• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیلنس مونئیر اور نائلہ ،ایک ظلم کی دوداستانیں ۔۔۔راحیلہ کوثر

بیلنس مونئیر اور نائلہ ،ایک ظلم کی دوداستانیں ۔۔۔راحیلہ کوثر

بچپن میں ہم جینا سیکھ رہے ہوتے ہیں اور ڈھلتی عمر زندگی نبھانے کا دور ہوتی ہے۔ جبکہ جوانی حسن، خواب،چاہتوں، مسکراہٹوں اور نئی ا’منگوں کا ایک حسین امتزاج ہے۔ یہ دور زندگی کو بھرپور جینے کا   ہوتا ہے۔ سوچیں اگر کوئی آپکا اپنا ہی آدم خور بھیڑیا بن کر آپ کا یہ دور نوچ نوچ کر کھا جائے تو جینے کے لیے باقی کیا رہ جاتا ہے۔

پیرس 1901 ء میں اٹارنی جنرل(Attorney General) کو ایک خط موصول ہوا۔ جس میں دل دہلادینے والا انکشاف تھا۔Madam Monniers” جو پیرس کی مالدارخاتون ہونے کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے حوالے سے بھی جانی جاتی  ہیں نے اپنے گھر میں کئی سالوں سے کسی کو قید کر رکھا ہے۔ ”

باوجود اس کے کہ Madam Monniers ایک اعلیٰ ساکھ کی خاتون تھیں اور اُن کا بیٹا Marcel ایک مشہور اور کامیاب وکیل تھا، جنرل نے تحقیقات کرنے کا فیصلہ لیا اور سرکاری وفد کے ہمراہ اُن کے گھر میں چھان بین کی غرض سے چلے گئے۔ گھنٹوں پورے گھر کی تلاشی کے باوجود انھیں کچھ بھی ایسا نہ ملا جس سے گھر میں کسی کا قید ہونا ثابت ہوتا۔ وہ روانگی ہی کر رہے تھے کہ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے اُنھیں انسانی فضلے کی بُومحسوس ہوئی۔ تلاش کرنے پر اُنہیں وہاں ایک خفیہ دروازہ ملاجسے توڑنے پر تاریکی میں ڈوبا ہواایک ڈربہ نما کمرہ کھلتا ہے۔ جس کی اکلوتی کھڑکی بھی مضبوطی سے بند کی گئی تھی اور بوسیدہ سے بستر پر 22 کلو کی تعفن زدہ ایک زندہ لاش پڑی تھی۔ جس کے ارد گرد غلاظت اور کیڑے مکوڑوں کا بسیرا تھا۔

اُسے پچھلے 25 سالوں سے اس کی ماں نے اس قبر میں زندہ درگور کیا ہوا تھا۔ Blance Monnier کا قصور یہ تھا کہ اُس نے اپنی ماں کی خواہش کے خلاف شادی کرنے کے لئے ایک امیر ترین شخص کے مدمقابل ایک غریب شخص کو لا کھڑا کیا۔ اپنی بیٹی کا فیصلہ بدلنے کی ضد میں Madam Monniers نے اپنی 20 سال کی بیٹی کو قید کر کے انسانیت کی تمام حدیں پامال کر دیں۔ اور اس جرم کی پاداش میں حکومت وقت کی جانب سے ملنے والی قید کو وہ خود15 دن بھی برداشت نہ کرپائی اور ہارٹ اٹیک سے مر گئی۔ Blance Monnier نے اپنی باقی ماندہ زندگیFrench Sanitarium میں گزاری اور 1913 ء میں اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔

اب 11 ستمبر2019ء میں ایک اور ہوا کی بیٹی نائلہ بھی Blance Monnier کے جیسی حالت میں حافظہ آباد کے ایک گنجان آباد علاقے سے ملی۔ اُس کے سگے بھائیوں نے اُسے پچھلے 20 سالوں سے ایک غلیظ اور بدبودار کمرے میں قید کر ررکھا تھا۔ جس کے لیے اُس کے درندہ صفت بھائی دو وقت کا کھانا شاپر میں ڈال کر پھینک جاتے تھے۔ نائلہ کے جسم میں کیڑے پڑ چکے تھے۔ اس کے ظالم اور حریص بھائیوں نے اُس پر یہ ظلم جائیداد کی لالچ میں ڈھایا تھا۔

میں سمجھتی ہوں کہ اس ضمن میں جس قدر اُس کے بھائی ذمہ دار ہیں اُتنے ہی حافظہ آباد کے اُس گنجان آباد علاقے کے لوگ بھی ہیں  ،جہاں نائلہ پچھلے 20 سالوں سے جانوروں سے بدتر حال میں قید تھی۔ ہمارے معاشرے میں جب کہیں ظلم ہو رہا ہو تو یہ فریقین کا ذاتی معاملہ قرار دے کر مظلوم کو ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی کو حق دلوانا ہو، تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہوتا۔کسی کی زندگی بچانی ہو تب بھی یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہوتا۔ معاملہ ہمارا ذاتی تب ہوتا ہے جب کسی کی بدنامی کی داستانیں مرچ مصالحہ لگاکر سنانی ہوں۔

حالانکہ ظلم پر خاموش رہنا ظالموں کا ساتھ دینے کے ہی مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء کی پہلی آیت میں فرماتے ہیں ” لوگواپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اُسکا جوڑا بنایا اور دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیے۔اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہواور رشتہ اور قرابت کے تعلقات بگاڑنے سے گریز کرویقین جانو اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔”

عورتوں کے حقوق تو اُسی دن طے ہو گئے تھے جس دن سورۃ النساء نازل ہوئی۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 12,11اور 176میں وراثت کے قوانین، اصول او ر بالخصوص عورتوں کی  وراثت کے تمام مسائل کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی پاسداری نہ  کرنے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پھر بھی ہمارے معاشرے میں بھائی وراثت میں سے بہنوں کو بے دخل کردیتے ہیں اور یوں وہ دنیا کے چند سکوں کے عوض عاقبت کو بیچ دیتے ہیں۔میں رشتوں کی اس بے ثباتی پر ماتم ہی کر سکتی ہوں۔ جائداد کی لالچ میں نائلہ کے بھائیوں نے جو انسانیت سوز سلوک اس کے ساتھ 20 سال روا رکھا ایسا کوئی اپنے بد ترین دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔میں نائلہ کی صحت اور تندرستی کے لیے دعا گو ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین سے التماس ہے کہ اپنے معاشرے کو سطحی نظر سے مت دیکھیں۔ظالم کا ساتھ مت دیں، بلکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاکر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔مجھے انتظار رہے گا نائلہ کے بھائیوں کو ان کے کیے کی قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا ملنے کا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply