عبدالستار کا تیسرا ادبی محبت نامہ۔۔۔

پیارے ڈاکٹر خالد سہیل صاحب
آداب و تسلیمات
میں آپ کے ساتھ آپ کی مشہور ومعروف آٹو بائیو گرافی(The Seeker)جسے میں The Bible of Humanityکہتا ہوں کے حوالے  سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔سب سے پہلے میں ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ جیسے آپ کی اس آٹوبائیو گرافی نے آپ کو بطورشخص،بطور لکھاری مکمل طور پر تبدیل کر دیا ۔بالکل اسی طرح جس محبت اور خلوص کے ساتھ آپ نے یہ کتاب مجھے ڈاکٹر بلند اقبال کے ذریعے کینیڈا سے بطور تحفہ بھیجی ۔۔ میں نے بھی اسی جذبے اور لگن کے ساتھ اس آٹو بائیو گرافی کا مطالعہ کیا۔

سچی بات یہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں بھی تبدیل ہو گیا۔ اس کتاب کا introductionہی پوری کتاب کا خلاصہ ہے۔ آپ نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ استعاراتی زبان کو عام فہم انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ کیفیت کی باتیں ہیں ہر ایک کے حصے میں یہ کیفیت کہاں ہوتی ہے۔ پیارے طبیب آپ نے ہمیں اس کتاب کے تعارفی صفحات میں دوبہت ہی خوبصورت Expressionسے متعارف کروایا۔
1۔ Higher Creative Self
2۔ Deeper Emotional Self

ادبی انداز فکر میں پختگی لانے کے لیے یہ دو ایکسپریشن سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھے اور سب سے بڑھ کریہ اعتراف کرنا کہ خضر نے ان دو تخلیقی دروازوں سے اپنی ذات کے حوالے سے وہ آشنائی حاصل کی جو اسے پہلے حاصل نہیں تھی۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خضر اپنے اندرونی تخلیقی دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ یہ دروازہ تو پہلے سے ہی موجود تھا مگرخضر نے کبھی اسے کھولا ہی نہیں تھا۔

حیران کن بات یہ تھی کہ وہ کبھی بند ہوا ہی نہیں تھا۔جب خضر اس اندرونی تخلیقی دروازے میں داخل ہو جاتا ہے تو اسے دو تخلیقی آئینے حاصل ہوتے ہیں۔
1۔ Higher self
2۔ Deeper self
جب خضر کا سامنا Higher self سے ہوتا ہے تو اسے استعاراتی زبان کی حکمت کا راز ملتا ہے پھر جب خضر کا سامنا Deeper self سے ہوتاہےتو اس پر زندگی کے تجربات کا راز کھلنا شروع ہوجاتا ہے اور خضر کو یہ آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ انسان کا دھرتی ماں سے رشتہ بہت پرانا ہے اور دنیا کے تمام انسان اسی دھرتی ماں کے بچے ہیں ،خضر کے یہ تجربات خضر کے لیے بہت ہی:

1۔Intense

2۔unique

3۔Extra-ordinary

4۔Full of Ecstasy

پر مشتمل تھے مگر اگر غور کیا جائےتو یہ بہت بہترین انسانی ورثہ ہے۔
پیارے طبیب میرا تعلق درس و تدریس کے شعبہ سے ہے اور میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میں آپ کی کتابوں کو اپنے طلباء و طالبات کے درمیان شیئر کرتا ہوں۔(The Seeker)چونکہ ایک بہت بڑی کتاب ہے اور میری یہ خواہش ہوگی کہ آپ کے ساتھ ہر ادبی خط میں پانچ استعاروں پر گفتگو کروں۔میری اس تجویز کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کی آٹوبائیو گرافی میں نے اپنی کلاس میں شیئر کی تھی تو بچوں نے مختلف سوالات پوچھے تھے وہ میں آپ کے ساتھ شیئر کرتا رہوں گا۔
کتاب کے Introductionکے حوالہ سے بچوں کے یہ سوالات تھے:
(1) آپ کی Creative Euphoriaکے پیچھے کون سے محرکات تھے؟
(2) گہرا ادراک حاصل کرنے کے لئے کونسی مشق کرنی چاہیے؟
(3) تخلیقی پختگی حاصل کرنے کے عمل کے دوران خیالی کشمکش کا کیسے مقابلہ کیا جائے؟
(4) آپ کی کتاب کی coverتصویر میں بہت کچھ پوشیدہ ہے کچھ تو راز سے پردہ اٹھایئے؟
پیارے طبیب طول کلامی کی معذرت چاہتا ہوں۔

آپ کا ادبی دوست
عبدالستار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالد سہیل کا چوتھا ادبی محبت نامہ
محترمی عبدالستار صاحب !
آپ کے محبت نامے سے آپ کی ادب دوستی کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ میری اور میری سوانح عمری کی خوش بختی ہے کہ ہمیں آپ جیسا قاری ملا جس نے نہ صرف خود سوانح عمری کا گہرائی سے مطالعہ کیا بلکہ اپنے طلبا و طالبات کو بھی اس تخلیق سے متعارف کروایا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ THE SEEKER میں نے ایک TRANCE کی کیفیت میں لکھی تھی۔ کبھی کبھار مجھے لگتا ہے جیسے میرے لاشعور کے کسی کونے میں ایک اور لکھاری چھپا بیٹھا تھا جو چار ہفتے کے لیے آیا اور مجھے وہ ادبی تحفہ  دے کر واپس چلا گیا۔اب میں خود اس کتاب کو ایک قاری کے طور پر پڑھتا ہوں۔اس لیے وہ کتاب میری ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ میرے اندر کے لکھاری اور باہر کے قاری کا رشتہ دلچسپ بھی ہے اور پُراسرار بھی۔
چونکہ اس کتاب کو تخلیق کرتے وقت مجھے تخلیقی مسرت و انبساط کا تجربہ ہوا تھا اس لیے میں نے اسے CREATIVE EUPHORIA کا نام دیا۔
عبدالستار صاحب !
میں یہ  سمجھتا ا ہوں کہ اگر کوئی لکھاری اپنے فن کا ریاض جاری رکھے تو تخلیقی مسرت و انبساط کے لمحے بار بار آتے ہیں۔اور اس کی میوس لاشعور سے بار بار اسے ملنے بھی آتی ہے اور اسے تخلیقی تحفے بھی لا کر دیتی ہے۔

اپنی میوس سے رشتہ جوڑنے کے لیے ہمیں اپنے لاشعور ۔۔۔اپنے دائیں دماغ سے رشتہ جوڑنا پڑتا ہے۔میرا خیال ہے کہ وہ تین طرح سے جوڑا جا سکتا ہے۔ میری نگاہ میں دائیں دماغ کو جانے والے تین راستے ہیں
CREATIVITY….SPIRITUALITY …AND….LOVE
بعض لوگ فنونِ لطیفہ کا راستہ‘ بعض تصوف کا راستہ اور بعض محبت کا راستہ اپناتے ہیں اور اپنے سچ کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اسی لیے میری سوانح عمری سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافروں کے نام ہے۔
میر اخیال ہے کہ دنیا میں دو طرح کے انسان بستے ہیں
روایت کی شاہراہ پر چلنے والے۔۔۔جن کا تعلق روایتی اکثریت سے ہے۔
دل کی پگڈنڈی پر چلنے والے۔۔۔جن کا تعلق تخلیقی اقلیت سے ہے۔

مجھے نوجوانی میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ میرا تعلق تخلیقی اقلیت سے ہے۔
میں نے برسوں کی محنت اور ریاضت سے اپنی میوس سے دوستی کر لی ہے۔ وہ میرے دائیں دماغ میرے لاشعور سے میرے لیے ادبی تحفے لاتی رہتی ہے۔جس سے مجھے تخلیقی خوشی مسرت اور انبساط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
جہاں تک میری سوانح عمری پر میرے پورٹریٹ کا تعلق ہے وہ ایک نوجوان فنکار شاہد رسام کا تحفہ ہے۔ میری سوانح عمری نے انہیں اتنا انسپائر کیا کہ وہ بھی ایک ٹرانس میں چلے گئے اور انہوں نے وہ پورٹریٹ بنا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری سوانح عمری نے جتنے دلوں کے دروازوں پر دستک دی ہے اور جتنے ذہنوں کو انسپائر کیا ہے اس سے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی ہے۔
امید ہے میں نے آپ کے سوالوں کے جواب دے دیے ہیں۔
آپ کے اگلے محبت نامے کا انتظار رہے گا۔
آپ کا ادبی دوست
خالد سہیل
۲۹ اگست

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عبدالستار کا تیسرا ادبی محبت نامہ۔۔۔

Leave a Reply