نظم کہانی۔۔۔۔قسط2/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مہاتما بدھ کی زندگی کے حالات پر مبنی میری تین کتابوں میں سے انتخاب
(یہ کتابیں انگریزی، اردو، جاپانی میں چھپ چکی ہیں۔ )
زنخا بھکشو

اور پھر جس شخص کو آنند اپنے ساتھ لے کر
بُدھّ کی خدمت میں پہنچا
اُس کا حلیہ مختلف تھا
سر پہ لمبے بال تھے، ہاتھوں میں کنگن
اور کانوں میں جھمکتی بالیاں تھیں
صنف ِ نازک کی طرح ۔۔ پر
کھردرا ، مردانہ چہرہ
مونچھ داڑھی سے صفا چٹ
اک مخنّث

’’اے مہا مانو، یہ آدھا پُرش ، آدھا استری ہے
ایک زنخا ۔۔۔۔۔
شادیوں میں، میلوں ٹھیلوں کی تماشا گاہ میں
روزی کی خاطر ناچتا ہے
ناچ گانا
عورتوں کی طرح نخروں کی نمائش
روزی روٹی کا یہی واحد وسیلہ جانتا ہے ۔۔۔۔

بُدھّ چوبی تخت پر آسن بچھائے
بند آنکھوں سے ہی نو وارد کے اگلے ، پچھلے جنموں
کو برابر دیکھتے ہی جا رہے تھے

’’آج یہ آیا ہے، ہم سے دیکھشا لینے کی خاطر
زندگی سے تنگ ہے ۔۔۔ کہتا ہے، کیا وہ
آنے والے اپنے سب جنموں میں زنخا ہی رہے گا؟
اس کی مُکتی بس اسی اک آس پر ہے
۔۔۔ آشرم میں شرن لے، اور ۔۔”۔

ٹوکتے کب تھے تتھا گت۔۔۔۔
پھر بھی ان کی اک نظر کافی تھی بھکشو کے لیے ۔۔۔
آنند جب چُپ ہو گیا تو
آنے والے شخص سے پوچھا
بھلے مانس، بتاؤ، تم یہ کیسے جانتے ہو
آنے والے اپنے جنموں میں بھی تم زنخا رہو گے؟

جانتا ہوں ۔۔۔ اے مہا مانو
میں اپنے پچھلے دو جنمو ں کی بھی پہچان رکھتا ہوں
کہ میں ان میں بھی اک زنخا تھا ، یعنی
پُرش یا ناری نہیں تھا

ایک لمحے کے لیے تو چونک اٹھے بُدھّ
پھر شفقت سے اُس آدھے ادھورے شخص کو دیکھا، کہا ۔۔۔۔
تم آگے آ کر بیٹھ جاؤ
تم بھی ، بھکشو، تم بھی اس کے ساتھ بیٹھو

گیان داتا بُدھّ کی آنکھیں تو جیسے گڑ گئیں
اس شخص کے ماتھے پہ اس تحریر کو پڑھنے میں
جو نقشہ تھا حرفوں، ہندسوں میں
ایک مالا سا پرویا ۔۔۔۔
ٹوٹ کر پھر استوار ہوتا ہوا، بنتا بگڑتا۔۔۔۔۔
پھر کہا
دو جنم پچھلے تو اپنے جانتے ہو
اور ان دو سے پہلے کیا تھا تم
یہ علم تم سے چھِن گیا ہے
دو جنم اگلے بھی اپنے جانتے ہو
تیسرے، چوتھے ۔۔۔ یا اس کے بعد کے جنمو ں کا تم کو
کوئی اندازہ نہیں ہے

’’ہاں، تتھا گت‘‘

کیوں ہے ایسا؟
کیا تم اس کے کارنوں کو جانتے ہو؟

رو پڑا وہ
سسکیوں کے بیچ میں اتنا کہا پھر
پچھلے دو جنموں میں بھی میں ایک زنخا ہی تھا ، سوامی
میں تو اتنا جانتا ہوں۔
کیوں تھا؟ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے
جنس کی پہچان میری کچھ نہیں تھی
پچھلے دو جنموں سے پہلے کیا تھا میں؟
اک مرد ، یا عورت، یا زنخا؟
مجھ کو اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔۔۔
روتے روتے اس کی گگھّی بندھ گئی تو
بُدھّ نے شفقت سے اس کی سمت دیکھا
پھر کہا
مرد تھے تم ۔۔۔ اس سے پہلے کے جنم میں

پھر تتھاگت؟
کون سا ایسا گنہ سرزد ہوا تھا، جس کے کارن
تین جنموں سے مجھے یہ کشٹ سہنا پڑ رہا ہے
اور آگے آنے والے دو جنم بھی مجھ کو ایسے ہی ملیں گے
اور اس کے بعد ؟
کیا کوئی بے حد بھیانک تھی مری کرتوت، سوامی؟

بُدھّ کچھ لمحے تو آنکھیں بند کر کے اپنے اندر کھو گئے
پھر کہا
جاننا اتنا ضروری ہے، تو سن لو

یہ تمہاری داستاں ہے
ایک سوداگر تھے تم اپنے جنم میں
جب سفر سے لوٹتے، کچھ دن ٹھہرتے
مال اپنا بیچتے
پھر اپنی بیوی کو اکیلا چھوڑ کر
اک بار پھر جاتے کہیں پردیس میں سوداگری کو
بیویاں کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہوں
ان کو اکیلا چھوڑ کر جانا سمجھداری نہیں ہے ۔۔۔

رک گئے دو چار لمحے
اور پھر دھیرے سے بولے
اُس نے بھی، یعنی تمہاری بیاہتا بیوی نے
تنہائی کو اپنی دور کرنے کے لیے
تب دوستی کر لی تمہارے اپنے بھائی سے ہی، یعنی
اپنے دیور بھائی سے ہی ۔۔۔۔۔‘‘

’’پھر ، تتھاگت؟‘‘

تم نے جب آ کر انہیں پکڑا تو وہ ہم بستری میں محو تھے
۔۔۔ تب کرودھ کی حالت میں ان کو مار ڈالا
اس پہ بھی غصہ تمہارا اس قدر تیکھا تھا ، تم جب
ان کی ہتیا کر چکے تو دونوں کے ہی
عضو ِ مخفی کاٹ ڈالے
جنس کی پہچان جیسے اک برابر ہو گئی دونوں کی ۔۔۔

رُک گئے کچھ دیر کو جب بُدھّ
تو آنند پہلی بار بولا۔جنس کی پہچان کھونا ۔۔
کیا یہی اس کی سزا ہے؟

ہاں، یہی کارن ہے، بھکشو
جنس کی پہچان تک
گم یق گئی ہے اس کی پچھلے تین جنموں سے۔۔۔
یہ خود بھی جانتا ہے
اگلے دو جنموں میں بھی ایسا رہے گا

اور اس کے بعد پھر؟
آنند نے بے چین ہو کر ایسے پوچھا
جیسے اپنی ہی سزا ہو

Advertisements
julia rana solicitors

بُدھّ اب گویا ہوئے زنخا سے
اب اُٹھو ۔۔۔برابر بھکشوؤں کا چولا پہنو
آشرم میں جاؤ۔ استقبال میں بھکشو کھڑے ہیں۔
تم بھی اک بھکشو ہو، اب زنخا نہیں ہو
۔۔۔۔
یہ جنم سُدھرا اگر تو
اِس سے اگلے دو جنم بھی
ایسے ہی سُدھریں گے ۔۔۔۔
اس کے بعد کے جنموں میں
اپنی جنس کی کھوئی ہوئی پہچان پھر سے پا سکو گے
استری یا پُرش کی کایا ملے گی!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply