• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پانچ اگست کا المیہ اور آزادکشمیر کے باشندوں کی ذمہ داریاں۔۔۔ممتاز علی بخاری

پانچ اگست کا المیہ اور آزادکشمیر کے باشندوں کی ذمہ داریاں۔۔۔ممتاز علی بخاری

5 اگست 2019 کو انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ کرفیو کے دوران تمام سیاسی قیادت چاہے وہ حریت سے ہوں یا بھارت نواز۔۔سب کو قید کر لیا گیا۔ نوجوانوں کو گھروں سے پکڑ پکڑ کر جیلوں اور ٹارچر خانوں میں لے جایا گیا ۔۔سینکڑوں عورتوں کو اغوا کیا گیا۔ بنیادی انسانی حقوق تلف کر لیے گئے۔ کمیونیکیشن کے تمام ذرائع معطل کر دیے گئے ۔پورے مقبوضہ علاقے کو ایک جیل بنا دیا گیا۔آج اس سانحے کو شروع ہوئے چالیس سے زائد روز گزر چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کھانے پینے، ادویات،علاج معالجہ، ذرائع نقل و حمل کی عدم موجودگی نسل کشی کے ایک بڑے المیے کوجنم دینے جا رہی ہے۔

ہم بجا طور پر اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی طاقتوں کی جانبداری اور بے حسی پر شکوہ کناں ہیں۔ یہ طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں ،ستر سال سے زائد عرصے پر محیط مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا ان اداروں کی ناکامی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ہمیں پاکستان اور حکومت پاکستان سے بھی کئی شکوے شکایات ہیں۔ ہمارے نزدیک پاکستان نے عالمی سطح پر اپنا کردار بھرپورطریقے سے ادا نہیں کیا،چلیے یہ بھی مان لیتے ہیں لیکن اس مرحلے پر ہماری،آزادکشمیر کے باسیوں کی، بیس کیمپ والوں کی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کی؟؟

ایک ایسا وقت جب پوری وادی ایک بڑی جیل کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اس وقت میں ہمارا پہلا فوکس یہ ہونا چاہیے تھا کہ کرفیو کےفی الفور خاتمہ پر زور دینا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے اقوام عالم کا ضمیر جگانے کی کوشش کی جاتی اور اس کے لیے بھرپور مہم چلائی جاتی۔اگر کشمیر میں بسنے والے لوگ ہی نہ رہے تو ہم نے اس زمین کا کیا کرنا ہے۔

دوسرا مرحلہ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35-A کی بحالی کا مطالبہ ہونا چاہیے تھا۔ ہم سب یک زبان ہوتے ۔ حکومت، اپوزیشن، عوام اور بیوروکریٹ سب کے سب کا ایک ہی موقف ہوتا۔ پارلیمانی سطح پر ایک وفد تشکیل دیا جاتا جو دنیا میں اس معاملے کی سنگینی کا ادراک کرواتے۔
لیکن ہوا کچھ اس کے برعکس۔۔۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے دیرینہ ساتھی اور اسلامی دنیا کے سرخیل سعودیہ اور متحدہ عرب امارات اور یمن نے مودی کو اپنا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا، پاکستان کے دیرینہ ہمدم بھی پاکستان کے مخالف کی حمایت میں کمربستہ تھے۔ حکومت پاکستان نے پانچ اگست کے المیے کے بعد سے عالمی سطح پر اس معاملے کی سنگینی کو اجاگر کرنےکی بہت کوششیں کیں۔ مقبوضہ علاقے میں ہونے والے مظالم، کرفیو اور خصوصی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے بھرپور مہم چلائی۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا۔ مختلف ممالک کے سربراہان سے اس معاملے کے حوالے سے گفت و شنید کی۔ ہر سطح پر کشمیر کی آواز بلند کی۔ ایسے میں انسان سے کچھ نہ کچھ ایسا بھی ہو جاتا ہے جو حرف تنقید بنے۔ عالمی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی مقبوضہ کشمیر کے حالات کے بارے میں بات کر رہے تھے تو گفتگو کی روانی میں وہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کہنے کے بجائے ہندوستانی ریاست کشمیر کہہ بیٹھے۔۔۔

دیکھا جائے تو یہ ان کی بڑی غلطی ہے انہیں بہت ناپ تول کر بات کرنی چاہیے تھی لیکن انسان خطا کا پتلا ہے غلطی ہو ہی جاتی ہے ،ساری گفتگو کو ایک طرف کر کے ہمارے ہاں بعض گروہوں نے ’’ہندوستانی ریاست کشمیر‘‘ کو بہت اچھالا۔ حیرت انگیز طور پرشاہ محمود کی یہی غلطیاں انڈین میڈیا نے بھی اسی انداز میں اچھالیں  جیسے ہمارے ہاں کے چند مخصوص طبقے نے اچھالی تھیں ۔

ہم سب کا موقف ایک ہوتا تو آواز میں مضبوطی بھی ہوتی لیکن نیشنلسٹ کہلانے والے چند گروہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اپنا نظریہ تھوپنے کے لیے ریلیاں اور جلسے شروع کر دیے۔ ریاست جموں کشمیر پاکستان، بھارت کے آئینوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ایک متنازعہ علاقہ ہے جہاں کے رہنے والوں کی تقدیر کا فیصلہ وہاں کے عوام رائے شماری سے کریں گے۔ سو آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ جس مرضی کے حق میں ووٹ دیں۔ آپ خود مختاری کے قائل ہیں  یا الحاق پاکستان آپ کے مدنظر ہے، کوئی آپ کو زبردستی دوسرا نظریہ اپنانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ لبریشن فرنٹ کے مختلف دھڑوں کے جلسے جلوس اور نیشنلسٹوں کے نئے بننے والے اتحاد پی این اے کے جلسوں اور ایل او سی کی طرف لانگ مارچ اور وہاں جا کر پاک فوج اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے اور پاکستان کو ظالم و غاصب قرار دینے کی حرکتوں نے کشمیر کے پانچ اگست والے المیے کو مزید الم ناک بنا دیا۔

ان لوگوں نے اپنی ان حرکتوں کو سوشل میڈیا پر شیئر  کیا جہاں سے انڈین میڈیا نے انہیں لیا اور مسلسل ان کی نشریات کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر میں حالات ایک سے ہیں۔ اگر پاکستان یہ کہتا ہے کہ انسانی حقوق مقبوضہ کشمیر میں پامال ہورہے ہیں تو یہی کچھ آزادکشمیر میں بھی ہو رہا ہے۔ہماری سیاسی قیادت اس موقع پر بھی نلکا، کھمبا، سڑک اور تبادلے کی سیاست سے بڑھ کر کچھ نہیں کر رہی۔ ممبران اسمبلی کی  مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی عالمی فورم، مقامی فورم پر گفتگو اور ڈسکشن کہیں نظر نہیں  آئے گی۔ بس ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے  کے علاوہ ان کو کچھ اور نہیں سوجھ رہا۔ صدر ریاست مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے بیرون ملک جاتے ہیں  اور وہاں مجرے دیکھنے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ وزیر اعظم مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے جاتے ہیں تو مہینے بھر بعد واپسی ہوتی ہے۔۔۔پوری عوام بے یارو مددگار ہوتی ہے۔ایل او سی پر بسنے والے روزانہ جنازے اٹھاتے ہیں اور وزیراعظم اپنے بیٹوں کو سیر وتفریح کراتے پھر رہے ہیں۔ وزرا وزیراعظم کا تختہ الٹنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔اپوزیشن حکومت کو گرا کر اقتدار میں آنے کے لیے بے تاب ہے۔سارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اُدھر ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں ابن قاسم کا انتظار کر رہی ہیں اور ادھر ابن قاسم اپنے دھندوں میں ایسا مشغول ہے کہ اسے پرواہ ہی نہیں ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خا ن نے کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے مظفرآباد جلسے کا اعلان کیا تو ان کی مخالفت میں دو طرح کے عناصر میدان میں اترے۔ ایک ان کے سیاسی مخالفین جن میں اپوزیشن کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے تو دوسری طرف نیشنلزم کا پرچار کرنے والے گروہ۔ ہر دو نے جلسے کی اہمیت کم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ جلسے کوخراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ نتیجتاً حکومت کو گرفتاریاں بھی کرنی پڑیں۔ جلسے سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ کشمیری جو فیصلہ کریں گے پاکستان کو وہ قابل قبول ہو گا۔اس کے علاوہ عمران خان نے مودی کو للکارتے ہوئے کہا کہ ہمت ہے تو کرفیو اٹھا کر سری نگر میں  جلسہ کر کے دکھاؤ۔ اگر تم یہ سچ کہہ رہے ہو کہ وہاں حالات نارمل ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی داؤ تھا ہمارے چند عاقبت نااندیشوں نے جس کا رخ پھیر دیا۔ گرفتاریوں اور جلسے کی تعداد، ملازمین کا جلسے میں شرکت کا حکومتی نوٹیفیکشن اچھالنا اور پاکستان مخالف نعرے اور وڈیوز بنا کر انڈین میڈیا کو فراہم کر کے وہ اثر زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جس کے لیے عمران خان نے جلسہ کیا۔ انڈین میڈیا نے یہ کیپشن لگائے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں عوام نے انڈیا میں شامل ہونے کے لیے جلسے کیے اور پاکستان کے غاصبانہ قبضے کی مذمت کی۔ اس موقع پر بیرسٹر سلطان کی وہ احمقانہ گفتگو بھی سامنے آئی جس میں وہ اس جلسے کو اپنی آئندہ کی الیکشن کمپین کی بنیاد بنانے کا اعلان کر رہا تھا۔ میں سمجھتا ہوں خان صاحب کو اس کا نوٹس لے کر بیرسٹر سلطان سے جواب طلبی بھی کرنی چاہیے۔مظفرآباد میں وزیراعظم پاکستان کا جلسہ۔۔ انڈیا اورنیشنلسٹوں کو برابر کی تکلیف کیوں ہے؟ ایک طرف بھارت اور بھارتی میڈیا رو رہا ہے دوسری طرف نیشنلسٹ چیخ و پکار کر رہے ہیں!

ایک تمثیل آپ کے ساتھ  بانٹنا  کرنا چاہوں گا ۔ایک گاؤں میں ایک امیر آدمی رہتا تھا جس کے چار بچے تھے۔وہ آدمی بہت بوڑھا تھا اور اکثر اس کی طبیعت خراب ہی رہتی تھی۔ طبیعت کی خرابی اور عمر کے اس سٹیج پر بھی پورے گھرانے کے معاملات اور حسابات اس نے اپنے ہاتھوں ہی میں رکھے ہوئے تھے۔ اس کے بچے اکثر اس بات پر کڑھتے رہتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ان کا باپ فضول چیزوں پر پیسہ خرچ کر رہا ہے۔ اگر ان کے ہاتھ میں اختیار ہوتا تو وہ بہت سے سودمند کام کر سکتے تھے۔ اکثر و بیشتر ان کے خیالات کی بلندپرواز کی تان روپے پیسے پر اختیار نہ ہونے پر آکر ٹوٹتی۔
خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ تجہیز و تکفین کے بعد انہوں نے آپس میں میٹنگ رکھی کہ ہم اب کیا کریں ؟ بڑے بھائی نے مشورہ دیا کہ گندم اگانے کے بجائے ہم گنا اگاتے ہیں۔۔۔۔ دوسرے بھائیوں نے اس بارے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے فائدے نقصانات ڈسکس کیے۔۔ سب سے آخر میں سب سے چھوٹے بھائی نے کہا : اگر ہم نے گنے اگائے تو پڑوسیوں کے بچے آکر گنے چوسیں گے۔۔۔اس طرح ہمارا سارا کھیت تباہ ہو جائے گا۔
یہ سن کر سب پریشان ہوگئے۔ آخر بڑے بھائی کو غصہ آگیا۔۔بھائیوں کو کہنے لگا میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے۔ بھائیوں سے ڈنڈے اٹھانے کا کہا اور سارے بھائی سیدھا پڑوس میں چلے گئے۔ وہاں پہنچتے ساتھ ہی بڑے بھائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔۔۔پڑوسیوں کے بچوں کو پیٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔وہ بے چارے اس افتاد سے ڈر گئے اور لگے چیخنے پیٹنے! وہ چیخ چیخ کر کہتے ہم نے کیا کیا ہے جو اتنا مار رہے ہو۔۔۔۔۔۔بڑا بھائی صرف ایک ہی بات کہتا۔۔۔۔۔بچو! ہو چوپو ہور!

Advertisements
julia rana solicitors london

تو بات کچھ اسی طرح کی ہے کہ رائے شماری ہمارا، سب کا، مشترکہ مطالبہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ سب مل کر رائے شماری کے حق میں آواز بلند کریں۔ یک جان یک زبان ہو جائیں۔ جب رائے شماری کا موقع آئے تو آپ نہ صرف اپنی مرضی سے رائے دینے کے اہل ہیں بلکہ آپ اس مرحلے پر چاہیں تو رائے عامہ ہمواربھی کرسکیں گے۔ پہلے گنوں کا کھیت لگنے تو دیں بھائی۔
عمران خان یو این او جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے جارہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان اپنی سفارتی کوششوں میں کامیاب ہو۔ دنیا کشمیر کے المیے کو سمجھ سکے اور ہندوستان کو مجبور کریں کہ وہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو دور کرے اور آرٹیکل 370 کے خاتمے سے جو انڈیا کشمیر کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ناکام ہو۔ کشمیر کو ظالم ہندو کے قبضے سےآزادی ملے۔

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply