برما ہمارے دلوں کو برما رہا ہے

برما پر سٹیٹس لکھ کر شہیدوں میں نام لکھانے کا بزنس زوروں پر ہے۔ میں نے اس موضوع پر پہلا سٹیٹس اس وقت لکھا تھا (بدھ 30 اگست 2017) جب کسی معروف فیسبکیے دوست نے ابھی کچھ نہیں لکھا تھا۔ اس سٹیٹس میں ،میں نے عرض کیا تھا کہ یہ مسئلہ صرف مذہبی یا نسلی نہیں ہے بلکہ اس میں معیشت پر دباؤ اور ریجنل حساسیت سمیت اہم تر وجوہات شامل ہیں۔ یہ سٹیٹس درجِ ذیل ہے:

“برما کے مسلمانوں کا مسئلہ صرف مذہب نہیں ہے ورنہ آج سے بہت پہلے یہ قتل و غارت گری ہوچکی ہوتی اور آج ایک بھی کلمہ گو یہاں نہ ملتا۔ ساٹھ ستر سال سے یہاں تبلیغی جماعتیں آ جا رہی ہیں اور بڑی تعداد میں برمی مسلمان اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے کراچی کے مدارس میں زیرِ تعلیم رہے ہیں۔ چند جذباتی کالم پڑھنے یا عالمی میڈیا پر پائے جانے والے کچھ تجزیات پر اپنی صحافتی رپورٹ کی بنیاد رکھنے کے بجائے اگر ان لوگوں سے معلومات لی جائیں تو آج کل جاری افسوسناک قتل و غارت کی اصل وجوہات سامنے آسکتی ہیں۔

یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے مسلمانوں کے مکہ سے مدینہ ہجرت کی وجہ صرف مذہب نہیں تھا اور مدینہ میں جنگ اور پھر خانہ جنگی کی وجہ بھی صرف مذہب نہیں تھا اور مثلًا ریڈ انڈینز کی نسل کُشی کی وجہ صرف قومیت نہیں تھی اور مثلًا ہٹلر کی یہودیوں کی نسل کُشی کے اسباب صرف مذہبی نہیں تھے اور مثلًا کارگل جنگ کی وجہ صرف جغرافیائی اہمیت نہیں تھی اسی طرح برما روہینگیا (اراکان) کے علاقوں میں جاری یزیدیت اور طالبانی داعشیت کی وجہ صرف اختلافِ مذہب نہیں ہے بلکہ اس میں اخلاقی و جنگی جرائم، شہریت اور ملکی معیشت پر دباؤ وغیرہ بنیادی فیکٹرز ہیں۔ امید ہے چند دن میں یہ باتیں سوشل میڈیا پر زیرِ بحث آئیں گی۔”

حسبِ توقع اس پر شدید ردِ عمل ہوا اور کئی غلیظ اور فرقہ وارانہ کمنٹ ہوئے جو ڈیلیٹ بھی کرنا پڑے۔ میری معلومات کا ماخذ کچھ برمی دوستوں کی بتائی باتیں تھیں جن کے ساتھ کئی سال پہلے تبلیغی جماعت میں وقت لگا تھا۔ فیسبک پر گفتگو عام ہوئی تو میری عرض کی ہوئی باتیں رفتہ رفتہ درست ثابت ہوتی گئیں۔

پچھلے تین دنوں میں جب کہ سوشل میڈیا ٹرینڈنگ، گروپس اور پیجز کے ذریعے سے اس موضوع کو مذہب کی انگیٹھی پر روسٹ کرکے پوری طرح مذہبیایا جا چکا ہے اور وطنِ عزیز کی مختلف مذہبی جماعتیں برما یکجہتی اور دفاعِ اسلام قسم کی ریلیاں نکالنے کے لیے ہوم ورک مکمل کرکے حکومت پر شدید دباؤ ڈالنے کے لیے اشارۂ ابرو کی منتظر ہیں، میں ایک اور ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جو سماعتوں پر شدید گراں ہوگی۔

میری دانست میں برما کا مسئلہ بڑی حد تک خالص علاقائی مسئلہ ہے جسے میانمار حکومت کو خود حل کرنا چاہیے اور مذہب یا کسی بھی اور عنوان سے جاری قتل و غارت گری فوری رکنی چاہیے جسے اس وقت نسل کشی کہا جانے لگا ہے۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ فساد زدہ علاقوں میں بدھسٹ بھی آباد ہیں تاہم ان کو اس نسل کشی کا سامنا نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہ ممکن ہیں لیکن دو ظاہری بڑی وجہیں یہ ہیں کہ ان فلاکت زدہ مسلمانوں میں شامل کئی لوگ بودھ عورتوں کے ریپ میں ملوث رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ میانمار حکومت کے خلاف ہتھیار بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کے قومی و اخلاقی جرائم کی وجہ سے ان کی پشت پناہی نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ یہ فعل میانمار حکومت کے داخلی معاملات میں مداخلت تصور ہوگا۔ ان حالات میں برما کے موضوع پر حکومتِ پاکستان کو قومی اسمبلی میں ایک رسمی قرارداد بھی پاس نہیں کرنی چاہیے اور سوائے رسمی اخلاقی مدد کے کسی قسم کی کوئی سرگرمی، خصوصًا فوجی سرگرمی، بالکل نہیں کرنی چاہیے اور اس بارے میں واضح قومی پالیسی کا فوری اعلان کرنا چاہیے۔ اس پالیسی اعلان سے ہماری مذہبی جماعتوں کا قبلہ بھی درست رہے گا۔

ایک متبادل رائے یہ ہے کہ اگر برما کے مسئلے کا فوری سیاسی حل نہیں نکلتا بلکہ فوجی کارروائی ضروری ٹھہرتی ہے تو یہ کام وہ مسلم ملک کرے جو اقتصادی اور فوجی اعتبار سے مضبوط ہو اور اسے داخلی سلامتی کے مسائل درپیش نہ ہوں۔ اس وقت ایسے چار ملک پاکستان، ترکی، ایران اور سعودی عرب ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان اس وقت آدھ کروڑ افغان اور ترکی اس وقت لاکھوں شامی مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں، اس لیے اس فہرست سے نکل جاتے ہیں۔ ایران کا مذہبی و مسلکی قارورہ برما سے نہیں ملتا۔ چنانچہ فوری فوجی حل یہ سمجھ آتا ہے کہ برما میں جاری انسانی المیے کو ختم کرنے کے لیے چونتیس اسلامی ملکوں کی فوج کے کسٹوڈین سعودی عرب کو میدان میں اتارا جائے تاکہ اس فوج پر اٹھنے والے کثیر ملّی اخراجات کا کوئی جائز استعمال سامنے آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چاہیے کہ جنگی کارروائی کے ساتھ ساتھ سعودی عرب برما کے ان بے کس بے وطن کلمہ گوؤں کو شہریت دے اور اپنے پاس بلاکر آباد کرکے انصارِ مدینہ کی سنت تازہ کرے۔ حجازِ اقدس میں مہاجرین کی آخری بار آباد کاری کو ڈیڑھ ہزار سال ہوچکے ہیں اور اس تمام عرصے میں عرب حکومتوں کو مہاجرین کی خدمت کا موقع کبھی نہیں ملا۔ یہ برمی مسلمان نسبًا بھی خود کو عرب بتاتے ہیں اس لیے یہ آباد کاری سیاسی اور معاشی و معاشرتی اعتبار سے سب سے اچھی رہے گی۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply