شخصی ڈبوں میں بند تعصب۔۔۔۔۔سلیم احسن

مجھے اس چیز سے بہت دکھ ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ‘ہم بمقابلہ باقی دنیا ایریا’ ( ملیریا کے وزن پر) کی شکار ہے۔ یہ ‘ہم’ کیا ہے؟ اس کی کوئی مستند تعریف نہیں ہے۔ ‘ہم’ وہ ڈبہ  ہے جس میں ہم باقی تمام دنیا کو خود سے الگ مان کر اپنی پسند کے ‘اپنے جیسوں’ کے ساتھ بند کر لیتے ہیں۔ ہماری یہاں ہر حجم، ہر ساخت اور ہر رنگ کے ڈبے پائے جاتے ہیں جن میں لوگ خود کو بند کر لیتے ہیں اور اس ڈبے سے باہر کی دنیا کو غیر، بلکہ دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ کبھی یہ ڈبہ  ذہنیت ‘مسلمان اور (بلکہ بمقابلہ) باقی دنیا’ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، کبھی ‘میرا فرقہ بمقابلہ باقی مسلمان’، کبھی میری ‘قوم’ بمقابلہ باقی  قوم ‘ کی شکل میں۔

اس ‘ہم’ کی تعریف کچھ بھی ہو، ہم میں سے کوئی بھی نہیں سوچتا کہ یہ ‘ہم’ ہمیں بالکل اتفاقاً ملی ہوتی ہے۔ محض ایک سپرم اور انڈے کے ملاپ سے۔ اور وہ بھی والد کے کروڑوں میں سے صرف اسی سپرم، اور رحم مادر میں اسی خاص انڈے سے۔ ہم سب کی پیدائش اتنی random ہوتی ہے کہ اسی جماع کے عمل میں اگر اسی باپ کے کسی دوسرے سپرم نے اسی انڈے کو فرٹیلائز کیا ہوتا، یا اسی سپرم نے کسی اور انڈے کو، تو نتیجہ کچھ اور نکلتا اور اس کا شخصی  وجود ہی نہیں ہوتا۔

کسی بھی انسان کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ چن سکے کہ وہ کس کے سپرم سے اور کس کے انڈے سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے اختیار میں یہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ یہ طے کر سکے کہ وہ جن ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوگا وہ کس دور میں جی رہے ہوں، یا کس جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں یا ان کا مذہب، فرقہ، یا مادری زبان کیا ہو۔

اس حادثاتی پیدائش کے بعد وہ ہوش سنبھالنے کے بعد ایسے اپنے آپ کو اپنی پسندیدہ ‘ہم’ کے ڈبے میں بند کر لیتا ہے جیسے وہ سی ایس ایس کی طرح کے کسی مقابلے کا امتحان پاس کر کے سندھی بنا ہو، یا کسی کمانڈو کورس کی کامیاب تکمیل کے بعد پنجابی ہونے کا بلا اس کی وردی پر لگایا گیا ہو، یا فرشتوں کو رشوت دے کر اردو سپیکنگ بنا ہو۔ اپنی اتفاقیہ پہچان پر فخر کرنے کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ‘ہم’ والے ڈبے کے باہر والے لوگوں سے ایسے تعصب برتتا ہے جیسے انہیں اس نے فرشتوں سے ساز باز کر کے اپنے ڈبے میں شامل ہونے سے روکا ہو۔

یوں وہ، جو خود حادثاتی طور پر اس ڈبے والوں میں پیدا  ہوا ہوتا ہے، اپنے ڈبے سے باہر کے ان لوگوں سے نفرت کرتا ہے جو حادثاتی طور پر اس ڈبے سے باہر پیدا ہو گئے تھے۔ اس طرح کے تعصب کو برقرار رکھنے میں یہ بات بہت ضروری ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی تفریق پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور ان بڑی بڑی چیزوں کو نظرانداز کیا جائے جو ان میں مشترک ہوں۔

مزید افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کسی ملک کی شہریت، مذہب، فرقے، مکتبۂ فکر، صوبے، ریاست، ‘قوم’، ذات، برادری، قبیلے یا مادری زبان کی بنیاد پر کسی سے تعصب رکھنا یا نفرت کرنا ،نہ صرف بہت بڑی حماقت اور زیادتی ہے، بلکہ ذہنی بیماری ہے۔ مگر لوگ اپنی اس ذہنی بیماری پر نازاں ہوتے ہیں۔

کچھ اور لوگ ہوتے ہیں جو تعصب کو برا سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ ان لوگوں کو بہت برا سمجھتے ہیں جو ان کے خلاف تعصب برتتے ہیں، لیکن وہ خود جو دوسروں کے لیے دل میں رکھتے ہیں اسے وہ تعصب نہیں سمجھتے، اسے اپنے خلاف تعصب کا رد عمل کہتے ہیں۔ لیکن ہوتا وہ بھی تعصب ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں اور اس بحث میں پڑے بغیر کہ پہل کس نے کی تھی ہر آدمی انفرادی طور پر خود احتسابی کرے کہ وہ اپنے دل میں کس تعصب کو پال رہا ہے اور اسے اپنے دل سے نکالے اور ہر انسان سے انفرادی طور پر معاملات کرے اسے کسی ڈبے میں بٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ اور یہی بات وہ دوسروں کو بھی سمجھائے اور یوں شمع سے شمع جلا کر ہی نفرت اور تعصب کی بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply