ماں تجھ سا کوئی کہاں۔۔۔قسط 1/فوزیہ قریشی

اک دل کا درد ہے کہ رہا زندگی کے ساتھ
اک دل کا چین تھا کہ سدا ڈھونڈتے رہے۔۔

ہمارا دماغ اس وقت بھی کام کرتا ہے جب ہم سو رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہر کام میں دماغ کی ایک خاص اہمیت ہے۔ ہم ہر کام کے لئے اس کے محتاج ہیں، یہاں تک کہ اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے کے لئے بھی ہمیں اس کے دیے گئے پیغام کی ضرورت ہوتی ہے جب تک یہ پیغام ٹھیک پہنچتا ہے ۔ہاتھ پاؤں سب ٹھیک چلتا ہے لیکن جب یہی پیغام ٹھیک جگہ نہ پہنچ پائیں تو انسانی جسم میں ایک عجیب قسم کی ہلچل شروع ہو جاتی ہے۔

اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے دماغ نے بھی غلط پیغامات پہنچانے شروع کر دیے تھے۔ پھر بھی اسے لگتا تھا کہ پیغام ٹھیک مل رہے ہیں۔کبھی کبھی اسے لگتا کہ کسی غیر مرئی شئے نے اس کے اعصاب پر قبضہ جما لیا ہے۔
وہ کہتا اُسے عجیب شکل وصورت والی مخلوق نظر آتی ہے۔
وہ تین ہیں ۔۔ کبھی کہتا دو ہیں۔۔ یہیں رہتے ہیں۔ یہ بات بتاتے ہوئے وہ اکثر سٹور کی طرف اشارہ کرتا۔
شروع شروع میں، وہ اُسے ڈراتا تھا لیکن جب سے وہ اس کا ہر حکم مانتا ہے۔ کچھ نہیں کہتا۔
شاید وہ اس کا دوست بن گیا ہے۔
تبھی وہ اُس سے گھنٹوں باتیں کرتا ہے۔

شروع شروع میں سارہ کو لگتا کہ علی ہیڈ فون لگائے کسی دوست سے باتیں کر رہا ہے، لیکن پھر اسے احساس ہوا ،نہیں وہ کسی سے ضرور باتیں کرتا ہے لیکن وہ کون ہے؟ یہ بات سارا سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

بات تب شروع ہوئی جب علی نے بیڈ روم میں سونا چھوڑ دیا اور سٹنگ روم میں موجود صوفے کو ہی اپنا بستر بنا لیا۔
سارہ کے بار بار کے اصرار پر اس نے بتایا کہ اس کے کمرے میں کوئی ہے جو اُسے ڈراتا ہے اور سونے نہیں دیتا۔۔
وہ کہتا
ماما !اس کے اٹھنے بیٹھنے کی سرسراہٹ مجھے اپنے بستر پر محسوس ہوتی ہے۔ کمرے میں موجود لیمپ اپنے آپ جلنے بجھنے لگتا ہے۔۔ سارہ کو اپنے بیٹے کی باتوں سے خوف آنے لگا تھا۔
اب تو سارہ کو بھی شام ہوتے ہی ایک عجیب سی وحشت کا احساس ہوتا۔۔ کبھی لگتا کوئی پاس سے گزر کر گیا ہے اور کبھی یوں محسوس ہوتا کوئی اس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھا اِسے ہی تک رہا ہے۔
احساس کی شدت ہی خوف کو معنی پہنا رہی تھی۔گھر نے ایک ویران کھنڈر شدہ مکان کا روپ دھار لیا تھا سکون کہیں غائب ہو چکا تھا۔ وحشت بڑھتی جارہی تھی۔ وحشت سے چھٹکارہ پانے کے لئے وہ کبھی گھر میں اونچی آواز میں اذان لگاتی تو کبھی سورہ بقرہ کی آخری آیات سنتی، کبھی منزل تو ، کبھی سورۃ  مومنین کی مخصوص آیات، کبھی الرقیہ بالشریعہ۔۔۔ جس کے بارے میں اسے ایک مصری دوست نے بتایا تھا کہ اس کی قرآت سننے اور اونچی آواز میں گھر میں لگانے سے ہر طرح کے جن ،آسیب ، جادو اور ہر طرح کی بیماری سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ اس کے روحانی ٹوٹکے بڑھنے لگے۔ جو کوئی بھی کچھ بھی بتاتا وہی کرنا شروع کر دیتی۔

صدقہ دینے کی مقدار بھی بڑھا دی تھی۔ کبھی راہ چلتے فقیر کی مدد کردیتی تو کبھی مسجد کے ڈبے میں کچھ کچھ ڈال دیتی۔ کبھی پرندوں کو دانہ ڈالتی تو کبھی بیٹے کے سر سے وار کر گوشت چیل کوؤں کو ڈال دیتی۔
وہ دعائیں اور دم درود بھی کثرت سے کرنے لگی تھی۔
اکثر سوچتی کہ اس کا بیٹا کیا سے کیا بن گیا ہے؟

اُدھر علی دنیا سے الگ تھلگ رہنے لگا۔ سارا سارا دن کمرے میں بیٹھا رہتا۔ سکول جانے سے کتراتا ۔ بہانے بہانے سے سکول سے چھٹی کرتا۔ بلا کا ضدی ہو چکا تھا۔ گندا رہنا اسے اچھا لگتا تھا۔
ماں منتیں کرتی تب بھی نہ نہاتا اوراگر وہ بچے پر زبردستی کرتی تو وہ اس پر ہاتھ اٹھاتا۔
میل کچیل سے اٹے ناخن نہ خود صاف کرتا اور نہ ہی کسی کو کرنے دینا۔
سارہ کو اب اس سے خوف آنے لگا تھا۔۔۔۔اپنی ہی اولاد سے خوف آنے لگے تو ماں جیتے جی مر جاتی ہے۔

اس نے الگ تھلگ رہنا شروع کر دیا۔ دوستیاں محدود ہو چکی تھیں۔کھانے پینے کا شیڈول بدل چکا تھا رات رات بھر جاگتا۔
اسے آوازیں آتیں۔ عجیب آوازیں۔ شور کی آوازیں ، فون کی گھنٹی کی آوازیں، ہُو کی آوازیں ،ایسی مخلوق کی خوفناک آوازیں جسے نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔۔۔
وہ اکیلے بیٹھے باتیں کرتا۔ سارہ کے پوچھنے پر وہ ٹال دیتا۔ کبھی کبھی سارہ کو اس کے انداز سے ایسا لگتا کہ جیسے اس کے ارد گرد چند دوست ہیں یا پھر پرندے جن کو وہ کھانا ڈالتا ہے۔ کبھی کبھی کھانے کے ذرے دیوار سے چپکے ملتے۔ سارہ کو لگتا کہ کوئی ایسی مخلوق ہے جو صرف اسے نظر آتی ہے جسے یہ اپنے حصے کا کھانا کھلاتا ہے۔

اب سارہ کو بھی اس گھر کے مخصوص کونے سے کسی مردار جانور کی بدبو محسوس ہوتی۔ اسے جب موقع ملتا وہ کمرے کو صاف کرتی اسپرے سے بدبو کے اس احساس کو کم کرنے کی کوشش کرتی۔ گھر میں خوشبو والی کینڈلز جلاتی تاکہ بدبو کا احساس کم ہو سکے۔
کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا کہ کوئی بدبو دار شئے اس کے پاس سے گزری ہے۔

ایک دن اس کے بیٹے نے اسے بتایا کہ ماما ایک DEMON اسے حکم دیتا ہے کہ اپنی ماں کو مارو۔
کہتا ہے جا! مار دے۔۔۔۔ یہی تیری سب سے بڑی دشمن ہے۔۔
مار دے جا۔۔۔شاباش! یہی تیرا ٹارگٹ ہے۔۔
جب اس نے پہلی بار سارہ پر ہاتھ اٹھایا تو اسے سمجھ نہیں آئی کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
جس اولاد کو ایک ماں اکیلے پالے اور کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہونے دے اور وہی اولاد اس پر ہاتھ اٹھائے۔ اس اذیت سے گزری ماں کی تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ۔ ایسی حالت میں وہ اپنے ہی بیٹے کے سامنے روتی گِڑ گِڑاتی، واسطے دیتی لیکن کچھ حاصل نہ ہوتا وجہ بچے کی اپنی حالت اس کے اپنے ہی کنٹرول میں نہیں تھی۔ جب دورہ پڑتا تو اسے کچھ سنائی اور دکھائی نہیں دیتا تھا۔
اسے اپنی ہی ماں کر مار کر سکون ملتا اور ماں بیچاری یہ سوچ کر یہ تشدد سہتی کہ بچے کا ماں کے سوا کوئی نہیں ہے کیونکہ اس کی ماں ہی اس کا باپ ، بھائی،بہن اور ننھیال و ددھیال تھی۔
ایسی صورتحال میں بیٹے کی تکلیف اور کرب کو صرف ماں ہی محسوس کر سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت اس کی اولاد کو سب زیادہ اسی کی ضرورت ہے۔۔وہ جلد سے جلد اس مسئلے سے اپنے بچے کو نکالنا چاہتی تھی۔

اس نے اپنے تئیں کچھ معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی۔ یہ جاننے کے لئے کہ آخر یہ کیا ہے؟
کیوں ہے؟
اور اس کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی ہے؟
سوچیے  اس ماں کو کس قدر اذیت ہوتی ہو گی
جب اسے اُس کے سوالوں کے جواب نہ مل رہے ہوں۔
وہ آسمان کی طرف دیکھتی اوراپنے رب سے جواب طلب کرتی لیکن کوئی جواب نہ ملتا۔
اسے لگتا شاید اس سے کوئی نا کردہ گناہ ہوا ہے لیکن جب وہ اپنی پچھلی زندگی پر نظر دوڑاتی تو سوائے دُکھ اور تکلیف والی زندگی کے کچھ دکھائی نہ دیتا پھر ایسا کچھ کب، کیسے، کہاں اس سے سر زد ہوا؟
اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔
تکلیف کی چبھن ایک طرف تو دوسری طرف عالم یہ تھا کہ وہ اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتا تھا۔ ماں کے ساتھ رہنا بھی ایسی صورتحال میں آسان نہ تھا۔
وہ روتی اور سجدوں میں اپنے رب سے پوچھتی کہ یہ کیسی آزمائش ہے؟
اس کی زندگی کی مثال کچھ یوں تھی کہ اتنی احتیاط سے مچھلی کھانے کے باوجود بھی ایک کانٹا جس کا سائز کسی ذرے کے برابر ہے وہ اس کے گلے میں اٹک گیا ہے۔ جسے اُگلنا بھی آسان نہیں تھا اور نگلنا بھی کسی تکلیف سے کم نہیں تھا۔
اُس پھانس نما کانٹے کی چُبھن اس کی روح کو چھلنی کر رہی تھی ۔ شکستہ بدن ایک لوتھڑے کی طرح کبھی ادِھر دوڑتا پھر رہا تھا تو کبھی اُدھر کہ شاید کہیں کوئی سِرا مل جائے۔
اس نے اپنی چند دوستوں سے ذکر کیا کہ میں سخت تکلیف میں ہوں۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کیا کروں؟۔۔۔۔میرے بیٹے کی آنکھیں ایک جگہ ساکت ہو جاتی ہیں۔اس کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ اس کے اعصاب پر خون سوار ہوجاتا ہے۔ وہ مجھے رُعب سے اپنے پاس بلاتا ہے اور نہ سننے پر وائلنٹ ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے کہ کوئی demon اسے کہتا ہے جاؤ اور اپنی ماں کو مار دو۔۔۔۔۔۔
کبھی کہتا ہے کہ ماما میں آپ کو نہیں مارنا چاہتا لیکن آپ کا کوئی دشمن ہے جس نے میرے دماغ کو کنٹرول کر لیا ہے۔ اگر میں اس کی بات نہیں مانتا تو وہ میرے اعصاب پر ہتھوڑے سے وار کرتا ہے۔ اس شور کو میں برداشت نہیں کر پاتا مجھے لگتا ہے میرے کان کے پردے اس شور سے پھٹ جائیں گے یا وہ مجھے ہی مار دے گا۔
ماما وہ میرا پیچھا کرتا ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی میں کیوں ایسا کرتا ہوں؟
بس مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ کوئی آپ کا دشمن ہے جو میرے ذریعے آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

وہ اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں تکلیف سہہ رہی ہے۔ ۔اس کے دونوں بازو نیل سے بھرے ہوئے ہیں۔ اب تو اسے بھی معلوم نہیں کب اس کا بیٹا اپنے ہوش و حواس کھو دے اور اس پر حملہ کر دے؟
اس نے سہیلیوں کو یہ بھی بتایا کہ علی لوگوں سے ڈرتا ہے لیکن اس پر وہ شیر کی طرح لپکتا ہے۔
یوں تو سارا کے پاس چند آپشنز ہیں جن کے ذریعے وہ خود کو بچا سکتی ہے لیکن اس طرح اس کا بچہ اس سے دور ہو جائے گا۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے بیٹے کو لگے کہ اس کے پاس ایک ماں ہی تھی ۔
وہ بھی تکلیف میں اسے چھوڑ گئی۔
ایک دوست نے کہا جی پی GP سے بات کرو ۔
دوسری نے کہا، مانو یا نہ مانو یہ بد نظر ہے۔ تمہارے بیٹے کو کسی کم ظرف کی بری نظر کھا گئی ہے۔
اب تو سارہ کو بھی یہی محسوس ہوتا تھا کہ کوئی چھپا دشمن ہے جو اس کے گھر کے سکون اور خوشیوں کا قاتل ہے لیکن وہ سوچتی آخر کون حاسدی اس کے گھر کے سکون کو خراب کر رہا ہے؟
ایک دوست نے کہا یہ کالا جادو ہے۔ جتنی جلد ہو سکے اس کا علاج کرواؤ ۔
کسی نے کہا بچے پر آسیب کا سایہ ہے تو کسی نے کہا بچے پر جن عاشق ہوگیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ۔

ماں اولاد کے معاملے میں ہر علاج کے لئے تیار ہوتی ہے۔ وہ بھول جاتی ہے کہ اس کا مذہب و مسلک کیا ہے؟
وہ ہر ٹوٹکا آزمانے کی کوشش کرتی ہے۔ سارہ نے بھی ایسا ہی کیا۔
اس نے کسی کے توسط سے بچے کا زائچہ نکلوایا اور حساب تک لگوایا پھر ان صاحبِ کشف نے جو طریقے بتائے وہ تک کئے۔
گھر میں کیل ٹھونک کر حصار تک کھینچے۔اگر بتیاں اور موم بتیاں تک جلائیں۔
صرف اس خواہش کے پیشِ نظر کہ وہ بد بخت اس کے بچے کی جان چھوڑ دے۔
رب کے آگے ماتھے ٹیکے سجدے میں رورو کر دعا کی۔
بچے کا نفسیاتی علاج بھی شروع کر دیا۔ بلڈ ٹیسٹ، برین سکین تک کروایا۔
رزلٹ پازیٹو تھا خون اور دماغ میں کچھ نہ آیا۔ تو اس کا یقین اور پختہ ہوگیا کہ یہ یا تو کالا جادو ہے یا پھر کسی خبیث مرد و عورت کی بری نظر۔

پھر ایک دن بچے نے اپنی ہی ماں پر بہت بری طرح حملہ کیا۔ بچے کے اس ایکٹ کی وجہ سے اسے مینٹل ہاسپیٹل ایڈمٹ کر لیا گیا جہاں وہ دو ماہ رہا لیکن اپنا کیس خود ہی فائٹ کرکے وہاں سے نکل آیا کیونکہ نہ اسے وہاں کوئی آواز آتی تھی اور نہ ہی اسے کوئی کسی کو مارنے کو کہتا تھا۔ بچے کے اچھے اور شانت رویے اور اس کی بڑھتی انگزائیٹی کی وجہ سے اسے جلد گھر بھیج دیا گیا۔ بچے کو یہ کہہ کر ادویات پر لگا دیا گیا کہ بچہ سائیکوسز مرض میں مبتلا ہے کیونکہ اسے گھر میں آوازیں اور شکلیں نظر آتی ہیں اور بچہ آٹسٹک بھی ہے۔

سارہ کے لئے یہ بات کسی شاک سے کم نہیں تھی کیونکہ وہ آٹسٹک بچوں سے واقف تھی ۔ آٹزم کی علامات اکثر تین سے پانچ برس کی عمر میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ یہ بچے سوشلی کمیونیکیٹ نہیں کر سکتے اور ان کو بولنے میں بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ علی نہ صرف بولتا تھا بلکہ کچھ ماہ پہلے تک اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا باہر جاتا ہر طرح کی ایکٹیویٹی میں حصہ لیتا۔ فٹ بال ،باسکٹ بال سائیکلنگ کا شوقین تھا۔ سکول کے اساتذہ کو بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ آٹسٹک ہے۔وہ چند ماہ پہلے تک بالکل ٹھیک تھا۔ کبھی کبھی وہ سوچتی کہ اگر اس کا بچہ اس طرح ہاتھ نہ اٹھتا تو
کیا وہ ساری زندگی یہ جان نہ پاتی کہ وہ آٹسٹک ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply