رنگین روشنیوں میں ہجوم کے درمیان بے چین کھڑا وہ بازار حُسن کی اونچی اونچی عمارتوں اور کھڑکیوں کو دیکھ رہا تھا۔اسکی نگاہوں میں شدید انتظار اور کچھ چمک سی تھی ,ایسی چمک جو کسی کی آنکھوں میں عرصے بعد کسی خواہش کی تکمیل ہونے سے نظر آئے۔۔رنگین کھڑکیاں لڑکیوں کے کھڑے ہونے سے ان لوگوں کے لئے اور بھی رنگین ہوجاتیں, جو رات کے اندھیرے میں یہاں آ کر حُسن خریدتے, شراب سے محظوظ ہوتے اور پارسائی کا لبادہ اتار کر گناہ کرتے اور دن کے اجالے پھیلنے سے پہلے ہی اس بازار حُسن کو ویران کر جاتے۔دن کی روشنی میں بازار حُسن ویران اور پارسا لوگوں کے لئے صرف ایک گندی اور ناپاک جگہ تھی۔اور سورج کی روشنی مدھم ہوتے ہی یہاں رنگین روشنیوں کے جلتے ہی چہل پہل شروع ہو جاتی اور بازار حُسن آباد ہو جاتا۔
وہ اکیس بائیس سالہ خوبصورت نوجوان حاشر تھا۔اسکے لباس پر اسکی طے کی گئی لمبی مسافت کی گرد واضح تھی۔اسکے باریک باریک نقش اور ان نقش پر پڑی طویل صبر کی لکیریں اور ان لکیروں میں خواہش کی تکمیل کی چمک ،اسکو مزید دلفریب اور پُرکشش بنا رہی تھی ۔وہ کسی کے انتظار میں پھولوں اور گجروں کی کئی ٹوکریاں لئے کھڑا تھا۔۔
سامنے کی عمارت سے ایک آدمی اسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ آدمی نے دور سے ہی اسکو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا اور خود واپس مڑ گیا۔وہ پھول اٹھائے اسکے پیچھے چل دیا۔
یہ اس علاقے کا سب سے عمدہ کوٹھا تھا۔۔جو آتش بیگم کی سرپرستی میں ہر دور میں عروج پر رہا۔یہاں دور دراز علاقے کی انتہائی امیر شخصیات کا آنا جانا تھا۔معمولی لباس میں ملبوس حاشر سیڑھیاں چڑھتا ہوا بار بار ہلکا سا مسکرا رہا تھا۔ کچھ سیکنڈ بعد وہ ایک کمرے کے درمیان میں کھڑا تھا۔کمرہ کشادہ اور انتہائی خوبصورت تھا جس میں آسائش کا سارا سامان موجود تھا مگر وحشت بستر کی سلوٹوں سے لیکر گلدانوں میں سجے تازہ پھولوں تک پھیلی ہوئی تھی ۔ وہ نظریں جھکائے کھڑا تھا کہ اسکے عقب سے کندھے کو کسی نازک ہاتھ نے ہلکا سا چھو کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
“آ گئے تُم کب سے تمہارا انتظار تھا”۔خوبصورت لڑکی نے مسکرا کر کہا۔
“ہاں۔بس دیر ہو گئی، معذرت خواہ ہوں”۔ یہ کہتے ہی حاشر نے لڑکی کو سر سے پاؤں تک دیکھا جیسے وہ اسے حفظ کرنا چاہتا تھا اور پھر فوراً نظریں جھکا لیں۔
اس کا نظریں جھکانا لڑکی کو محظوظ کر رہا تھا۔لڑکی نے ہاتھ کے اشارے سے حاشر کو بستر کی طرف جانے کا اشارہ کیا ،جہاں پہلے سے ہی ایک گلاب موجود تھا۔حاشر نے گلاب کو دیکھا ،کچھ پَل رُکا اور اپنی لائی ہوئی ٹوکریاں نیچے رکھ کر وہ بستر پر گلاب کے قریب بیٹھ گیا۔
یہ اس کوٹھے کی سب سے نوجوان اور خوبصورت طوائف شانزے کا کمرہ تھا جو آتش بیگم کی اپنی بیٹی تھی جو ابھی کم عمری کی وجہ سے صرف رقص تک محدود تھی۔ اور بالکل نئی, خوبصورت اور مہنگی رقاصہ ثابت ہو رہی تھی ۔اسکی عمر صرف سولہ سترہ برس تھی۔آتش بیگم پہلے پہل شانزے کی شادی کے خواب دیکھا کرتی تھی مگرحالات نے کبھی ساتھ نہ دیا اور بلآخر شانزے کو ایک رقاصہ بنانے پر مجبور ہو گئی ۔
شانزے کی گردن صراحی کی مانند لمبی اور شفاف تھی کہ پانی کے گھونٹ تک گنے جا سکتے تھے۔نزاکت بھری چال, شرارت بھری سرمئی بڑی بڑی آنکھیں, ناگن جیسی کالی گھنگریالی زلفیں جو کمر کو ڈھانپ رہی تھیں ۔ شانزے کے چلنے سے پائلوں کی چھن چھن کمرے کی خاموشی کو توڑ رہی تھی ،وہ خاموشی جو اب تک ان دونوں کے درمیان اتنی ملاقاتوں کے باوحود بھی قائم تھی۔۔۔
شانزے نے قریب آ کر کچھ سنجیدگی سے بستر پر بیٹھے لڑکے کو دیکھا اور اسکی سرمئی آنکھوں کا رنگ آنکھوں میں لرزتے پانی سے چھپ رہا تھا۔
اس نے بستر کی پچھلی جانب جا کر کہا۔
“کیا تمہیں مکمل یقین ہے جس چاہ میں تم یہاں آئے ہو۔۔جس چیز کی حسرت تمہیں یہاں تک لائی ،تم وہ حاصل کر لوگے”؟
حاشر نے بستر کو مضبوطی سے تھام کر بمشکل حلق سے آواز نکال کر کہا “ہاں ۔اب مزید انتظار کی تڑپ سہنا میرے لئے ممکن نہیں۔یہ خواہش کی تکمیل میری زندگی میں بچی چند سانسوں کو آسان کر دے گی ورنہ اب مزید یہ حسرت یہ خواہش لئے میں جیتا رہا تو مر جاؤں گا۔مجھے اب کچھ لمحے جینا ہے۔مجھے کچھ لمحے خواہش کی تڑپ سے نکل کر آزاد فضاؤں میں جینے ہیں۔میں اب تھک چکا ہوں۔ ” یہ کہتے ہی وہ کھڑا ہوا اور پیچھے کھڑی شانزے کی طرف چل پڑا جو اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر چند قدم پیچھے ہو گئی ۔
*********************
وہ کمرے سے باہر جا رہا تھا ۔شانزے اسکو جاتا ہوا دیکھ کر کانپ رہی تھی۔چوڑیوں کو کلائی میں ایک ایک کر کے توڑ رہی تھی، کتنی چوڑیوں کے کانچ اسکے بازو میں چبھ کر زخمی کر رہے تھے اسکو خود معلوم نہیں پڑا۔شاید جب انسان کی روح کسی جانے والے کے ساتھ ہی روانہ ہو جائے تو جسم پر لگتے زخم نہ درد دیتے ہیں نہ محسوس ہوتے ہیں۔۔وہ کمرے کے دروازے پر رکا اس نے دروازے پر لٹکی موتیوں کی لڑیاں ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیں۔اور اگلے ہی لمحے ان لڑیوں کو اپنے پیچھے زور سے دھکیلتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
“یا اللہ” یہ الفاظ شانزے کے حلق میں پھنس گئے تھے۔
***************
شانزے کمرے کے درمیان اب بے جان کھڑی تھی۔اسکی سرمئی آنکھوں سے نکلنے والے موتی کاجل میں گُھل کر اس کے گالوں پر کئی کالی لکیریں کھینچ چکے تھے،ایک لمحے کو کوئی جان نہیں سکتا تھا کہ یہ زندہ انسان ہے یا کوئی بُت۔
“کیا ہوا شانزے میری جان؟”۔ کمرے میں آتی نازو نے ایک دم حیرانگی سے پوچھا۔
شانزے نے چونک کر اپنی طرف آتی نازو کو دیکھا۔اور کچھ دیر وہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ کیا کچھ ہوا تھا؟ کیا کچھ گزر گیا؟ اور کتنا کچھ ختم ہو گیا؟
نازو نے شانزے کے ہاتھ تھامے بازو پر لگے زخم دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا “کیا ہوا ہے یہ؟”
اسی لمحے شانزے کو خود پر گزری قیامت اور اذیت کا احساس ہوا۔
اور وہ منہ پر ہاتھ رکھے رونے لگی۔اور پھر نازو کے گلے لگ گئی ۔ “سب ختم ہو گیا نازو۔وہ چلا گیا ہے”وہ روتے ہوئے بار بار یہی دہرا رہی تھی۔
نازو کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔
“کیا ہوا ہے نازو کی جان خدارا بتاؤ مجھے؟”۔نازو نے اس کو خود سے دور کرتے ہوئے پوچھا۔
شانزے نے چہرہ صاف کیا۔ اور بولی
“وہ ابھی یہاں سے اٹھ کر میری طرف آیا” وہ بستر کے پیچھے ۔۔۔۔شانزے نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
“اس نے مجھے دیکھا۔ میں سننا چاہتی تھی اس سے کچھ ایسا کہ وہ مجھے کہتا اور میں سب چھوڑ کر اسکے قدموں کے نشان پر چلتی اپنی ہستی کو اسکے قدموں میں خاک کر ڈالتی،مگر اس نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کی اور مجھے مجبوراً ہمیشہ کی طرح کچھ دیر خاموشی برداشت کر کے اس کو اسکے لائے ہوئے پھولوں اور گجروں کے پیسے دینے پڑے۔وہ صرف ایک دکاندار بن کر آیا تھا۔اس بات سے بے خبر کہ یہاں کوئی اسکے الفاظوں پر بکنے کو تیار تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح ہمارے درمیان طویل خاموشی حائل رہی اور پھر پھولوں کے بدلے پیسوں کا تبادلہ”۔۔یہ کہتے ہی شانزے کی ہچکی بندھ گئی اور منہ ہتھیلیوں میں چھپائے زارو قطار رونے لگی۔
“اس نے کبھی تم سے بات ہی نہیں کی،ہمیشہ ہی تو وہ خاموش رہتا ہے۔اتنے سالوں کی خاموشی برداشت کی ،اب کیوں ایک ہی لمحے میں ٹوٹ گئی ہو”۔ نازو نے دھیمی آواز میں کہا۔
“کی تھی بات اس نے مجھ سے”۔
“کب کی تھی؟” ۔نازو شانزے کے سامنے جواب سننے کو تڑپ رہی تھی۔
“آٹھ سال پہلے وہ یہاں پہلی بار آیا تھا۔اور پہلے دن سے اب تک روزانہ اس سے سامنا ہوتا تھا۔ شروع کے سال بہت خاموش تھے۔دھیرے دھیرے مجھے اسکی عادت ہو گئی ۔یہاں آنے کے چار سال بعد خاموشی ٹوٹی اور میں نے اس سے یہاں آنے کی وجہ پوچھی”۔
تو اس نے کہا کہ “اسے جھمکے خریدنے ہیں۔اپنی ہونے والی بیوی کے لئے اور اسکے پاس پیسے نہیں۔ وہ جہاں باغ میں کام کرتا تھا وہاں سے کچھ پھول توڑ کر ہار یا گجرے بنا لاتا تھا۔مجھے نہیں یاد میرا پہلا گاہک کون ہوگا اور آخری کون ،ابھی تک میں رقاصہ ہی ہوں۔ امی جان نے کہا تھا اگر کوئی میرا ہاتھ تھام لے تو وہ مجھے رخصت کر دیں گی۔مگر آج سے میں بکنا شروع ہو جاؤں گی۔۔اور دیکھو نازو حاشر مجھے بے مول کر گیا اور یہاں روز میری بھاری قیمت لگے گی”۔اسکی سسکیاں اسکی بات جاری رکھنے میں رکاوٹ بن رہی تھی۔
“مگر مجھے یاد ہے میں اسکی پہلی چھوٹی سی گاہک تھی۔ اور آج آخری گاہک بھی”۔
آخری مطلب؟نازو نے استفسار کیا۔
“ہاں! آخری، اب وہ نہیں آئے گا۔کیونکہ اسکو آٹھ سال لگ گئے جھمکوں کے لئے پیسے جمع کرتے ہوئے ۔اور ہر بار پیسے جمع کر کے جب وہ جھمکے لینے جاتا تو قیمت بڑھ چکی ہوتی تھی یا پیسے کہیں خرچ ہو جاتے تھے اور وہ واپس میرے سامنے شام کو کھڑا ہوتا تھا۔کبھی کبھی مجھے لگتا تھا اسکو میری خاموش بد دعا لگتی ہے کہ جھمکے لے لیتا تو میں اسکے دیدار سے محروم ہو جاتی۔اور جس رات وہ کہہ کر جاتا آج جھمکے لے لوں گا وہ ساری رات میں امی جان کے گھنگرو چوری کر کے چپکے سے کمرے میں اتنا ناچتی کہ میرے گھنگرو ٹوٹ جاتے۔اور میں روتے روتے سو جاتی”۔
“یہ دیکھو گن لو کتنے گھنگرو کی جوڑیاں ہیں ٹوٹی ہوئی”؟ اس نے ایک ڈبہ نازو کی طرف بڑھایا جو دس گھنگرو کی جوڑیوں سے بھرا تھا۔ جانتی ہو نازو یہ گھنگرو میں ہی چوری کرتی تھی جس پر اکثر تم سب کو خوب ڈانٹ پڑتی تھی”۔شانزے نے روتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ سے نازو کو دیکھا۔
مگر جانتی ہو میں صبح ایک ایک گھنگرو سمیٹ لیتی کہ یہ گھنگرو مجھے اسکی جدائی کا احساس دلاتے رہیں گے اور میں انہی گھنگروؤ ں کو اسکا دیا ہوا تحفہ سمجھ کر سنبھال لیتی تھی۔مگر شام ہوتے ہی کھڑکی پر انتظار کرتی تو وہ کھڑا ہوتا تھا اور میں پھر سے جی اٹھتی تھی ۔دس بار میں اسکی مکمل جدائی کا خوف چھوٹی سی عمر اور پختہ محبت میں جھیل چکی ہوں اور آج گیارہ۔۔مگر آج صرف گیارہویں بار جدائی کا عذاب اور خوف نہیں جھیلوں گی بلکہ اب ہمیشہ کی جدائی ہے ۔ہمیشہ کی اذیت ہمیشہ دیدار سے محرومی”۔اسکی سسکیاں کمرے کی وحشت میں شامل ہو کر چیختی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
مگر نازو۔۔۔
“مجھے حیرت ہوئی کہ کچھ عورتیں کتنی خوش نصیب ہیں کہ ان سے محبت کرنے والے آٹھ سال مسلسل محنت کر کے بھی جھمکے خرید لیتے ہیں۔
اسکے پاس جو رقم تھی اب اس میں صرف پانچ ہزار روپے کم تھے۔اب بھی دس دن لیٹ ہوتا تو قیمت بڑھ چکی ہوتی یا جمع کیے پیسے خرچ کر چکا ہوتا۔میں نے اسکو زیادہ پھول لانے کا کہا اور پوری قیمت ادا کر دی”۔
نازو! دیکھو میں ہوں جس نے اپنی اذیت کو گلے لگایا ہے جو اب اسکے دیدار کو ترسے گی۔مگر میں اسکے چہرے پر جھمکے نہ لینے کی اذیت اور تڑ پ اور اسکے پاؤں میں پہنی ٹوٹی جوتی سے گرم زمین سے جلتے پاؤں اور پتھروں کی نوک سے لگتی چوٹ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔وہ جھمکوں کا قیدی تھا اور میں اسکی محبت کی۔اسے محبت میں جھمکے تحفہ دینے تھے اور میں۔۔میری محبت کیا تحفہ دیتی یا لیتی کہ میرے نصیب میں صرف گالی ہے۔ہم رات کی تاریکی میں زندہ رہنے والی مخلوق ہیں، دن کے اجالے ہم سے ناپاک ہوجاتے ہیں لہذا ہم اجالوں میں چھپ جاتے ہیں اور رات میں راج کرتے ہیں۔۔ بھلا میرا کیا مقابلہ اس جھمکوں والی سے۔وہ اب اس عورت کی آغوش میں پُرسکون رہے گا۔اس کو چند روپے کی خاطر پھول بیچنے یہاں اس گندگی میں نہیں آنا پڑے گا۔ نازو وہ معصوم اور پاک انسان ہے۔یہ جگہ اسکے عکس کے قابل بھی نہیں تو میرا عکس اسکی زندگی کو کتنا دغدار کرتا میں یہ عذاب اسکو نہیں دے سکتی تھی۔میں خوش ہوں کہ کتنے سال بعد آج وہ پرسکون سوئے گا اور اسکا سکون سوچ کر میری روح کو سکون سا آ جاتا ہے”۔آنسو اسکے چہرے پر کئی کالی لکیریں ڈال کر اب مسلسل بہہ رہے تھے۔
“شانزے تُم اس کو کہتی تو سہی ۔تم نے کیوں نہیں کہی دل کی بات؟ نازو نے بجھے دل سے کہا.
وہ بستر پر ایک گلاب رکھا تھا۔(شانزے نے بستر کی جانب ہاتھ سے اشارہ کیا)۔جانتی ہو کیوں؟ کیونکہ آٹھ سال پہلے سے جب شام کو میں اس سے پھول لینے جاتی تھی تو ہم دونوں تقریباً نا سمجھ تھے تو وہاں بہار بیگم آتی تھی۔وہ اس سے ایک پھول لیتی اور کسی آدمی کو دے کر کہیں رخصت کر دیتی۔
۔ایک دن میں نے پوچھا ۔ بہار بیگم یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا “جب کسی سے محبت کا اظہار کرنا ہو تو پھول تحفے میں دیتے ہیں۔پھول چاہنے والے کی چاہت کا اظہار ہوتا ہے اور اگر پھول قبول کر لیا جائے تو سمجھ جاؤ چاہت قبول ہو گئی”۔نازو میں نے بھی پھول رکھا کیونکہ وہ جانتا تھا پھول کی داستان مگر اس نے پھول کو دیکھا مگر اٹھایا نہیں۔” ہاں شاید بات بہت پرانی ہے اب تو بہار بیگم کو مرے ہوئے دو سال ہو گئے وہ بھول گیا ہو گا”شانزے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے سوچ میں گُم ہو گئی ۔
نازو بستر پر پھول دیکھ رہی تھی ،جو نہیں تھا۔”شانزے پھول نہیں ہے”۔
شانزے نے چونک کر پیچھے دیکھا ،بستر خالی تھا۔مگر نیچے پڑی ٹوکریاں بھری ہوئی تھیں۔
“پھول شاید ان میں گر چکا ہو گا نازو۔۔ اسکے لائے ہوئے پھولوں میں میری محبت کے اقرار کا پھول بھی شامل ہو چکا ہو گا”.شانزے نے ہلکی آواز میں کہا۔
شانزے میری جان وہ تو پُرسکون رہے گا۔۔اور تم؟
نازو نے انتہائی اداسی سے پوچھا
“میں۔ ہمم۔” شانزے نے سر کو جھٹکا دے کر پیچھے نازو کی طرف منہ کیا ،اسکے گھنگریالے بال ہواؤں میں لہراتے ہوئے اسکی کمر پر ٹک گئے۔ اس نے آنسو کو انگلی کی پور پر اٹھایا اور انگوٹھے سے نازو کی طرف پھنک دیا اور قہقہ لگا کر بولی۔
“میں ۔میں ہر روز اب رقص میں گھنگرو توڑوں گی اور بعد از رقص اس جگہ پر میری ذات بکھرا کرے گی۔بھلا میں پہلی تھوڑی ہوں۔یہاں تو ہر دن کسی نہ کسی طوائف کی محبت دم توڑتی ہے بازار حسن اس طری کی کئی کہی اور ان کہی سسکتی محبتوں کا گواہ ہے ۔ایک اور سہی”۔۔یہ کہہ کر اس نے بھیگی آنکھوں سے ہنستے ہوئے نازو کو آنکھ ماری اور بولی۔۔
“امی جان سے کہیں۔آج سے میں یہاں بکنے کو تیار ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اسکی آواز بھیگ گئی اور آہستہ سے بولی “اب میرا ہونا نہ ہونا میرے لئے اہم نہیں ۔خدا تجھے سلامت رکھے تیری محبت کی آغوش میں حاشر”۔اور شانزے کے ہونٹوں پر کپکپی طاری ہو گئی ۔
**************
وہ جھمکوں کی ڈبیہ اٹھائے آہستہ قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔کچھ دور جا کر وہ رُکا۔نیچے قدموں میں بیٹھ گیا۔اور ڈبیہ سامنے رکھ دی۔
اس نے نظریں اٹھائیں ۔اسکی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔چہرے کی گرد آنسوؤں سے صاف ہو رہی تھی۔اس نے سر قبر پر رکھا اور زارو قطار رونے لگا۔
اماں۔یہ دیکھ تیری آخری خواہش جو پوری کرتی کرتی تو دنیاسے رخصت ہو گئی کہ میری بیوی کو جھمکوں کی جوڑی دے گی۔میں جھمکے لے آیا ہوں۔
مگر اما ں میں خود کو ان جھمکوں کے بدلے ہار آیا ہوں۔
آٹھ سال اماں ۔۔آٹھ سال پہلے جھمکوں کے لئے کوشش شروع کی تو مجھے اس جگہ جانا پڑا اور آٹھ سال سے ہی اس کی محبت آہستہ آہستہ میرے دل میں جگہ بناتی رہی۔جب پہلی بار میں اس جگہ گیا۔وہ بھاگتی ہوئی چُنری سنبھالے میری طرف آئی۔میرے پاس دو ہی گجرے تھے اس نے دونوں گجرے لے لئے وہ اسکو پورے نہیں تھے مگر اس نے پہن لئے۔پھر ہر روذ میں اسکے سائز کے گجرے بنا کر لے جاتا۔اور وہ چہکتی ہوئی گجرے لے لیتی”۔ حاشر کی آواز میں تڑپ اور اذیت تھی جو قبرستان کے ماحول کو مزید اداس کر رہی تھی۔ وہ قبر سے باہر موجود ایک مُردہ تھا جس کو انتظار تھا کہ کسی طرح مٹی اس کو ڈھانپ کر اسکی اذیت کم کر دے۔
“پہلے دن ہی مجھے وہ بہت اچھی لگی۔رفتہ رفتہ اسکی موجودگی میرے دل میں اسکی محبت پیدا کرتی رہی۔۔میں اس کے منہ سے اظہار سننے کو ہر روز جاتا ۔کبھی اس نے کچھ نہیں کہا۔میں جب جھمکوں کے پیسے پورے ہونے کا کہتا تو وہ اداس ہو جاتی مگر اگلے لمحے پھر سے ہنسنے لگتی اور میرا دل ٹوٹ جاتا کہ اسکو میرے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔میں نے دس بار اماں پیسے ہونے کے باوجود جھمکے نہیں لئے۔کیونکہ ہربار جھمکے لینے کا کہہ کر وہاں سے رخصت ہوتا تو اسکی آنکھیں اور چہرہ بالکل سفید پڑ جاتا۔ہاں ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ مجھے اذیت میں مبتلا کرتی تھی۔۔اور میں دکان پر جا کر خالی ہاتھ واپس آجاتا۔ اور جب اس کے پاس واپس جاتا تو وہ کھڑکی میں اداس کھڑی ہوتی اور مجھے دیکھ کر چہک اٹھتی اسکے چہرے کا سفید رنگ لال ہو جاتا اور میں ہر بار جھمکے نہ لینے کے فیصلے پر خوش ہو جاتا.” اب وہ قبر پر بیٹھا جھمکوں کی ڈبی کو دیکھتا ہوا روتا جا رہا تھا۔
“یہ جھمکے میں اسکے کانوں میں پہنانا چاہتا تھا اماں۔۔آج ہی اگر وہ کچھ کہہ دیتی تو میں پہنا دیتا ،میں نے کئی دن سے جھمکے لے رکھے تھے ،کہ کسی دن وہ اشارہ کرے گی اور جھمکے اسکو تحفہ دیدوں گا۔”
مگر اس نے مجھ سے کہا “تم بتاؤ پیسے کتنے کم ہیں؟ کل اتنے پھول لے آنا اور پیسے لے جانا اور پھر آزاد ہو جانا”
“اس نے مجھے آزاد کر دیا اماں۔خود اپنے قیدی کو اپنے ہاتھ سے آزاد کردیا اور سمجھتی ہے کہ میں اب جی لوں گا ۔نہیں۔ اما ں،میری تو اب کسی لمحے بھی سانس بند ہو جائے گی۔میری سانسوں کو قیدی کر کے وہ کہتی ہے آزاد کر دیا”اس نے چہرہ صاف کیا اور جیب سے پھول نکال کر قبر پر رکھ دیا۔۔۔
“یہ دیکھ اماں میرے پاس اسکی صرف ایک یہی نشانی ہے۔ یہی پھول۔مجھے پھول دیکھ کر لگا کہ آج مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی نصیبی حاصل ہو گی۔مگر اماں ، اس نے کچھ کہا ہی نہیں۔بہار بیگم پھول دے کر کہا کرتی تھی “ان سے کہنا میں ان سے بہت محبت کرتی ہوں۔” اور وہ شخص پھول دے کر واپسی پر کئی پھول لاتا اور کہتا “صاحب کہہ رہے ہیں وہ بھی آپ سے بہت محبت کرتے ہیں”۔
“مگر اماں یہ پھول دیکھ کر مجھے لگا وہ کچھ کہے گی ،مگر نہیں ۔۔۔اس نے صرف ایک بہترین گاہک بن کر میرے پھولوں کی قیمت ادا کرنے کا سوچا۔اور کر بھی دی۔۔اما ں میں تو خود فروخت ہو آیا ہوں ۔میرا دل, میری سوچ ,میرے جذبات, میری خواہشیں , میری حسرتیں, میری روح اس کمرے میں شانزے کے قدموں میں سر جھکائے بیٹھی تھیں کہ وہ تھام لیتی مگر اس نے مجھے خریدا نہیں بلکہ میں خود بے مول ہو کر وہاں بے دام فروخت ہو آیا ہوں۔اب وہ قبر سے لپٹا زارو قطار روتا ہوا پھول کو سینے سے لگائے ہوئے تھا۔ شاید اماں شانزے بہار بیگم کی پھول کی داستان بھول چکی تھی اتنی پرانی بات یاد ہی نہیں رہی ہو گی اس کو” حاشر کسی گہری سوچ میں گُم تھا۔
اس نے بھیگی آنکھوں, کانپتے ہونٹوں, لرزتے ہاتھوں سے ایک بار جھمکے دیکھے اور قبر پر رکھ کر پھول اس ڈبیہ پر رکھ دیا۔ “لے اما ں یہ تیرے جھمکے اور اس پر میری ان کہی سسکتی محبت جو کہ اب زیادہ دن مجھے زندہ نہیں رکھے گی۔میری محبت بازار حُسن میں ان کہی محبت بن کر ہمیشہ سسکتی رہے گی اور عنقریب میں یہاں ہی تیری آغوش میں آ کر اب سکون لوں گا”۔
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنا مُردہ وجود گھسیٹتا ہوا قبروں کے درمیان سے ہوکر باہر نکل گیا۔پھول ہوا کے جھونکے سے قبروں سے ہوتا ہوا اس کے قدموں کے پیچھے کافی دور تک گیا۔اور پھر ہوا نے رُخ بدل لیا۔
Facebook Comments
ابسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام علیکم!
رمشا جی ! کہی ان کہی کا اک بہترین ربط لیے ہوئے۔۔۔ محسوس ہوا یہ افسانہ۔۔۔خوبصورت اور پردرد جذبوں سے مزین۔۔۔ ۔۔۔
محبت کی کہانی۔۔۔ شانزے اور حاشر کی داستان محبت۔۔ جو کہی اور ان کہی کے درمیان ادھوری محبت کی اذیت سے دوچار لگی ۔۔۔۔ عمدہ کاوش ۔۔۔۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ
عجیب داستاں ہے یہ
کہاں شروع کہاں ختم
یہ منزلیں ہیں کون سی
نہ وہ سمجھ سکے ۔۔۔۔ نہ ہم۔۔۔۔۔