ہمیں تم یاد آتے ہو

اے پی ایس کے شہیدوں کے نام
ایک خط

میرے پیاروں گو تمہیں یاد کرنے کے لئے مجھے کسی سولہ دسمبر کے آنے کا انتظار نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی تمہارا دُکھ منانے کے لئے مجھے کسی خاص تاریخ اور موقع کی ضرورت ہوتی ہے۔ دن اور رات کہ کسی نہ کسی پَل تمہاری یاد میری آنکھیں ضرور نم کر دیتی ہے ۔ روز سوشل میڈیا پہ ایسی کوئی نہ کوئی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔ جسے دیکھ کر میری آنکھوں میں تمہاری تصویریں پھرنے لگتی ہیں۔
دو ستمبر کا دن تھا جب پچھلے برس تمہارے ایک بھائی ایلن کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل سے ملی تھی۔ وہ بھی صرف تین سال کا تھا جب تم سب کے ساتھ کھیلنے جنت میں چلا گیا۔
گو اسکے جسم نے گولیوں کی تکلیف نہیں سہی لیکن اُنہی انَ دیکھی گولیوں سیے بچنے کے خوف نے اسے بحیرۂ روم میں یوں ڈوب جانے پر مجبور کردیا۔
جب اس کی لاش ملی تو مجھے تم سب بہت یاد آئے اس کے جوتے کپڑے اس کے مردہ جسم پہ سجے تھے اور اس کے پرسکون چہرے پہ ویسی ہی مسکراہٹ تھی جیسی تم سب کے چہروں پہ تھی اور ہم تمہیں کیسے بھول سکتے ہیں۔
تمہیں بتاؤں کہ یہ دنیا پہلے سے زیادہ بدترین اور ناقابل برداشت جگہ ہو چلی ہے۔

کہتے ہیں وقت بڑا مرہم ہوتا ہے لیکن اس گزرتے وقت نے ہمارے زخم بہت گہرے کر دئیے ہیں کبھی فلسطین میں تمہارے بہن بھائی نشانہ بن جاتے ہیں اور کہیں یمن میں معصوم بچوں کی موت ہمارا زخم ہرا کر دیتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ موت کے فرشتے جن بچوں تک نہیں بھی پہنچ پاتے ان کو زندہ دیکھ کر زندگی خود شرمندہ ہو جاتی ہے اور موت سے سوال کر بیٹھتی ہے کہ یہ زندہ کیوں ہیں۔ تمہارا الیپو سے تعلق رکھنے والہ ایک پانچ سالہ بھائی اومران دقنیش کی جب خاک و خون میں اَٹی تصویر دیکھی ۔ اس کو اکیلا ایمبولینس کی سیٹ پہ بیٹھا دیکھ کہ دل کانپ اٹھا۔ سنا ہے دنیا میں چھ ارب سے زیادہ لوگ رہتے ہیں کیا کوئی بتا سکتاہے کہ اومران کا قصور کیا ہے؟ زندگی اس کے زندہ رہنے پہ نوحہ کناں تھی اور موت شرمندہ تماش بین۔
سنا ہے اس کا بڑا بھائ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا خوش نصیب تھا اب تم لوگوں کے ساتھ سکون اور آرام سے ہوگا۔

میرے فرشتو,
میں یہ دکھ تمہارے ساتھ بانٹ رہی ہوں کہ تم اس جہاں کے مکین بن چکے ہو جہاں تمہیں ہم جیسے دکھ نہیں جھیلنے پڑتے۔ مگر مجھ جیسی مائیں روز تم جیسے جانے والوں کے بین کرتی ہیں۔ کیا کریں مائیں جو ہیں سنا تھا ماؤں کو صبر مشکل سے آتا ہے مگر میرے پیاروں سچ کہوں ہم ماؤں کو اب کبھی صبر نہیں آنے والہ تمہارا دکھ کیا کم تھا کہ ہر آنے والہ دن ایک نئے دکھ کا سورج طلوع کرتا ہے۔ ابھی کچھ ماہ گزرے توحید پارک میں مائیں اپنے بچوں کے ساتھ ہنستی مسکراتی آئیں تھیں لیکن کچھ وحشی اور ظالم ان کا ہنسنا برداشت نہیں کرسکے اوران کے مسکراہٹوں کو ہمیشہ کے لئیے چھین لیا۔
کسی کی لعل و گہر خاک ہوئے تو کہیں بچوں سے اُن کی جنت کو چھین لیا گیا۔ پتہ ہے اب میں کبھی توحید پارک کے پاس سے نہیں گزرتی کہ بہت سے معصوم لوگوں کی چیخیں اور آہیں میرا پیچھا کرتی ہیں۔

اب کیا کروں اے پی ایس میں تو میرے باقی بچوں نے مجھے حوصلہ دیا اور ہم نے امید کے دئیے جلا کر تمہارا غم بھولنے کی سعی کی۔ لیکن تمہارا غم ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ ہم جب تک زندہ ہیں تمہیں کبھی بھلا نہ پائیں گے۔ ہر بار جب کسی بچے کی گولیوں سے چھلنی لاش کی تصویر آخبار میں چھپتی ہے تو نہ جانے تم لوگوں سی کیوں لگتی ہے۔ بس نام نہیں یاد آتا کہ ہم نے اتنی لاشیں دیکھیں ہیں کہ نام اب یاد نہیں رہتے لیکن ابھی کچھ دن پہلے جب ناصر شفیع کی لاش مقبوضہ کشمیر میں گولیوں سے چھلنی ملی تو سمجھ نہیں آیا کہ گیارہ برس کے بچے کون سا آنتک وادی تھا کہ جس کو انڈین فوج نے نشانہ بنایا۔ لیکن میرے پیاروں ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا جو اس دنیا میں ہم جیسی ہزاروں مائیں پوچھ رہی ہیں اپنے پیاروں کی لاشیں گود میں سمیٹے۔
اور یہ دسمبر کا مہینہ پھر ایک قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔ آب کی مرتبہ موت کا کھیل حلب میں کھیلا گیا ہے۔ ایک تصویر دیکھی تو لگا سولہ دسمبر کا سیاہ دن حلب میں پہلے ہی آچکا ہے۔ تصویر میں ایک ماں ہے جو کھڑی ہوئ ہے اور زمین پہ معصوم بچوں کی لاشوں کی قطاریں لگی ہوئ ہیں۔ کیسے بد نصیب بچے ایسے پھولوں کے جیسے کہ جن پہ بہار آنے سے پہلے خزاں کا موسم آگیا ہو۔ سچ پوچھو بچوں تو میں اُن کے چہروں اور تمہارے چہروں میں فرق نہیں کر پاتی۔ بس تم خوش نصیب تھے کہ اپنے پیاروں کے ہاتھوں اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچے نوحوں، آنسوؤں اور سسکیوں کے جلَو میں پھولوں کی چادر تمہیں نصیب ہوئ۔
لیکن حلب کے شہید ہونے والے تمہارے بہن بھائیوں کو مرنے کے بعد قبر نصیب ہوگی یا نہیں کوئ نہیں جانتا۔ کیوں کے حلب کا تو پورا شہر ہی قبر بن چکا ہے۔ کیا کہوں حلب کے شہید بچوں کو
کہ وہ تو واقعی ایسے موسم میں جدا ہوئے ہیں
کہ درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
آسمانوں سے بارش نہیں موت برستی ہے

اے پی ایس کے شہیدوں میرے پیاروں یہ دنیا اب بد سے بد ترین ہو گئ ہے۔ ہر طرف آگ، خون اور موت ہے جو ہمارے دلوں میں تمہاری یاد کو زندہ رکھتی ہے۔
میرے پیاروں ہمیں تم یاد آتے ہو
ہر خوشی میں اور غم میں
تم سب ایسی جگہ جاچکے ہو کہ تمہیں زندگی اور سلامتی کئ دعا کی ضرورت نہیں
لیکن اس دنیا کو ہے سلامتی کی اس پری کو ڈھونڈنے کی جو ہم سے روٹھ کر دور انجانے دیس جا بسی ہے۔
ہمیں تم یاد آتےہو کہ آج پھر سولہ دسمبر کا دن ہے۔
وہی دن جب دو برس پہلے تمہاری ماؤں نے آخری بار تمہاری پیشانی کا بوسہ دیا تھا۔
اور پھر کبھی تمہیں دیکھ نہ سکیں۔
اور اے جنت کہ باسیوں اگر ہو سکے تو رَب سے کہنا کہ ہماری رُوٹھی ہوئ امن کی پری کو واپس بھیج دے تا کہ پھر کوئ سانحہ اے پی ایس نہ ہو اور حلب، فلسطین، یمن اور کشمیر بلکہ دنیا میں پھر کبھی بھی کہیں بھی کوئ بچہ اپنی ماؤں کی گود میں خاک وخون اور موت کی ردا اوڑھ کر نہ پہنچے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہت سے دعاؤں کے ساتھ
تمہارے وطن میں بسنے والی ایک ماں

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply