• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پنجاب کی تقسیم سے پیدا ہونے والے آبی مسائل۔۔۔۔کاشف حسین سندھو

پنجاب کی تقسیم سے پیدا ہونے والے آبی مسائل۔۔۔۔کاشف حسین سندھو

پہلی قسط:چڑھتے پانیوں کے مسائل۔۔۔کاشف حسین سندھو

پچھلے مضمون سے ہم جو نتیجے اخذ کر سکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اندرا گاندھی کے قتل کے پیچھے پنجاب کے پانیوں پہ ڈاکے کی لمبی تاریخ ہے ،بھارت کی طرف سے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ماضی میں ہندی بیلٹ کی طرف سے فیروز پور ہیڈورکس اور مادھو پور ہیڈورکس سے پانی روکنے کا مقصد یہ پانی پاکستانی پنجاب سے لیکر بھارتی پنجاب کو دینا نہیں تھا کیونکہ بھارتی پنجاب ان پانیوں سے پہلے ہی سے مستفید ہو رہا تھا بلکہ ان پانیوں کو ہندی بیلٹ تک پہنچانا تھا ،اس غلیظ حرکت کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ستلج راوی و بیاس جو چڑھدے پنجاب اور پاکستانی جنوبی پنجاب (وسیب) کو سیراب کرتے تھے پنجابیوں کے قبضے سے باہر جا چکے اور یہ دونوں علاقے اپنے زیرزمین پانی کی دونوں اوپری تہیں ٹیوب ویلز کے ذریعے پی چکے ہیں، (پاکستانی جنوبی پنجاب نے بھی ان دریاؤں سے ہاتھ دھونے کے بعد ٹیوب ویلز پہ انحصار شروع کر دیا تھا) باقی موجود تیسری پرت بھی چالیس پچاس برس تک ختم نہ  ہوئی تو اتنی نیچے ضرور چلی جائے گی کہ اسے نکالنے پہ بھاری اخراجات ہونگے، ۔ کیا یہ تھا تقسیم کا حاصل ؟ 

پنجابیوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ پنجاب کی مذہبی تقسیم نے انکی نسلوں کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا اور یہ نقصان برصغیر میں صرف پنجاب اٹھا رہا ہے ،پنجابی اشرافیہ کے مفادات اس ملک سے وابستہ نہیں ہیں، جب پنجاب کسی قحط یا مشکل کا شکار ہوا تو یہ اپنے باہر سیٹلڈ بچوں کے پاس بھاگ جائے گی ،میں ان لوگوں سے مخاطب ہوں جنہیں یہاں رہنا ہے اور جو پنجاب دھرتی سے دلی محبت رکھتے ہیں وہ طے کر لیں کہ انہیں کدھر جانا ہے ،صرف پاکستان کھپے کہنا ہے یا پاکستان کھپے سے پہلے پنجاب کھپے بھی کہنا ہے۔۔ پنجاب کھپے میں انکی نسلوں کی بقاء کا سامان ہے ۔

یہ مضمون پڑھتے ہوئے دوستوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہو گا کہ جب نہرو اور اندرا یہ سب کر رہے تھے تو کیا چڑھدے پنجاب کی سیاسی جماعتیں سوئی ہوئی تھیں ؟

اسکا جواب یہ ہے کہ پاکستان ہو یا بھارت دونوں یونینز صرف کہنے کی حد تک جمہوری ہیں ،حقیقت میں دونوں آمرانہ یونینز ہیں، بھارتی اسٹبلشمنٹ کی طاقت ہندی بیلٹ ہے اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی پنجاب، ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بھارت میں ہندی اسٹبلشمنٹ ہی ہر اختیار رکھتی ہے، پاکستان میں یہی کام پنجاب کرتا ہے ،مگر پاکستانی پنجاب اس سارے مُدعے میں بھارتی ہندی بیلٹ کی طرح مکمل فائدے میں نہیں ہے، بلکہ وہ باقی صوبوں پہ اختیار کی بھاری قیمت اپنے پانیوں اور زبان و  کلچر کی بربادی کی شکل میں چکا رہا ہے ۔

سادہ بات کروں تو یہ ہے کہ بھارتی پنجاب بھی مرکز یا ہندی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں بے بس ہے، ریاست کی طاقت ڈاہڈی ہوتی ہے ،اسکے آگے کوئی کتنی دیر کھڑا ہو سکتا ہے ؟ پھر بھی چڑھدے پنجاب واسیوں نے اندرا کو مار کر اپنی مزاحمت کا ثبوت دیا اور بدلے میں اپنے کعبے کی تباہی اور ہزاروں جانوں ،عزتوں کا نقصان بھی برداشت کیا، پاکستان بھارت جیسی فیڈریشنز کا ایک اور نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ مضبوط مرکز کے لیے صوبوں کو اپنے حقوق سے دستبرداری اختیار کرنی پڑتی ہے، مثلاً چونکہ فیڈریشنز میں رابطہ چاہیے ہوتا ہے تو اس رابطہ زبان کو برداشت کرنے کے چکر میں یہ زبان میڈیا کی مرکزی زبان بن کر باقی زبانوں کو نگلنے لگتی ہے ،اسی طرح اگر آج پاکستانی و بھارتی پنجاب اکٹھے و آزاد ہوتے تو بھارتی سرکار پنجاب کے پانیوں پہ ڈکیتیاں نہیں مار سکتی تھی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ پاکستان کا ماما بننے کی بجائے ملک کو کنفیڈریشن کی شکل دیکر سب سے پہلے پنجاب کے بارے سوچے، قدرت کی مہربانی ہے کہ پنجابی فوج نہایت مضبوط ہے ،ایٹمی طاقت رکھتی ہے ،بآسانی بھارتی پنجاب میں بھارت کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے ،خصوصاً اس صورت میں اگر آپ مذہب کو ذاتی حیثیت دیکر پنجابی نیشنلزم کے ذریعے پنجابی ہندو سکھ کو یہ یقین دلائیں کہ پنجاب کی سیاسی شناخت مذہب نہیں بلکہ پنجابی ازم ہو گا تاکہ اسکے ذہن سے مسلم پنجابیوں کی بالادستی کا خوف نکل سکے تو آپکو فُل سپورٹ مل سکتی ہے اور ایک مشترکہ قوم کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آخری مُدع  یہ کہ جو حشر بھارتی پنجاب کا ہوا وہی کہانی ستلج راوی بیاس کی سینچائی والے پاکستانی جنوبی پنجاب میں بھی دوہرائی گئی ہے یہاں کا کسان بھی زیرزمین پانی ٹیوب ویلز سے نکال نکال کر پھاوا ہو رہا ہے ،میرے خالہ زاد بھائی حافظ فہیم قریشی جو خیرپور ٹامیوالی کے زمیندار ہیں۔۔ بتاتے ہیں کہ صرف 20 سال پہلے ہمیں پانی کے لیے 60 تا 70 فٹ تک بور کرنا پڑتا تھا اب 110 فٹ تک بور کرنا پڑتا ہے یعنی کہ چڑھدے پنجاب کی کہانی اسی طریقے سے لیکن نسبتاً سست طریقے سے یہاں بھی دوہرائی جا رہی ہے ،ہم پنجابیوں کو اپنا ڈھگا پن چھوڑ کر سب سے پہلے پنجاب کا نعرہ لگانا ہو گا ہم دونوں جب تک نہیں   ملیں گے اپنے وسائل اور حقوق پہ اختیار نہیں لے پائیں گے، ایک رپورٹ کے مطابق اگلے چالیس سال میں پانی کے مسائل کے باعث 4 کروڑ افراد کی نقل مکانی کا خدشہ ہے اور جنوبی پنجاب اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا اگر ہم اسے روکنا چاہتے ہیں تو آئیے اک دوجے کے دست و بازو بنیں، نہیں تو پنجابی عوام ہی نہیں پنجابی اسٹبلشمنٹ بھی ساتھ ہی ماری جائے گی ،پنجابی اسٹبلشمنٹ ، سرائیکی تحریک چلانے والے دوست پنجابی نیشنلسٹ اور چڑھدے پنجاب واسی یہ چار عناصر ملیں گے تو بھارتی اسٹبلشمنٹ کو نتھ ڈال کر اپنے حق واپس لیے جا سکتے ہیں وگرنہ تباہی سامنے ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply