کشمیر َاور سی پیک۔۔۔۔ جاویدخان

چین کابحیرہ جنوبی شوریدہ آبی راستہ   ہے۔ جیسے کشمیر شوریدہ ہے اور اب سی پیک شوریدہ زمینی راستہ ہے۔چینیوں کے ذمہ  بہت کچھ جاتا ہے۔جیسے چائے،پودینے کا استعمال اور ریشم۔چینی چائے کی کاشت کیسے کرتے ہیں۔؟ کس ماحول میں کرتے ہیں۔؟اور کب کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا ایک جاسوس،چین بھیجاتھا۔ اسے کہا گیا تھا کہ وہ چائے کے بیج لے آئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی یہ بیج ہند کے میدانوں میں اگانے کا تجربہ کرنا چاہتی تھی۔کمپنی ہر قسم کی تجارت کرنے اور اپنی نو آبادیات پھیلانے کی ماہر تھی۔چینی ریشم کی ایجاد اور پھر اس کی تجارت میں ایک زمانہ تک چھائے رہے۔انھوں نے ریشم حاصل کرنے اور ریشم کا کپڑا بنانے کے فارمولے،دنیا سے پوشیدہ رکھے۔سینکڑوں جاسوس یہ فارمولا حاصل کرنے کی کوشش میں مارے گئے۔شاہراہ ریشم کی کئی شاخیں تھیں۔جوایشیا اور برصغیر سے گزرتی تھیں۔وسط ایشیا کے اندر اندر ا لگ راستے گزرتے تھے۔یہ بحیر ہ جنوبی سے گزر کر جاوا،کولکتہ کے کنارے بے آف بنگال اور پھر بحیر ہ عرب میں سے گزر کر صومالیہ تک سامان پہنچاتی تھی۔ گلگت بلتستان سے گزرنے والا قدیم رستہ  اس کی ایک ذیلی شاخ تھی۔موجودہ سی۔پیک ہو بہو وہی نقشہ  ہے۔بلوچستان کی بندرگاہ پر چینی انجنیئر نوے کے عشرے میں گم ہو تے رہے اور مارے بھی گئے۔اگرچہ عوام میں بندرہ گاہ کا چرچا کچھ سال پہلے ہونے لگاہے۔گوادر کے پانیوں سے آگے عربوں کی ملکیت شروع ہو جاتی ہے۔ جوایک بھاری تجارتی حجم کے ساتھ اَب بھارت میں ہیں۔اِسرائیل 1998 ؁ء تک 20فی صد اِنویسٹمنٹ بھارت میں کر چکا تھا۔آج اس کی شرح میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔

اَمن ایک خوب صورت پرندہ ہے۔یہ جہاں بھی چہکے گا،ہر ایک دانہ دنکا لے کر وہاں پہنچ جائے گا۔جہاں سے یہ اُڑ جائے،وہاں خدشات،شکوک اور معاشی غارت گری آکر ڈیرا ڈال دیتے ہیں۔پاکستان کا اَمن کئی عشروں سے کشمکش کی حالت میں ہے۔اس میں کچھ مجبوریاں ہیں،کچھ غلطیاں ہیں اور کچھ زبردستیاں ہیں۔کچھ اپنوں کی کچھ غیروں کی،کچھ مسلط کردہ،کچھ خوشی خوشی۔سرمایہ کار ایک عرصے سے اپناسرمایہ کہیں اور منتقل کررہے تھے۔مگر اس خاموش معاشی سرکاؤپر کوئی توجہ نہ دی گئی۔کہیں سرمایہ کاروں نے اپنا رخ بنگلہ دیش کی طرف موڑ دیا تھا۔سی پیک  کا ابھی چرچا ہے۔ایک تنگ مگر اچھی سڑک کا۔جو بھاری برفانی علاقوں سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتی ہے۔گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی قراردادوں میں متنازعہ جمو ں و کشمیر ہے۔ماضی بعید میں لداخ اور گلگت بلتستان ایک ہی اکائی تھے۔اور سی پیک نامی رستہ ،جو فی الحال ایک تنگ سڑک ہے۔اس معروف تجارتی راستے کے روپ سے ابھی دور ہے۔،جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔عربوں کا پانی ایک آبی راستہ  ہے تو پانی کے کنارے ان کا وسیع جگ مگ کرتا علاقہ ایک بڑی مارکیٹ بھی ہے۔بظاہر یہ مارکیٹ اب ہمارے ہمسایہ اور اس کے دوستوں کے ہاتھ میں ہے۔چین کا بحیرہ جنوبی بھی پُرامن آبی راستہ  اس لیے نہیں ہے کہ وہاں جاپانی گشتی کشتیوں میں امریکی دوربینیں لگی ہوئی ہیں۔کبھی کبھی تو بھاری بھر کم امریکی جہاز بھی آکر تیرنے لگتے ہیں۔چین آبادی کا ایک بھاری حجم لیے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔اسے اپنی اس بڑی آبادی کا پیٹ پالنا ہے۔وہ عالمی مارکیٹ میں دبے پاؤں،ہنستے مسکراتے داخل ہونا چاہتا ہے۔جیسے وہ ماضی میں چائے اور ریشم لے کر ساری دنیا میں پہنچاتھا۔1947 ء سے قبل کشمیرکی انتظامی تقسیم یوں تھی۔صوبہ جموں،صوبہ کشمیر،صوبہ لداخ اور گلگت بلتستان۔لداخ میں اس وقت د و ہمسایہ حریف ایک دوسرے کی طرف منہ کیے کھڑے ہیں۔بھارت اور چین۔۔حالانکہ لداخ ان دونوں میں سے ایک کا بھی حصہ نہیں ہے۔مگر پھر بھی روز صبح بھارت اور چین کے فوجی ایک مقررہ جگہ پر ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوتے ہیں اور اس عہد کو،جو بھارت اور چین کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد ہواتھا۔ایک بینر پر ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں اور پھر اونچی آواز میں باری باری دہراتے ہیں۔تاکہ عہد کاپالن ہوتارہے اور امن کی بانسری بجتی رہے۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

رہی دوسری سرحد لداخ و گلگت بلتستان،کرگل و سیاچن تو یہاں امن کی فاختہ کب کی اُڑ چکی تھی۔اسے بار بار پکڑ کر بٹھایا گیا مگر وہ پھر پھڑ پھڑا کر اُڑ جاتی ہے۔ شاید یہ پرندہ سمجھ گیا ہے کہ یہاں آشیاں بندی کا ماحول ابھی نہیں بننا۔ بھارت،امریکہ،اسرائیل اور پھر اَب عرب دوست۔کیا بحیرہ جنوبی کے بعد گوادر کے پار بحیرہ عرب کے پانیوں میں بھی کسی وقت امریکی گشتی کشتیاں تیرنے لگ جائیں گی۔؟ کیا لداخ میدان جنگ بن سکتا ہے۔؟ باوجود کہ عہد ہر رو زدہرایا جاتا ہے۔؟ کیا لداخ سے جڑے گلگت بلتستان میں سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم،سی پیک کی منزل تک جاپائے گی۔؟ کیا چین کو سی۔پیک کے لیے اپنے حریفوں سے کوئی معاہدہ کرنا ہو گا۔؟ کہ وہ اکیلا عالمی اور تجارتی تھانیدار نہ بن جائے۔؟ اگر کوئی ایسا معاہدہ پس پردہ ہو گیا تو کیا A -35اَور 370 بھارتی سپریم کورٹ اکتوبر میں فوراً  بحال کردے گا۔؟ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تو پھر کیا ہو گا۔؟ کیا کشمیر کا آسمان اور زمین جنگ کے شعلوں سے بھڑک اٹھیں گے۔؟یہ شعلے کہاں تک جا سکیں گے۔؟امریکہ،اسرائیل اور روس تو یہاں سے بہت دُور ہیں؟۔۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply