رابعہ الرباء کی نظم پر تاثرات۔۔۔۔فرحت زہرا

پیاری رابعہ
آج تمہاری نظم فیس بک پر پڑھی” ماں “واہ کیا نظم تھی – کیا کہنے – تم نے نظم میں تمام درد انڈیل دیا – خدا کرے اب کچھ نہ بچا ہو – حالانکہ نظم میں رُلا دینے والے سارے کمالات موجود تھے مگر اس کو پڑھ کر میں بالکل افسردہ نہیں ہوئی بلکہ ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی – وہ خوشی جو کسی بھی مضبوط عورت کو دیکھ کر دوسری عورت کو محسوس ہوتی ہے – فخر محسوس ہوا تم پر – تمہارے عورت ہونے پر اپنے عورت ہونے پر – تمہاری تحریر کی پختگی سے زیادہ اس بات پر کہ نہ صرف تم اتنا سہہ سکتی ہو بلکہ اس کو بیان بھی کرسکتی ہو – ان ظلموں اور ناانصافیوں نے چاہے سب کچھ لے لیا ہو مگر سچ دیکھنے کی آنکھ اور سچ بولنے کی زبان نہیں لے سکی –
تم نے ماں کی پول کھول کر عورت کو جنت کے وزن سے آزاد کر دیا – تم نے بتایا کہ ماں پہلے انسان ہے پھر عورت اور پھر ماں- یہ کام یقیناًایک عورت ہی کرسکتی تھی – اور تم نے کر دکھایا – شاید کچھ لوگوں کو اس میں عورت کی عورت سے دشمنی نظر آئی ہو مگر مجھے نہیں آئی کیونکہ مجھ کو لگا جیسے تم عورت ذات کا ساتھ دے رہی ہو اس کو اس کی منزلت دکھا رہی ہو اس کو صحیح راہ دکھا رہی ہو – میں نے اپنے انداز میں کچھ سالوں پہلے کچھ لکھا تھا –ابھی ابھی یاد آگیا تم کو سناتی ہوں – اس کا عنوان تھا مرد پرست عورت

مرد پرستی
تم کو نگل گئی
اور تم کو پتہ بھی نہیں چلا
جس وقت تم نے اپنی بہو کو پھوہڑ کہا
اور اپنے بیٹے کے عیبوں پر پردہ ڈالا
پردہ تو اس وقت ڈالو گی
جب تم کو اس میں کوئی عیب نظر آئے گا
کیا تمہاری نظر میں تمہاری سہیلی بیٹی بہو
بہن بھانجی پوتی نواسی کی وہی عزت ہے
جو تمہارے بیٹے میاں داماد محبوب
بھائی بھانجے پوتے اور نواسے کی؟
نہیں، کیوں کہ تم مرد پرست ہو۔۔
تم کو ابھی عورت کو وہ عزت دینی نہیں آئی
جو تم مرد کو دیتی ہو۔
تم کو مرد کی خدمت کرکے جو تقویت ملتی ہے
وہ تم کو عورت کی خدمت میں نہیں ملتی
اس میں تمھارا قصور نہیں
تم صدیوں سے مردوں کی باندی اور غلام رہی ہو
اس میں تمھارا ہی قصور ہے
تم نے صدیوں سے اس غلامی کو اپنے سر کا تاج سمجھا
اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی
تم نے اپنے گریبان میں جھانک کر کبھی نہیں دیکھا
تم نے بیٹیوں کی ماں بننے کے بجاۓ بیٹوں کی ماں بننا چاہا
کیونکہ تم مرد پرست، تمہاری بیٹی مرد پرست اور اس کی بیٹی مرد پرست۔۔
اپنی عزت کرو، اپنی صنف کی عزت کرو
جانو کہ انسان قابل قدر ہے اس کی صنف نہیں
اس کا مقام اس کا کردار طے کرتا ہے، اس کی صنف نہیں
اے مرد پرست عورت اپنے مقام کو جانو

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی اور بہت کچھ لکھنا تھا مگر کافی نیند آرہی ہے
بہت سارا پیار
زہرا نقوی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply