• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کُرۂ ارض پہ مظلوم ترین قوم ” روہنجا مسلمان “۔حصہ اول

کُرۂ ارض پہ مظلوم ترین قوم ” روہنجا مسلمان “۔حصہ اول

زمینی راستے  سے چائنہ، لاؤس، بھوٹان، نیپال، تھائی لینڈ، اور سمندری راستے  سے بنگلہ دیش اور انڈیا، سات ممالک میں گھرے دو لاکھ اکسٹھ ہزار مربع میل پہ مشتمل رقبے اور تقریباً پانچ کروڑ کی آبادی والے چھوٹے سے ملک ( پاکستان کے چوتھے حصے کے برابر ملک ) کا سابقہ نام برما موجودہ نام میانمار ہے، جس کا دارالحکومت رنگون ( نیا نام ینگون ) ہے۔

برطانوی حکومت سے 1948 میں آزاد ہونےوالی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی فیڈریشن پہ مشتمل اس ملک کا نام ” انڈیپنڈنٹ یونین آف برما ” رکھا گیا۔سات ممالک میں گھرے اس ملک کو آزادی سے قبل تاجروں کی جنت سمجھا جاتا تھا، یہی وجہ تھی، کہ 1824 میں برما پر  برٹش گورنمنٹ کے قبضے  اور اسے برٹش انڈیا کا ایک صوبہ قرار دینے کے بعد برٹش انڈیا کے بڑے بڑے تاجروں جن میں گجراتی کاٹھیاواڑی مسلمانوں( صوبہ گجرات اور کاٹھیا واڑ کے رہائشی ) کے علاوہ ہندوؤں اور پٹھانوں کی بھی ایک چھوٹی سی تعداد   شامل تھی نے تجارت اور رہائش کے لیےبرما کے سب سے بڑے شہر ” رنگون ” کو چنا۔برما منتقل ہونے والے تاجر  جن کی اکثریت انڈین گجراتی مسلمان، بہت تھوڑی تعداد ہندو، ایک سو کے قریب پٹھان، دنوں میں کروڑوں میں کھیلنے لگی، اور حالات اس مقام پہ آن  پہنچے کہ پورے برما کی اقتصادی شہ رگ کے مالک مسلمان بن گئے۔یہ متمول مسلمان اتنے زیادہ مال و دولت کے باوجود اتنے پکےدین دار اور مذہبی تھے، کہ انہوں نے نہ صرف پورے برمامیں مساجد و مدارس کے جال بچھائے، بلکہ سعودی عرب، ساؤتھ افریقہ، کینیا، ملاوی، موزمبیق، مڈغاسکر، یوگنڈا، نائجیریا، ہندوستان میں مساجد، بڑے بڑے مدارس اور ہاسپٹلز کی سرپرستی اور مالی اعانت کرنا بھی اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے!

دو مارچ 1962 کو برمی آرمی نے اپنے ملک کو فتح کرلیا یعنی مارشل لگادیا۔مارشل  لا لگاتے ہی ڈکٹیٹر اور اس کے حواریوں نے اپنے ہی ہم وطنوں کی املاک لوٹ لیں، ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے، کاروبار پر  قبضہ کرلیا، اور ان کے بڑے بڑے گھروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا، کل تک جو لوگ لاکھوں روپیہ ٹیکسز اور فلاح عامہ کے کاموں میں اپنی خوشی سے صرف کرتے تھے، انہیں کوڑی کوڑی کا محتاج کردیا۔۔۔۔۔ رات کو امیر سونے والے صبح اٹھے تو غریب تھے۔۔۔۔۔کئی تخت نشینوں کو تختۂ دار پہ لٹکا دیا گیا۔۔۔۔لاکھوں مسلمان صرف اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں بچاکے گرتے پڑتے تھائی لینڈ، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا میں پناہ گزین ہوئے، ان میں سب سے زیادہ تعداد میں لوگ پہلے پہل پاکستان میں آکے کراچی میں آباد ہوئے، اور پھر ان میں سے بہت بڑی تعداد انگلینڈ، یورپ، امریکہ، کینیڈا، اور سعودیہ میں جاکے آباد ہوگئی۔

صرف سعودیہ میں ان کی تعداد کئی لاکھ ہے، اور انگلینڈ میں بھی ان کی کافی تعداد ہے، برطانیہ کے ایک شہر ” بری ” میں معروف عالم دین اور دارالعلوم بری کے بڑےشیخ الحدیث مولانا محمد بلال رنگونی صاحب جو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی رح کے آخری خلیفۂ مجاز ہیں اور ان کے بڑے بھائی مولانا محمد اقبال رنگونی جو بہت سی تحقیقی کتب کے مصنف ہیں کے والد ماجد بھی برما سے ہجرت کرکے اپنے خاندان سمیت پہلے کراچی اور پھر برطانیہ میں آباد ہونے والوں میں سے ہیں، اسی طرح تحریک تحفظ ختم نبوت برطانیہ کے مبلغ مولانا عبدالرحمٰن یعقوب باوا صاحب کے والد ماجد بھی ان ہزاروں برمی مہاجرین میں سے ہیں جنہوں نے اپنے خاندان سمیت 1962 کے بعد کراچی کی طرف ہجرت کی۔برما کی آزادی کے صرف دوسال بعد یعنی 1950 میں برما کے ایک صوبے میں ملکی پالیسیوں اور ترقی سے محروم رکھنے کی وجہ سے آزادی کی تحریک شروع ہوگئی، جس میں اس صوبہ میں رہنے والی تمام اقوام، جن میں  بدھ، مسلم، ہندو، کرسچئن شامل تھیں۔

اس صوبہ کو دو ناموں سے پکارا جاتا ہے، نیا نام رخین اور پرانا نام اراکان۔برما کے مغرب میں بے آف بنگال کے ساتھ واقع رخین ( Rakhine ) صوبہ جسے اراکان ( Arakan ) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پانچ اضلاع پہ مشتمل ہے، جس میں 17 ٹاؤن ( چھوٹے شہر ) اور 1164 دیہات ہیں۔اراکان صوبہ کا کل رقبہ 36778 مربع کلومیٹر ہے۔اس صوبہ کی کل آبادی 2014 کی حکومتی مردم شماری کے مطابق 32 لاکھ افراد پہ مشتمل ہے, لیکن اس تعداد میں سب سےاہم اور بنیادی بات یہ ہے، کہ اس مردم شماری میں مسلمانوں کو گنا ہی نہیں گیا۔صرف اندازے سے مسلمانوں کی تعداد بتائی گئی۔انہیں روہنجا یا روہنجن مسلمان کہا جاتا ہے ( روہنجا مسلمانوں کے تلفظ کے مطابق ان کے نام کا تلفظ روہنگین نہیں بلکہ اردو، انگلش، عربی، برمی تمام زبانوں میں ” روہنجن اور روہنجا ” ہے)

میرے مختلف مسلمان برمی دوستوں جن میں چند روہنجا مسلمان بھی شامل ہیں، کے مطابق روہنجا مسلمانوں کی صرف اراکان صوبہ میں 2012 سے پہلے تعداد پچیس لاکھ سے زائد تھی۔ان کے علاوہ سعودی عرب میں 4 لاکھ، پاکستان میں 2 لاکھ، بنگلہ دیش میں 2012 تک 5 لاکھ، تھائی لینڈ میں 1 لاکھ، انگلینڈ میں 50 ہزار،جن میں سے انگلینڈ کے ایک شہر شیفلڈ میں پانچ سو سے زیادہ گھرانے آباد ہیں،ملائشیا میں 41 ہزار، انڈونیشیا میں 12 ہزار، اور امریکہ میں بھی 12 ہزار ہے۔پورے اراکان صوبہ میں 380 سے زائد دیہاتوں کی پچانوے فیصد سے زائد آبادی روہنجن مسلمانوں کی تھی، جن میں سے ہر گاؤں کی آبادی چھ سے دس ہزار افراد تھی۔اور بقیہ 784 دیہاتوں اور 17 ٹاؤنز میں بھی دس تا پندرہ فیصد روہنجن مسلمان آباد تھے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اراکان میں 52.2 فیصد بدھ 42.7 فیصد مسلمان 1.8 فیصد کرسچئن 0.5 فی صد ہندو اور بقیہ 2.8 فیصد دیگر اقوام ہیں۔

برما میں 1962 کے مارشل لاء کے بعد کچھ اصلاحات نافذ کی گئیں، جن میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی، جن اقوام کی بھی رجسٹریشن کی گئی، مسلمانوں کو چھوڑ کے بقیہ تمام اقوام کو کچھ عرصہ بعد شناختی کارڈ بھی جاری کیے گئے،برما کے قانون کے مطابق جس شخص کے پاس برمی شناختی کارڈ موجود ہے، وہ برما میں کسی بھی جگہ سفر کرسکتا ہے، یا برما سے باہر جانے کے لیے پاسپورٹ بنواسکتا ہے، جس کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں، وہ شخص دن کی روشنی میں صرف اپنے شہر میں گھوم پھر بھی سکتا ہے، محنت مزدوری یا چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرسکتا ہے، لیکن رات کو صرف اپنے ہی گھر میں سو سکتا ہے، اپنے ہی شہر میں کسی بھی قریبی ترین عزیز چاہے وہ بیٹا/ بیٹی ہو یا باپ/ ماں کے گھر میں رات کو قیام کرنے سے قبل اسے پولیس کو اطلاع کرکے ان سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص بلا اجازت اپنے کسی عزیز کے گھر میں ٹھہرتا ہے، تو شکایت ہونے پہ اسے کم از کم ایک ماہ کے لیےجیل میں ڈال دیا جاتا ہے، مالی جرمانہ اتھارٹیز کی صوابدید پہ ہے، جتنا مرضی کرلیں، میزبان پہ علیحدہ اور مہمان پہ علیحدہ!

برطانیہ میں رہنے والے میرے ایک عالم دوست مولانا سید علی جن کا برمی نام Min Naung ہے ،نے بتلایا کہ ان کے دادا( جو کہ پٹھان تھے) نے ایک بدھ مت سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو مسلمان کرکے اس سے شادی کی، جس کی وجہ سے ان کے لیے اپنے شہر سے رنگون ( دارالحکومت ) آنے جانے میں آسانیاں پیدا ہوئیں، کیونکہ ان کے سسرالی خاندان کے اکثر افراد مرکزی حکومت میں اعلٰی عہدوں پہ فائز تھے، بعد میں جب شناختی کارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا، تو ان کے دادا کو تو کارڈ جاری کردیا گیا لیکن بچوں کو محروم رکھا گیا، مولانا سید علی کے مطابق جب وہ عالم بن گئے، تو انہوں نے شناختی کارڈ کے حصول کی جدوجہد شروع کی، لیکن ناکامی مقدر بنتی رہی!مولانا سید علی کے نانا نانی بھی بدھسٹ تھے، نانی مسلمان ہوگئیں ، تو ان کے بدھسٹ خاوند نے انہیں طلاق دے دی، وہ اپنی بچی کو لے کے علیحدہ رہنے لگیں، اسی بچی کی بعد  مولانا سید علی کے والد سے شادی ہوئی، اس حساب سے مولاناسید علی کے ننھیالی تمام رشتہ دار نانی کے علاوہ بدھسٹ ہیں!

آٹھ سال کی کوشش کے باوجود شناختی کارڈ کے حصول میں ناکامی کے بعد اپنی والدہ کے ماموں یعنی اپنی مرحومہ نانی کے بھائی جن کی عمر ستر سال سے زائد تھی، اور وہ ” مونگ ” تھے یعنی بدھوں کے پادری عالم یا روحانی پیشوا جو بھی کہہ  لیں کے پاس گئے، اور اپنی کتھا بیان کی!وہ انہیں اپنے ساتھ شناختی کارڈ آفس لےگئے، اور سیدھے بڑے آفیسر کے روم میں بلا اجازت داخل ہوئے، اسے صرف اتنا کہا، یہ میرا نواسہ ہے اسے شناختی کارڈ جاری کیا جائے!اور دس منٹ میں وہ شناختی کارڈ جاری ہوگیا، جس کے لیے وہ آٹھ سال سے دفتروں میں ٹھوکریں کھارہے تھے!یہ حال اس قوم کا ہے، جن کی رشتہ داریاں بدھسٹوں کے ساتھ ہیں، اور انہیں برمی زبان میں “زیربادی برمیز ” کہاجاتا ہے یعنی برمی اور دوسری کسی قوم سے مخلوط نسل، اور یہ زیربادی برمیز دوسرے درجے کے شہری ہیں، اگر ان کے بدھسٹ رشتہ دار کسی پوسٹ پہ موجود ہیں تو ان کے لیے بھی کافی آسانیاں ہیں،
لیکن ان کے بلمقابل روہنجا قوم کو برما میں صدیوں سے آباد ہونے کے باوجود مکمل خارجی اور اجنبی سمجھا اور کہا جاتا ہے!

روہنجا قوم کےدوستوں کے دعوے کے مطابق وہ اراکان کے صوبہ میں نویں صدی عیسوی یعنی تیسری صدی ہجری سے آباد ہیں، اور ان کا تعلق عرب نسل سے ہے۔ان کے دعوے کے مطابق وہ تیسری صدی ہجری میں برما کے ساحلی علاقوں میں سمندری راستے سےاسلام کی تبلیغ کے لیے آنے والے ان عرب مبلغین کی اولاد ہیں، جو اپنے خاندانوں سمیت یہاں تبلیغ کے لیے آئے، اور یہیں رچ بس گئے!لیکن برمیز گورنمنٹ کے مطابق روہنجا قوم کا 1824 سے قبل برما میں دستاویزی دلائل کے ساتھ وجود ثابت نہیں برمیز گورنمنٹ کے مطابق برما( موجودہ میانمار ) پر انگریزوں نے 1824 میں قبضہ کیا تھا، اور 1824 تا 1948 برما برٹش انڈیا کا ایک صوبہ رہا ہے، اسی عرصہ کے دوران برٹش انڈیا کے مختلف علاقوں سے بے شمار لوگ پیسہ کمانے کی خاطر برما آئے، رنگون اور اس کے گرد و نواح میں صوبہ گجرات کی مختلف اقوام آئیں، اور اراکان صوبہ میں بنگال کے مختلف علاقوں خصوصاً چٹاگانگ کے علاقہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آئے، وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں، کہ روہنجن مسلمانوں کی شکلیں، زبان، کلچر، عادات بود و باش اور لب و لہجہ بہت حد تک بنگالی زبان سے ملتا جلتا ہے، اور ان کی رشتہ داریاں بھی زیادہ تر بنگالیوں کے ساتھ ہیں، حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں، کوئی بھی قوم جب تھوڑی تعداد میں اپنے علاقہ سے مائیگریٹ کرکے دوسرے علاقوں میں آکے بستی ہے، تو ان کی زبان رسم رواج کلچر بھی اپناتی ہے اور ان سے رفتہ رفتہ رشتہ داریاں بھی کرلیتی ہے۔

برما میں 1982 میں برمیز سٹیزن شپ قوانین بنائے گئے، جن کی رو سے 1823 کے بعد برما میں رہائش یا کاروبار کے لیے آنے والوں اور ان کی اولادوں کو 160 سال برما میں رہنے کے بعد بھی غیر قانونی امیگرانٹس کا اسٹیٹس دیتے ہوئےان کے لیے برمی شہریت کا حصول ناقابل حصول بنادیاگیا، بنیادی طور پہ یہ قانون بنایا ہی صرف مسلمانوں کے لیے کیا گیا تھا، کیونکہ برما میں رہنے والی دیگر اقوام، مثلا ہندو، عیسائی وغیرہ نے تو اپنی رشتہ داریاں بدھسٹ کے ساتھ بہت پہلے سے کرلی تھیں، ایک مسلمان ہی واحد قوم تھی، چاہے وہ روہنجا تھے، انڈین گجراتی تھے یا بنگالی، انہوں نے اپنےمذہب کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، اور اپنے اسلامی کلچر اور رسم و رواج سے بھی بندھے رہے، ہزاروں میں کسی ایک کے علاوہ اکثریت نے اپنی اور اپنے بچوں کی شادیاں مسلمانوں ہی میں کیں، یوں وہ ایک ایسے ملک میں جہاں کے مجموعی قومی اعداد و شمار میں تمام مسلمانوں کی مجموعی تعداد 4.3 فیصد سے زائد نہیں تھی، اپنا مذہبی تشخص صدیوں تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، حالانکہ اسی ملک میں کرسچئنز کی تعداد 6.2 فیصد ہے، لیکن جو پابندیاں مسلمانوں پہ ہیں، وہ ان پہ نہیں، بلکہ انہیں برمیز یعنی پہلے درجہ کے شہری کی مراعات حاصل ہیں،

اراکان میں رہنے والے روہنجا مسلمان نہ تو سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، اور نہ ہی اسٹیٹ کے فری اسکولز میں اپنے بچوں کو داخل کرواسکتے ہیں، اور نہ ہی ان کی نوے فیصد سے زیادہ اکثریت نے آج تک اپنے ملک کے دارالحکومت کا تو کیا، اپنے ہی صوبہ میں اپنے ضلع کے علاوہ بقیہ چار اضلاع کا منہ دیکھا ہے، کیونکہ انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے سفری اجازت نامہ بھی کسی بدھسٹ کی سفارش اور بھاری رشوت کے حصول کے بعد جاری کیا جاتا ہے، اور یہ دونوں کام ان کے مسلمان ہونے اور غریب ہونے کی وجہ سے مشکل نہیں ناممکن ہوتے ہیں۔

روہنجا مسلمانوں کے علاقہ اراکان میں جب 1950 میں علیحدگی کی تحریک چلی تو اس تحریک کے سرخیل بدھسٹ تھے، اور مسلمان عام ورکر!رفتہ رفتہ مرکزی گورنمنٹ نے بدھسٹوں کو تو مراعات دے کے اپنے ساتھ ملالیا، اور ان لیڈروں نے بھی مسلمانوں کو استعمال شدہ ٹشو پیپر سمجھ کے پھینک دیا، تو مرکزی گورنمنٹ نے ان پہ پابندیاں لگانا شروع کردیں، شناختی کارڈ کی پابندی تو 1962 کے مارشل لاء کے بعد لگی، لیکن سفری پابندیاں حصول تعلیم میں رکاوٹ، سرکاری ملازمتوں پہ پابندی 1951 میں شروع کردی گئی، جن تھوڑے سےلوگوں کے پاس کچھ دولت موجود تھی، وہ حالات کو بھانپ گئے، اور اسی زمانہ میں سعودی عرب، مشرقی پاکستان( موجودہ بنگلہ دیش ) اور مغربی پاکستان ( موجودہ پاکستان ) منتقل ہونا شروع ہوگئے، مثال کے طور پہ ایک روہنجا مسلمان محمد یوسف بن سلیمان کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔

انہوں نےآنے والے حالات کی نزاکت کو بروقت بھانپا اور 1951 میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ اراکان سے بذریعہ کشتی مشرقی پاکستان، وہاں سے کراچی اور پھر کراچی سے پاکستانی پاسپورٹ پہ سعودی عرب چلے گئے، وہاں مکہ مکرمہ میں رہائش اختیار کی، وہیں 1952 میں الله تعالی نے انہیں ایک بیٹے سے نوازا، جس کا نام انہوں نے محمد ایوب رکھا، اس بچے محمد ایوب نے 1965 میں وزارت اوقاف سعودی عرب کے زیرسرپرستی جاری شعبہ تحفیظ القرآن’’ مسجد بن لادن‘‘ میں شیخ خلیل بن عبدالرحمن کے پاس 12 برس کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کی۔اس کے بعد متوسطہ وثانویہ تک تعلیم ’’معہد المدینہ العلمی‘‘ میں حاصل کی، پھرجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شریعة کالج میں داخل ہوئے اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1976 سے لے کر 1978 تک کلیة القرآن میں معاون استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور ساتھ ہی تدریسی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔اس کے بعد جامعہ اسلامیہ ہی سے تفسیر اور علوم تفسیر میں ماسٹر (M.A) اور پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔اور دونوں مرحلوں میں ’’تفسیر سعید بن جبیرکی روایات ‘‘ پر گرانقدر کام کیا ۔ اور دونوں مرحلے 1978 سے لے کر 1988 پر مشتمل ہیں،

اس کے بعد تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تقریبا 11 سال مدینہ منورہ کی مختلف مساجد میں امامت و خطابت کرنے کے بعد حرم نبوی میں معاون امام مقرر ہوئے اور پورے سات سال حرم مدنی شریف میں معاون امام رہے، بعد ازاں مسجد قبا کے امام مقرر ہوئے جہاں اپنی وفات تک مختلف نمازوں کی امامت کے ساتھ ساتھ نماز تراویح اور قیام لِیل کی امامت بھی ان کے ذمہ تھی،سن 2016 میں ان کا انتقال ہوا اور یہ جنت البقیع میں دفن ہوئے!اراکان میں علیحدگی کی تحریک سے بدھسٹوں اور مسلمانوں کو جدا کرنے کے بعد جب مسلمانوں پہ عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا، تو مسلمانوں نے ہلکا پھلکا احتجاج کا سلسلہ شروع کیا، لیکن 1962 کے مارشل لاء کے بعد پورا ملک ایک جیل خانہ میں تبدیل ہوگیا تھا، اور پھر اس جیل کے اندر ایک اور جیل تھی جس کے قیدی صرف مسلمان تھے، چاہے وہ اراکان میں تھے، رنگون میں تھے، یا ملک کے دیگر حصوں میں، ان پہ روزگار اور تعلیم کے مواقع مکمل بند کردیے گئے۔

کچھ عرصہ بعد رنگون اور دیگر صوبوں میں حصول تعلیم کے لیے کچھ چھوٹ دے دی گئی، لیکن اراکان میں مسلمانوں کی اکثریت چونکہ انتہائی غریب تھی، اکثریت کھیتی باڑی، ریڑھی، ٹھیلا، اور ماہی گیری کے کاموں سے منسلک تھی، انہیں کسی بھی چھوٹ کے قابل نہ سمجھا گیا، عام بدھسٹ عوام تو ان معاملات سے لاتعلق رہے، لیکن سرکاری اتھارٹیز یعنی فوج، پولیس، اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیے رکھا کہ الامان الحفیظ!اگر کوئی شخص کسی ناروا سلوک یا ظلم وستم پہ ذرا سی آواز بھی بلند کرتا تو اس کے پورے خاندان کو صفحۂ ہستی سے غائب کردیا جاتا، مارشل لاء سے قبل جو تھوڑی بہت چھوٹ تھی مارشل لاء کے بعد اتنی ہی زیادہ سختی کردی گئی،لاوا اندر ہی اندر پکتا گیا،

پہلی بار 1978 میں چند لوگوں نے اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا، تو روہنجا مسلمانوں کے علاقوں پہ پہلی بار ملٹری کریک ڈاؤن کیا گیا، سینکڑوں کو ماراگیا، ہزاروں کو جیلوں میں بھردیاگیا، ہزاروں لاپتہ ہوگئے، اور دو لاکھ سے زائد لوگ سمندری راستہ سے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے، بہت تھوڑے لوگ بنگلہ دیش میں رکے زیادہ تر بنگلہ دیش سے پاکستان، سعودیہ، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں جابسے!اس زمانہ میں نہ تو کسی غیر ملکی کو اراکان صوبہ میں داخلہ کی اجازت تھی، اور نہ ہی کوئی روہنجا مسلمان اپنے ضلع کے صدر مقام کے علاوہ کہیں آجا سکتا تھااور وہ بھی خصوصی اجازت کے ساتھ! اور نہ ہی کسی انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کا کوئی تصور موجود تھا!

Advertisements
julia rana solicitors

اس زمانہ میں انٹرنیشنل خبروں کے لیے وائس آف امریکہ یا بی بی سی لندن کی ریڈیو سروسز ہی دو ذرائع تھے، لیکن ان کی توجہ اور دلچسپی کے لیے اس وقت اور بہت سے معاملات تھے، خصوصاً افغانستان میں روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور شہنشاہ ایران کے ایران میں کروٹیں لیتی انقلاب کے نام پہ بغاوت!اس لیے ان دونوں ریڈیو اسٹیشنز کی توجہ سے روہنجا مسلمانوں کا قتل عام اور دربدری محروم رہی، اور نام نہاد امن کے پرچارک بدھسٹ ظلم و بربریت کا ناچ ناچتے رہے اور انسانیت ان کے امن کے پھولوں سے لہولہان ہوتی رہی!
پہلے ملٹری کریک ڈاؤن کے بعد 1991 تک چھوٹے موٹے اکادکا واقعات کے علاوہ سکون رہا، لیکن 1991 اور پھر چند ماہ بعد 1992 کا ملٹری کریک ڈاؤن برمی آرمی کی طرف سے ایک یکطرفہ جنگ تھی، جو نہتے اور کمزور مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی۔۔
جاری ہے!

Facebook Comments

صاحبزادہ ضیا
تحقیق و جستجو میں ہمہ وقت سرگرداں تلخ ترین حقائق منظر عام پہ لانا جن کے اظہار سے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply