ہمیں اپنے ہیروز کا تعارف بھی نہیں کرانا آتا ۔ آپ حضرت حسین رض کی مثال ہی لے لیں ۔ دنیا کی تحریری تاریخ میں اپنے اصولو ں کی خاطر کسی بھی ہستی نے اتنی دردناک قربانی نہیں دی جتنی حضرت حسین ؓ اور ان کے خانوادے نے دی ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان کی جدو جہد کو دنیاکے علم سیاست میں وہ پہچان نہیں دلوا سکے جس کی وہ حقدار تھی ۔ ہم نے اتنا اہم موضوع بھی مولانا حضرات اور ذاکروں کے حوالے کر دیا ۔ جو سجدے کی اجازت میں اسلام کی آزادی سمجھتے ہیں ان کو حسین رض کے انکار کے فلسفے کی کیا بھنک پڑے گی ۔ ایک عام فہم شخص کو کیا پتہ کہ جب کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی بادشاہت پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو اس کے سامنے انکار کی کیا اہمیت ہے ۔ جب ملک کا اقتدار ایک نااہل ولی عہد کے پاس آجائے ریاست کی ساری مقننہ ، ساری اشرافیہ اورفوج ایک پیج پر ہوجائیں۔ چیف جسٹس ، مفتی سب سر خم تسلیم کرچکے ہوں لیکن دوسری جانب دین کے قرآنی فلسفہ” و امرہم شوری بینہم “پر حملہ ہوجائے تو اس کے خلاف کیسے کھڑا ہونا ہے ۔
حضرت حسین ؓ کی قربانی بیان کرتے ہوئے جو توجیہ ہم پیش کرتے ہیں وہی بہت کمزور ہے مثلاً آپ اکثر یہ دلیل سنیں گے کہ دراصل یزید شرابی تھا ، بدکار تھا وغیر ہ وغیرہ اس لئے حسین ؓ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔
یہ دلیل آپ پولیٹیکل سائنس کے کسی طالبعلم یا جدید طرزِ ریاست کے کسی مغربی دانشور کے سامنے رکھیں گے تو اسے یہ بات اپیل نہیں کرے گی کہ یہ اتنی بڑی برائی نہیں ہے جو ریاست کا سارا نظام درہم برہم کر دے یا جس کی خاطر اتنی بڑی قربانی کی ضرورت آن پڑے ۔ اس وقت دنیا میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں صرف چند بنیادی اصولوں کا فرق ہے ۔وہ ملک ترقی کا زینہ طے کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جنہوں نے ان اصولوں کو اپنا لیا اور ان ممالک میں انسانیت سسک رہی ہے جنہوں نے ان اصولوں کو ابھی تک نہیں اپنایا۔ ان اصولوں میں سر فہرست شخصی آزادی ، جمہوریت ( شورائیت) ، رول آف لاء ، انصاف ، برداشت اور انسانی مساوات ہیں ۔ جمہوریت کی ضد آمریت ہے ۔ دنیا بادشاہت سے نجات حاصل کر چکی ہے ۔ البتہ جن ممالک میں آمریت کے پنجے ہیں وہ ایک صحتمند معاشرے کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں ۔ ترقی کے یہی وہ اصول ہیں جو حسین رض جیسی دانا شخصیت کو سمجھ آگئے تھے کیونکہ ان کے نانا کے دین کی تعلیمات میں یہی باتیں نمایاں تھیں
دنیا کو بتانا ہوگا کہ دنیا نے رول آف لاءکے لئے پہلا تحریری دستاویزی معاہدہ میگنا کارٹا 1215ءمیں سائین کیا اور پہلی دفعہ بادشاہ کو قانون کے سامنے پابند کیا ۔حسین رض کے ناناﷺ کئی صدیاں پہلے ایسا نظریہ پیش کرچکے تھے جس میں انصاف پہلی ترجیح تھی ۔یزید کی ولی عہدی میں خطرہ تھا کہ اسلامی ریاست میں بھی قیصر و کسریٰ کی ملوکیت کا گھن لگنے والا تھا۔ دنیاکو بتانا ہوگا کہ دنیا میں سب سے پہلے آمریت کے خلاف جس نے علم بلند کیا وہ حسین ؓ تھے ۔اور اس جدو جہدکے لئے جو حسین ؓ نے راستہ منتخب کیا وہ بغاوت والا ، فساد فی الارض والا ، جتھے بنانے والا اورلوگوں کو مسلح کرنے والا نہیں تھا ۔ دنیا آج نیلسن منڈیلا کے پُرامن احتجاج کی مثال دیتی ہے ۔ گاندھی کے نون وائلنس نظریات کا حوالہ دیتی ہے اور مارٹن لوتھر کنگ کے پُرامن لانگ مارچ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا کو بتا نہیں سکے کہ سب سے پہلا پُرامن لانگ مارچ حسینؓ کا تھا۔ ۔مدینے سے مکے اور مکے سے کوفے کی جانب سفر میں آپ ؓ شمع بجھا کر جانے کا کہتے تو نظر آتے ہیں لیکن لوگوں کو بغاوت پر اکساتے نظر نہیں آتے ۔ جہاں تک بات ہے اصول کی تو اس معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں ۔
حسین ؓ کی جدو جہد کوعلم سیاست کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے ۔ دنیا کے ہر آزادی پسند،ہیومن رائیٹس ، اور پُرامن احتجاج کرنے والے ہر یونینسٹ ، اوربنیادی حقوق کا آوازہ بلند کرنے والے کو بتانا ہوگا کہ انکار کیسے کرتے ہیں یہ حسین ؓ سے سیکھو ۔ ڈائیلاگ اور مذاکرات پر یقین رکھنے والوں کو جا کر وہ بات سنانی ہوگی کہ حسین ؓ نے یزید کی فوج سے کہا کہ مجھے اس کے پاس لے جاؤ میں اس سے خود مکالمہ کر لوں گا۔ لیکن جابر حکمران کی ظالم فوج انہی پر ان سے ووٹ آف کانفیڈینس لینا چاہتی تھی ۔ دنیا کو بتانا ہوگا کہ یہ دنیا حسین ؓ کے اسوہ سے سیکھے کہ جب فریڈم آف ایکسپریشن ،رائٹ آف ووٹ ، فریڈم آف اپوزیشن اور فریڈم آف اسپیچ پر قدغن لگانے کی کوشش ہو تو انکار کیسے کرنا ہے ۔ جدید دنیا کو بتانا ہوگا کہ اس دنیاکی تاریخ میں کسی نے اگر سب سے پہلے آمریت کو سب سے بڑی برائی سمجھا تو وہ حسینؓ کی ذات تھی ۔ اگرحسین ؓ کی جدوجہد کو ریسرچ ورک نہ بنایا گیا تو دنیا تو بہت دور ہم اپنے ہی مسلمان طلباءکو یا تومصائب سنا کر رلائیں گے یا فرقہ کی آگ میں جھونک کر دین سے بھگائیں گے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں