کھلونا۔۔۔عنبر عابر

جب وہ  چھوٹی سی تھی تو ہر شے سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن رہتی۔دنیا کی مکاریوں سے غافل اور وقت کی بے رحم موجوں سے بے خبر۔اس کی کُل کائنات صرف کھلونے تھے جن کا واحد مقصد اس کے ہاتھوں ٹوٹنا تھا۔اس کا کمرہ کھلونوں کے بکھرے اجزاء سے بھرا رہتا۔جب بھی اس کے ابو اسے نیا کھلونا لاتے تو وہ کمرے میں گھس جاتی اور چھوٹی سی ہتھوڑی اٹھا کر اسے توڑنے لگتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

********
اس کی یہ عادت پختہ ہوجاتی اگر اس کا کزن صائم بیچ میں نہ آتا۔پہلے پہل جب وہ اس کے پاس آیا تھا اور اس کے ہاتھ پکڑ کر کہا تھا۔
“پلیز یہ کھلونا مت توڑنا مجھے بہت پسند ہے“ تو وہ صائم کی آنکھوں میں دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔وہاں کچھ ایسی شدت بھری التجا تھی کہ وہ اسے ٹھکرانے کی ہمت نہ کرسکی تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ اٹھی تھی اور اس نے پہلی بار کسی کھلونے کو الماری میں رکھا تھا۔
پھر یہ معمول بن گیا۔وہ جب کھلونا توڑتی تو صائم،جو شاید اسی موقعے کا منتظر رہتا، آ دھمکتا اور کہتا۔
“پلیز یہ کھلونا مت توڑنا۔مجھے بہت پسند ہے“ آشا ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس کی آنکھوں میں جھانکتی رہ جاتی۔
*******
کھلونوں سے کھیلتے کتنا ہی وقت بیت گیا تھا۔اب وہ صائم کی آنکھوں سے کھیلنے لگی تھی،اس کی یادوں سے بہلنے لگی تھی۔جب اسے محسوس ہوا کہ صائم بھی اس کے ارادے سمجھ چکا ہے تب اس نے ایک دن اس سے کہا تھا۔
“میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں“
صائم پہلے تو مسکرایا تھا پھر سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔”میں تم سے شادی نہیں کرسکتا کیونکہ میں کسی اور کو دل میں بسا چکا ہوں۔ہاں صرف چند لمحات کی خوشی دے سکتا ہوں“
صائم کا اس قدر دو ٹوک موقف سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔اس نے صائم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور بولی۔
“پلیز یہ کھلونا مت توڑنا۔مجھے بہت پسند ہے“
صائم نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور سنسناتے لہجے میں گویا ہوا۔
“میں غلط تھا۔کھلونے ہوتے ہی توڑنے کیلئے ہیں“
یہ سن کر آشا اپنے کمرے میں گئی اور سالہا سال حفاظت سے رکھے کھلونے چن چن کر توڑنے لگی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کھلونا۔۔۔عنبر عابر

Leave a Reply to Shayan-e-Arif Cancel reply