جب مظلوم کی آہ عرش سے ٹکرائے گی۔۔۔۔عبداللہ قمر

پنجاب پولیس انسانیت کی ساری حدیں پار کر چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ذہنی طور پر معذور شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اتنا بدترین تشدد  دیکھنے  کے بعد لوگ تلملا اٹھے۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ  تشدد کے نشانات تھے، جسم کو نوچا گیا تھا، ڈاکٹرز کی آراء کے مطابق استری وغیرہ سے جلایا بھی گیا تھا۔ ذہنی طور پر معذور شخص پولیس اہلکاروں کو خدا کا واسطہ بھی دیتا رہا اور رحم کی بھیک بھی مانگتا رہا۔ مگر پولیس اپنے روایتی رویے کے مطابق اس پر تشدد کرتی رہی۔ پولیس نے صلاح الدین کے ساتھ وہ رویہ  اپنایا،جو کسی غدار یا جنگی قیدی کے ساتھ بھی روا  نہیں رکھا جاتا۔۔۔۔ پولیس نے صلاح الدین کے والدین کو بتانا بھی مناسب نہ سمجھا۔

بہرکیف، صلاح الدین پولیس کی حراست میں دم توڑ گیا۔ اس کے بعد صلاح الدین کے والدین کو اس کی موت کی اطلاع دیے بغیر پوسٹ مارٹم کروا دیا گیا۔ اور پوسٹ مارٹم میں موت کی وجہ دل کا دورہ بتایا گیا اور پوسٹ مارٹم بورڈ کے ڈاکٹرز نے کہا کہ صلاح الدین پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔ ڈی پی او رحیم یار خان نے بھی چاہتے نہ چاہتے ہوئے یہ بات کہہ دی کہ صلاح الدین پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔ آر پی او بہاولپور نے بھی بڑی ڈھٹائی سے یہ بات کہہ ڈالی۔ مجھے ایک  بات سمجھ نہیں آتی پولیس آفیسرز ہونے کہ باجود انہیں اس بات کا ادراک کیوں نہ تھا کہ “صلاح الدین پر تشدد نہیں ہوا” یہ بیان عوام بری طرح مسترد کر دیں گے۔ سوشل میڈیا  پر وہ ویڈیوز اور تصاویر مکمل طور پر وائرل ہو چکی ہیں جن میں  واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ صلاح الدین کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پولیس کے تشدد نہ کرنے کے دعوے پر سب سے بڑا سوال وہ FIR ہے جو صلاح الدین کے والد کی درخواست پر دی گئی ہے جس میں متعلقہ پولیس اہلکاروں جن میں DSP اور SHO کے نام بھی شامل ہیں۔ اس FiR میں پولیس اہلکاروں کو دفعہ 302 کے تحت چارج کیا گیا ہے جو قتل کی دفعہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر پولیس نے تشدد نہیں کیا تو کس طرح ممکن تھا کہ پولیس وہ FIR ہونے دیتی۔ خیر اب وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر متعلقہ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔ مگر ابھی تک اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی  ہے۔ اور نہ  ہی کسی حکومتی نمائندے نے صلاح الدین کے خاندان کو اعتماد میں لینے اور انصاف کی امید دلانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں عمران خان یا عثمان بزدار سے  زیادہ تو اپنے وکلاء اسامہ خاور اور حسن نیازی سے انصاف دلانے کی امید ہے۔


ابھی قوم اس معاملے کو لے کر غم و غصے کا اظہار کر رہی تھی کہ اگلے ہی روز لاہور میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہو گیا۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کے تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک ملزم دم توڑ گیا۔
اس واقعے کو بھی ابھی ایک ہی دن گزرا ہے کہ کل لاہور  میں ایک باوردی پولیس والا ایک بوڑھی اماں سے بدتمیزی کر رہا ہے بلکہ اس کی تذلیل کر رہا ہے۔ کیا وہ بوڑھی اماں پولیس کا یہ رویہ دیکھنے کے لیے ٹیکس دیتی ہے۔ کیا پولیس اس طرح لوگوں کی جان و مال اور عزت کا دفاع کرتی ہے۔ یہ واقعات صرف تین سے چار دن کے اندر ہوئے ہیں۔ ماضی بھی ایسے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ ہم کیا کریں گے دہشتگردوں کو اس ملک سے بھگا کر جب ہمارے عوام کے لیے پولیس بھی خطرہ ہے۔ لوگ پولیس سے ڈرتے ہیں کیونکہ یہ تھانہ کلچر لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ کر دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پولیس کے اس رویے کے نتیجے میں بننے والے ماحول کا سب سےزیادہ نقصان عمران خان کو ہو گا۔ عمران خان صاحب اگر آپ کو خبریں صرف ٹی وی سے ہی ملتی  رہیں تو دو سالوں کے اندر اندر آپ کی بائیس سالہ  محنت ضائع ہو جائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان دونوں اس معاملے پر چپ ہیں۔ اور ان عہدوں پر ہونے  کے باوجود چپ رہنا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے  جب عرش والے  نے زمین پر  ذہنی طور پر معذور صلاح الدین کے ساتھ ظلم ہوتے دیکھا ہو گا تو اسے ترس نہ  آیا ہو گا۔۔؟ جب عرش والے   رب نے  بوڑھی اماں کو  ذلیل ہوتے دیکھا ہو گا تو اسے ترس نہ  آیا ہو گا۔۔؟ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر پولیس ریفامز کی طرف توجہ دے۔ اور پولیس کو باقاعدہ نوٹیفکیشن ایشو کیا جائے کہ وہ شہریوں کے ساتھ اخلاقیات کے  دائرے کے اندر رہتے ہوئے بات کرے تاکہ لوگ ظالم کے سامنے اپنی بے بسی پر رونے کی بجائے اپنی شکایت لے کر پولیس کے پاس جائیں۔ ایک بات یاد رکھیں مظلوم کی آہ میں اور رب کے عرش کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اور جب مظلوم  کی آہ رب کے عرش سے ٹکرائے گی تو یقیناً ظلم کرنے والے کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ جس کا ایک مظہر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صلاح الدین کسی بہت با اثر باپ  کا بیٹا یا کسی بڑی یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ نہیں تھا بلکہ وہ تو ذہنی طور پر بھی معذور تھا اور نہ ہی اس کا خاندان بہت  زیادہ پڑھا لکھا ہے کہ وہ میڈیا اور قانون کی باتوں  کو سمجھتے ہوں مگر سوشل میڈیا صلاح الدین کے ورثا کی آواز بن چکا ہے۔ ہر بلیٹن میں صلاح الدین کا تذکرہ ہو رہا ہے اور انصاف کی اپیل کی جا رہی ہے۔ ٹوئیٹر پر ایک یا دو نہیں بلکہ صلاح الدین کے لیے تین ٹرینڈز پینل پر آ چکے ہیں۔ اگر ٹیکینکلی دیکھا جائے ان ایام میں جب میڈیا پر کئی قومی اور بین الاقوامی ایشوز چل رہے ہیں paid campaign بھی اتنی وائرل نہیں ہو سکتی تھی مگر یہ اس مظلوم  کی آہ ہے کہ پورا پولیس ڈیپارٹمنٹ سر جوڑ کر بیٹھا ہے۔

Facebook Comments

Abdullah Qamar
Political Writer-Speaker-SM activist-Blogger-Traveler-Student of Islamic Studies(Eng) at IOU-Interested in International Political and strategic issues.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply