ایک ناگوار سی نفرت کا موجب بن رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک مجاہد روزانہ کی بنیاد پہ دو سے تین شوز میں نمودار ہوتا ہے ۔ رنگ ماسٹر اس کے سامنے ادرک رکھ کے اس کا تماشہ پورے ملک کو دکھاتے ہیں اور اس کے بعد وہ خود سوشل میڈیا پہ اس کو پھیلاتا ہے کہ “کیسا ناچا” ۔ قافیے ردیف سے مزین پرچے سے فارغ ہونے کے بعد باقی کا وقت اپنے کان بند کر کے اپنی دم پکڑنے میں مشغول رہتا ہے ۔ وہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ دنیا محلوں میں تقسیم ہے اور دوسرے کے محلے میں جانا ممنوع ہے لیکن غلط فہمی کی وجہ سے ہر شو کو ہی اپنا محلہ سمجھتا ہے ۔ غلط فہمی ہی سہی پر کسی اور پہ غرانے میں حق بجانب تو ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا نہیں ہے کہ ہر ہتھیار تیار کیا گیا ہے ۔ چند ہتھیار چین ریکشن سے بھی وجود میں آئے ۔ دانشورانہ سادہ لوحی سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ چڑیا گھر کے مالک نے جس کو ریچھ کی کھال پہنائی ہے اتنا عرصہ کھال میں رہنے پہ کچھ نہ کچھ ریچھ تو بن ہی گیا ہوگا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ احساس ہو رہا کہ کھال اتر رہی ہے پر کسی اور کا بغض مجبور کرتا ہے اور وہ پھر سوچتے ہیں کہ نہیں تھوڑا سا ریچھ تو بنا ہو گا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اچھا دماغ رکھنے کے باوجود وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر آپ نے پہلے انکی بات ماننے سے انکار کیا جو آپ کو اس ریچھ کی حقیقت آگاہ کر رہے تھے تو اب تو آپ نے اسکی کھال سرکتی دیکھ لی ۔ رجوع کر لیں ۔ اپنی غلطی پہ ڈٹا رہنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ پھر بھی امید کہ زیادہ نہیں تھوڑا سا ریچھ۔

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply