زمانہ قدیم سے انسان اپنے سے کمزور انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کا شوقین رہا ہے ۔زمانہ قدیم کا طاقتور انسان دوسرے انسانوں کو جانوروں کی طرح زینجروں میں باندھ کر اور کبھی ہتھیاروں کے اشاروں پر نچاتا رہا ہے ۔دور حاضر میں کم ظرف انسان یہ کام کہیں کسی کی معاشی مجبوری کو ایکسیپلوئٹ (Exploite ) کر کے کہیں کسی کو آسائشوں کا غلام بنا کر اپنے اس گھٹیا شوق کی تسکین کر تا ہے اور تو اور اگر اس کرہ ارض پر کچھ اچھے لوگ بنی نوع انسان کی بہتری کیلئے کوئی نظام واضع کرتے ہیں تو اول الذکر مخلوق ایسے نظام میں سے بھی اپنے گھناونے شوق کی تسکین کے راستے نکال ہی لیتی ہے ۔دُنیا میں اس کی ہزاروں مثالیں ہیں ۔وطن عزیز میں اس طریقہ ورردات کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے ۔پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں اور خواتین کو سینٹ قومی وصوبائی اسمبلیلوں میں نمائندگی دینے کا طریقہ واضع کیا گیا ہے مقصد اس کا یقینایہ رہا ہو گا کہ کسی طرح معاشرے کے ان کمزور طبقات کے نمائندوں کو ایوان میں پہنچایا جائے ۔ جوڈریکٹ انتحابات کے زریعے ایوانوں میں نہیں پہنچ سکتے،لیکن اس طریقے سے غیر مسلم پاکستانیوں اور خواتین کے نام پر 22سینٹ 70قومی اسمبلی74پنجاب اسمبلی 29سندھ اسمبلی 30کے پی کے اسمبلی 14بلوچستان سمبلی,گلگت بلتستان میں خواتین و ٹیکنوکریٹ9 (وہاں اقلیتی نشستیں نہیں ہیں) آزاد کشمیر خواتین و ٹیکنوکریٹ 9 (وہاں بھی اقلیتی نشستیں نہیں ہیں۔ مخصوص سیٹوں پرا س طرح مجموعی طور پر257ممبران جن میں سے 38غیر مسلم پاکستانی اور 219 اس میں صرف گلگت اور کشمیر کے چند ٹیکنوکریٹس شامل ہیں ۔۔باقی سب خواتین نمائندگان ہیں ۔لیکن یہ ایک سوالیہ نشان ہے. کہ کیا یہ نمائندگان چند ایک کو چھوڑ کر اپنے ان طبقات کی نمائندگی کرتے بھی ہیں جن کی نمائندگی کیلئے یہ نظام واضع کیا گیا تھا ۔مثلاًخواتین کی نمائندگی کیلئے جن خواتین کو منتخب کیا جاتا ہے وہ زیادہ تر حکمران طبقے یا اشرافیہ کے تعلق کی بنیاد پر نامزدگی جاتی ہے .ناکہ اہلیت کی بنا پر لہذا اگریہ نمائندگی دینے کیلئے خواتین کی ان مخصوص سیٹوں پر الیکشن لازمی قراردے دیا جائے تو صرف ،پنجاب ،سندھ ،بلوچستان اور کے پی کے چند گھرانوں کی خواتین کی جگہ پورے ملک کی خواتین اس انتخابی عمل میں بھی حصہ لے سکے گی اور وہ وطن عزیز کی تقریباً 55%آبادی کی سیاسی تربیت بھی ہوگی اور منتخب ہو کر آنے والی خواتین اپنی ہم صنفوں کے مسائل بھی اسمبلی میں بیان کر سکیں گی اور اپنے اپنے پارٹی رہنما کی بجائے اپنے حلقے کی خواتین کی نمائندہ ہونگی ۔ اور شام کو ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے اسمبلی سینٹ میں پہنچانے والوں کے قصیدے پڑھنے کے بجائے اپنی ہم صنف جنکی شناخت کی بنیاد پر انھیں یہ انتہائی مراعات والی خدمات انجام دینے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے وہ انجام دیں۔اسی طرح غیر مسلم پاکستانیوں کے نامزذکر دہ سینیٹر ز،ایم این اے اور ایم پی اے بھی اپنے اپنے عقیدوں کی بنیاد پر نمائندگی تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن وہ اپنے ہم عقیدہ لوگوں کو نہ تو جواب دہ ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی طرح کی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں ۔ ان کی پہلی ترجیح ان کی خوشامد کرنا ہوتی ہے جن کے حکم سے انہیں سینیٹ، نیشنل یا صوبائی اسمبلی کی نشست ملنی ہے۔ اور سال میں ایک آدھ دففہ دن دیہاڑ پر جب انھیں کبھی قومی میڈیا پر موقع ملتا ہے۔۔ تو بھی وہ قائد جموریت قائد مزاحمت یا ایسے دیگر قائدین ٹائپ کے لوگوں کے شکر گزار ہو رھے ہوتے ہیں۔۔ اور وقت گزر جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کے ان کا یہ رویہ کیوں نہ ہو؟ یہ تو بہت بڑا فائدہ ہے ۔جو ایک شخص کے صوابدیدی اختیار میں ہوتا ہے۔ ایسے نامزد نمائندے اور اس کی پارٹی کے سربراہ کا رشتہ بادشاہ سلامت اور حواریوں والا ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو یہی ہونا چاہیے ۔جب آپ کو ایک بندے کے اشارے سے غریب جمہوروں کے خرچے پر اتنی مراعات حاصل ہو جائیں گی تو آپ یقیناًاس کی خوشنودی کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ برصغیر کے سماج پر توبیرونی حملہ آوروں نے اس خطے کے لوگوں کے دماغوں پر ایسے غلام اور آقا کے آپسی تعلقات پر مبنی سماجی اثرات چھوڑے ہیں، کہ ہماری مجموعی طور پر نفسیات ایسی ہو گئی ہے ۔کہ جہاں سے ہمیں کسی بھی طرح کا فائدہ ملنے کی اُمید ہو ہم اس شخص یا گروہ یا حکمران کی ہرطرح کی خوشامد کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔یہ فائدہ تو بہت بڑا ہے اس سے بہت چھوٹے فائدوں کے لئے ہمارے رویے کیا ہو سکتے ہیں۔اگر اس بات میں کسی کو شک ہو تو اپنے آس پاس روز مرہ کی زند گی میں نوکر شاہی کا اپنے حکمرانوں کے اشاروں پر اپنے ہم وطنوں سے اپنایا ہوا رویہ اور ہم وطنوں سے کیا جانے والاسلوک دیکھ لیں یا عوام کے ووٹوں پر منتخب ہو نے والے وڈیروں ،جاگیرداروں ،خانوں اور سرداروں جو کہ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی اپنی ذات میں سب کچھ ہوتے ہیں لیکن اپنے ذاتی ووٹ بنک ہونے کے باوجود کار پر جھنڈے اور اپنے حریفوں کو ڈنڈے۔۔۔۔۔۔مروانے کیلئے یہ لوگ اپنے اپنے پارٹی رہنماؤں کی خوشامد میں کہاں تک چلے جاتے ہیں ۔یہ ایک تلخ بلکہ ننگی حقیقت ہے، اور انکی وفاداریواں اپنے عوام سے ہیں، یا اپنے پارٹی رہنماؤں سے یہ دیکھ لیں اور اسکے بعد آپکو انداز ہوجائے گا کہ خواتین اور غیر مسلم پاکستانیو ں کے نام پر یہ جو جمہوری غلام انہوں نے غریب عوام کے ٹیکسوں پر رکھے ہوئے ہیں ۔یہ خواتین وحضرات اپنے ان افراد کے کتنے وفادار ہونگے جن کی یہ نمائندگی کرتے ہیں یا اپنے پارٹی راہنماؤں کے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ خیال بڑا اچھا ہے، کہ ان دونوں طبقوں کی ریاست کے ایوانوں میں نمائندگی ہو نی چاہئے ۔لیکن اس کیلئے ایسا نظام واضع ہو نا چاہئے جس سے جمہوریت کی روح کے مطابق جمہور کے نمائند ے منتخب ہوں ناکہ ایسے جمہوری غلاموں کی ایک اور فوج آجائے جو موج تو عوام کے خرچے پر کرے بلکہ اڑائے اور خدمت اپنے اپنے نامزد کرنے والے آقاؤں کی کرے یعنی
خرچہ جمہورکا اور وفادار حضور کا ۔
اب آپ اندازہ کریں کہ پاکستان کے خرچیلے جمہوری کلچر میں یہ257 ممبران سینٹ ،قومی اور صوبائی اسمبلی و ازاد کشمیر ہم غریب جمہوروں کو کتنے مہنگے پڑتے ہو نگے ۔ہاں اگر یہ اقلیتوں اور خواتین کے نمائندگان اگر واقعی جمہوری انداز سے منتخب ہو کر آئیں تو غریب جمہور وں کے خرچے پر بننے والے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور تو اور انکے الیکشن کے دوران بھی ان دونوں طبقوں کی سیاسی تربیت بھی ہو جس سے آئندہ مختارہ مائی اور یوحنا آباد جیسے دیگر واقعات سے بھی بچا جا سکتا ہے ۔کیونکہ جب خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کیلئے براہ راست انتخاب ہو گا تو اس انتخابی عمل میں ان دونوں طبقوں کی جو سیاسی وسماجی رابطوں کی تربیت ہو گی ۔اس تربیت کے نتیجے میں مختاراں مائی اور اس طرح کی حوا زارویوں کے ساتھ ظلم وستم کے واقعات اور کوٹ رادھا کشن اور یوحنا آباد بم دھماکے کے بعد پیش آنے والے واقعات سے بھی بچا جاسکتا ہے کیونکہ جب یہ طے ہو جائے گا، کہ اتنی خواتین اور اتنے اقلیتی ممبران ایوانوں میں پہنچانے ہیں ۔لیکن ہونگے ذریعہ انتخاب تو چاہئے پھراپنے من پسند اقلیتی ممبران با اثر خاندانوں کی عورتیں ہی نامزد کی جائیں لیکن انتخابی عمل کے دوران جو پورا انتخابی نظام حرکت میں آتا ہے ۔اس میں جس طرح بلدیاتی نظام جمہوریت کیلئے نرسری ثابت ہو تا ہے اسطرح خواتین اور اقلیتی ووٹروں کی براہ راست الیکشن کے ذریعے تربیت ہو گی ۔کیونکہ امید وار چاہے من پسند یا حکمران طبقے کے خاندانوں سے ہو لیکن انتخابی عمل سے جو علاقائی عہد ید ار وجود میں آتے ہیں ۔گلی محلے میں خواتین امید وار کی خواتین ہی ورکر ہونگی۔۔سوچیں کیسی کیسی قائدانہ صلاحیتوں والی بنیظریں اور مریم پیدا ہونگی۔۔ اور اقلیتوں کے امید واروں کے اقلیتی علاقائی عہد ید دار ہونگے اس طرح اس سارے عمل سے جمہوری غلاموں کے بجائے اپنے اپنے طبقوں کے حقیقی نمائندے ایوانوں میں پہنچیں گے اور اس سارے عمل سے جمہوری غلاموں کی فوج کے بجائے حقیقی نمائندگان کی سیاسی تربیت بھی ہو گی ،اور معاشرے میں جمہوری کلچر کی بھی آبیاری ہو گی ۔ ہاں اس تحریر سے قطعی یہ مقصد نہیں کہ غیر مسلمان پاکستانیوں کے لئے جداگانہ طرز انتخابات کی وکالت کی جائے کیوں کہ وہ تو اس سے بھی زیادہ ظالمانہ طریقہ واردات ہے کیونکہ اس نظام کے ذریعے تو پاکستان کے تقریباً نوے لاکھ غیر مسلمان دھرتی کے بچوں کو تیسرے اور چوتھے درجے کا شہری بنا دیا گیا تھا اور انہیں جنبش قلم سے شودر بنا کر رکھ دیا تھا اگر حکومت کے پالیسی ساز واقعاتاً خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی حکومتی ایوانوں میں چاہتے ہیں ۔تو پھر بہت سنجیدگی سے اس مسئلے پر سوچ بچار کے بعد کوئی نظام واضع کرنا پڑے گا۔ مثلآ دوہرے ووٹ کا نظام بھی متعارف کروایا جاسکتا ۔جس میں نہ تو کسی کی پاکستانی شہری ہونے کی شناخت پر کوئی حرف آئے اور نہ ہی کسی کی مذہبی یا صنف کی بنیاد پر ان کے ایسے نمائندے منتخب کئے جائیں جن کا ان سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ساجد مسیح پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں کے خلاف یا اسیران یوحنا آباد واقعہ کی داد رسی کے لئے اگر مسیحیوں اور ہندؤں کی شناخت پر 38 منتخب سینیٹ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے میں سے کوئی کسی بھی سطح پر احتجاج کرتا نظر نہیں آتا۔ یا گٹروں میں مرنے والوں کے لئے حفاظتی آلات کی کوئی بات نہیں کرتا۔ بلکہ اپنے اپنے مبینہ طور پر معاشی دھشتگردی میں ملوث آقاؤں کے لئے سولہتوں کے لئے کوشاں ہیںِ۔ یا ان میں سے آدھے ہندو مختلف ایوانوں میں بیٹھے ھوئے کے باوجودِ اگر جبری تبدیلی مذہب و دیگر ایسے ھی ظلم زیادتی والے امتیازی رویوں کے خلاف ان میں سے کوئی اپنی برادری کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آتا۔ ان خاک نشینوں کے ساتھ کھڑا ہونا تو درکنار یہ 38جنکی ایک شناخت سانجھی ہے..
کے یہ اس ملک کے غیر مسلم شہری ہیں۔ اور پاکستانی معاشرے میں انکو درپیش مسائل وخطرات اور دستیاب موقعوں کے حالات لگ بھگ ایک جیسے ہی ہیں ۔لیکن اس کے باوجودِ کے کہیں کسی بھی مسلے پر ایک جگہ نظر نہیں آتے۔اسی طرح آئے دن حوا کی بیٹیاں ملک کے طول وعرض میں صرف صنف نازک ھونے کی بنیاد پر ظلم سہتی ہیں ۔لیکن219خواتین میں سے کوئی ہمیں علامتی احتجاج بھی کرتی نظر نہیں آتی۔اور انکی شناخت پر مراعات حاصل کرنے والیوں کی کبھی کوئی مشترکہ آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ تواسی بات سے اندازہ کر لیجئے کہ اس نظام نے کیسے جمہوری غلام پیدا کئے ہیں۔ ان تلخ حقائق اور دستیاب شواہد کی بنیاد پر سمجھ یہ ہی آتا ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں مذہبی اقلیتوں یا صنف کی شناخت کی بنیاد پر نامزد ممبران سے کسی کو گلا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ہاں انکو نامزد کرنے والوں اور نامزد ہونے والوں کو سوچ بچار کرنے کی ضرورت ھے کہ ھم کیا کر رھے ہیں.اپنے مفادات اور آئی ایم ایف ودیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ڈرانے پر آئینی ترمیم کرنے والے اگر یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کرلیں تو ملک بھر میں ایک سیاسی ،سماجی و معاشرتی انقلاب کے ساتھ بین الاقوامی نیک نامی بھی بہت ہوگی۔کیونکہ اس طریقہ اںتحاب سے خواتین کا استحصال مسکین اور اقلیتی نمناندگی کے شوقین حضرات خوشامد کی وہ منزلیں طے کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ اس غیر جمہوری کلچر کے خاتمے کے لئے جو بھی سیاسی حکومت یا جماعت یہ پہل کرے گی۔ وہ کروڑوں خواتین کے ووٹرز اور لاکھوں اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ ووٹوں کی توقع رکھ سکتی ہے ۔ بلکہ ہماری ریاست کے تینوں ریاستی ستونوں کے اہلکاروں وذمداروں اور چوتھے غیر آئینی ستون کو سینٹ کے باقی 88ارکین کے انتحابات کے بھی براراست انتحابات پر بھی برین اسٹرمارمنگ کرنی چاہیئے وہ بھی انتحائی شرم ناک طریقہ اںتحاب ہے جس میں اب سوشل میڈیا کے آزاد ہونے کی بدولت یہ سین عام ہیں کہ کچھ شرفاء خریدار ہوتے ہیں اور کچھہ نام نہاد شرفاء بک کر نوٹ گن رہے ہوتے ہیں ۔لیکن میڈیا منڈی کے سلیز مین گھنٹوں فضول فضول موضوعات پر قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں لیکن مجال ہے کبھی ان موضوعات پر کوئی تعمیری بات چیت ہوئی ہو ۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں