چراغ، یاک اور بیگم۔۔۔۔۔سید مہدی بخاری

پامیر کا دل اور واخان کاریڈور کی وادی بروغل میں دمکتی کرمبر جھیل تک پہنچتے مجھے مسلسل پیدل چلنے کی تھکاوٹ سے بخار ہو چکا تھا۔میرا پورٹر سیف اللہ جھیل سے واپسی والے دن میرے پاس آیا اور بولا “صاحب ایک گزارش ہے۔ آپ کو بخار بھی ہے اگر آپ واپسی پر گھوڑے پر چلے جاؤ تو اچھا ہو گا۔ ایک گھوڑے والا جھیل پر آیا ہے وہ میرا رشتہ دار ہے۔ مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ ہمارا مال مویشی(یاک) جھیل سے آگے گئے ہوئے ہیں اور چار پانچ یاک گم ہیں۔ وہ باقی ریوڑ سے بچھڑ کر کہیں آگے پیچھے نکل گئے ہیں۔ میں اپنے رشتے دار کے ساتھ انہیں تلاش کرنے جانا چاہتا ہوں آپ گھوڑے پر بیٹھو اور سیدھا سا راستہ ہے آپ کو معلوم ہے۔ گھوڑا راستہ خود بھی جانتا ہے آپ کو وہ چھ گھنٹوں میں لشکر گھاس پہنچا دے گا جہاں آپ نے ایک رات رکنا ہے۔ اپنا قیمتی سامان کیمرا بیگ وغیرہ ساتھ لے جاؤ،وہ ہم گھوڑے کی پشت پر زین کے ساتھ باندھ دیں گے۔ باقی ٹینٹ، سلیپنگ بیگ اور کھانا وانا ہم لوگ لے آئیں گے۔ کل صبح ہونے سے پہلے سارا سامان آپ کے پاس ہو گا”

مجھے یہ آفر سن کر راحت محسوس ہوئی کہ سردی کی وجہ سے میری طبیعت خراب تھی۔ یہ ستمبر کا موسم بلند جھیلوں پر انتہائی سرد ہوتا ہے۔کرمبر جھیل سے لشکر گھاس تک سارا راستہ کھلے گھاس کے میدان ہیں۔ ہندوکش پہاڑی سلسلے میں یہ گھاس کے میدان برف پوش پہاڑوں میں گھرے ہیں۔ ان پہاڑوں سے رال کی صورت ٹپکتے گلیشیئرز ہیں۔ ان گھاس کے میدانوں میں مارموٹ کی بہتات ہے یا پھر یاک کے ریوڑ گھاس چرتے پھرتے ہیں۔میلوں انسان کا وجود نہیں۔ نہ کوئی آبادی ۔۔۔ مکمل تنہائی، وحشت، برفیلے پہاڑوں کے دامن اور وادی میں چلتی تیز برفیلی ہوائیں جو گھاس کو لہراتی ہیں تو ایسی تیز سرسراہٹ سنائی پڑتی ہے جیسے ہزاروں سانپوں کی سرسراہٹ۔ میں نے آفر قبول کر لی۔ سیف اللہ نے کیمرا بیگ اور ٹرائی پوڈ گھوڑے کی پشت پر زین کے ساتھ باندھا۔ میں گھوڑے پر سوار ہوا۔۔

دم رخصت میں نے اپنے پورٹر سیف اللہ سے پوچھا کہ یار اس گھوڑے کا نام کیا ہے ؟ ۔۔۔ بولا “چراغ” ۔۔۔ چراغ جس کا گھوڑا تھا وہ شخص چلتے وقت بولا کہ جب گھوڑا آہستہ ہو جائے یا رک جائے تو آپ نے اسے “چھو” کہنا ہے۔ یہ سن کر گھوڑا چلنے لگے گا اور جب روکنا ہو تو اس کی بھاگ کھینچنا یہ رک جائے گا۔۔

چراغ کا پاسورڈ معلوم کر کے میں نے اسے “چھو” کہا۔ چراغ چلنے لگا اور مجھے لے کر ان کھلے پہاڑی گھاس کے میدانوں میں گم ہو گیا۔ تین گھنٹے تو سب ٹھیک رہا۔ چراغ جہاں سست پڑتا میں اسے “چھو” کہتا اور وہ ایکدم چست ہو کر رفتار بھی تھوڑی بڑھا دیتا۔چراغ چلتا رہا بلکہ چراغ جلتا رہا۔۔۔ چلتے چلتے زین پر بیٹھے طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو میں نے بوریت سے تنگ آتے ہوئے نہ جانے کیوں مستی میں تین بار چراغ کو ” چھو چھو چھو” کہہ دیا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تین بار “چھو” کہنے سے چراغ کا ایڈوانس گیئر لگ جاتا ہے۔ چراغ نے ڈھلوان پر ایکدم تیز رفتار پکڑ لی۔ میں زین پر سنبھل نہ پایا۔ میں نے اس کی رفتار سے ڈر کر اس کی لگام پورے زور سے کھینچ دی۔ لگام کھینچنا تھی کہ چراغ بدک گیا۔ اس نے اپنی اگلی دونوں ٹانگیں زمین سے اٹھا دیں۔ میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا اور مجھے لگا کہ بس چراغ مجھے گرا کر پیروں تلے رول جائے گا۔

نہ جانے کیسے خود کو بچانے کے چکر میں میرا ہاتھ زین کے فرنٹ پر پڑ گیا میں نے مضبوطی سے زین تھامی رکھی۔ گرنے سے بچ گیا۔ چراغ نے ہنہنانا شروع کر دیا اور وہیں کا وہیں جامد ہو گیا۔ میں اس جھٹکے سے سنبھلا، اوسان بحال ہوئے تو پانچ منٹ میں چراغ کی زین پر چپ چاپ بیٹھا رہا۔ چراغ کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرا کہ شاید اس سے چراغ کو محسوس ہو کہ اس کا سوار اس سے پیار کرتا ہے۔

بلآخر حالات نارمل ہوئے تو میں نے چلنے کی غرض سے چراغ کو “چھو” کہا۔ چراغ نہ ہلا۔۔ میں نے پھر ذرا زور سے “چھو” بولا مگر چراغ ٹس سے مس نہ ہوا۔میں نے تین چار بار “چھو چھو” کیا مگر بے سود۔۔ آخر تھک کر میں نیچے اترا۔ چراغ کی لگام میں ہاتھ ڈال کر اسے تھوڑا چلانے کی کوشش کی تا کہ یہ کچھ ہلے تو پھر سوار ہو جاؤں مگر چراغ نے پاؤں کی مٹی نہ چھوڑی۔ میں نے لگام میں ہاتھ ڈالے پورا زور لگا ڈالا مگر چراغ بت بن چکا تھا۔

ہر حربہ آزمانے کے بعد میں تھک گیا۔ اماں کی یاد کرائی ہر سورت پڑھ کر چراغ پر “چھو” کرتا۔ کلمے پڑھ کر اس پر پھونکے یعنی “چھو” کیے۔ چاروں قل شریف کے ساتھ استغفراللہ ربی من کل ذنبی و اتوب علیہ کا ورد کر کر کے “چھو” کیا۔ لا الا اللہ انت سبحانک انی کنت من الظالمین کی تسبیح پڑھ کے “چھو” کیا الغرض مجھے جو جو اماں مرحومہ نے بچپن میں پڑھایا تھا سب “چھو” کر ڈالا مگر چراغ نے میرے دانت کھٹے کیئے رکھے اور میں کف افسوس ملتا رہا۔

ایک آخری کوشش کے طور پر حکیم امت علامہ اقبال کا کلام پڑھ کر “چھو” کیا کہ شاید چراغ کے اندر غیرت ملی کا چراغ جل جائے

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
ایک تو سخت مصیبت میں ہے یا الہی

مگر چراغِ سخت جاں پر کلامِ نرم و نازک بھی بے اثر گیا۔

اتنے میں پانچ چھ یاک کا چھوٹا سا ریوڑ آ نکلا۔ انہوں نے مجھے اور چراغ کو دیکھا تو وہ یوں کھڑے ہو گئے جیسے پلاسٹک کے مجسمے ہوں۔ بالکل ساکت۔ پلکوں اور آنکھوں پر یاک کے بال تھے شاید ان بالوں کی اوٹ میں پلکیں جھپکتے ہوں مگر وہ میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ایسا گمان ہونے لگا کہ کسی فنکار نے یاکوں کے بت رکھ دیئے ہیں۔ وہ پانچوں یاک بت بنے ہم کو دیکھ رہے تھے۔ شاید یہ ان کی انٹرٹینمنٹ تھی اور میں سورتیں پڑھ پڑھ چراغ پر “چھو” کر رہا تھا مگر چراغ گل ہو چکا تھا۔۔۔

کچھ منٹ گزرے کہ یاکوں کے بگ باس نے گڑگڑانا شروع کیا۔ یہ سفید رنگ کا بڑا یاک تھا شاید باقی یاکوں کا دادا تھا یا بزرگ تھا یا ان کا ونگ کمانڈر تھا۔ حقے کی گڑگڑاہٹ جیسی آواز اس نے نکالی۔ پھر یکدم اس نے پوزیشن لی۔ سر کو جھکایا۔ سینگ چراغ کی سمت کیے اور ایکدم تیزی سے چار قدم بھاگا چراغ کو ٹکر مارنے کی نیت سے آگے بڑھا اور خود ہی بریک مار کر کچھ فاصلے پر رکتے ہوئے اونچا گرجا یعنی گڑگڑایا۔۔۔ وہ یاک اپنے نام سے الف اڑاتے ہوئے “یک” بن چکا تھا۔ اس کی گڑگڑاہٹ میں دھمکی تھی۔ اس کے تیور ٹکر مارنے کے لگ رہے تھے۔ چراغ نے جواب میں ہنہنانا شروع کر دیا۔ یاک گڑگڑایا، گھوڑا ہنہنایا اور میرے طوطے اڑ گئے۔یہ دو مختلف قسم کے جانور تھے ان کے بیچ “پرسنیلٹی کلیش” تو نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ نہ ان کی زبان ایک نہ شکل و صورت و اطوار ایک مگر نہ جانے کیوں وہ بڑا یاک چراغ سے الجھنے کے موڈ میں تھا۔

ان دونوں کی آپسی رنجش و غلط فہمیوں کو دور کرنا مجھ پر اس لیے لازم تھا کہ چراغ کی پشت سے میرا کیمرا بیگ بندھا تھا۔ اگر دونوں آپس میں دست و گریبان ہو جاتے تو ان دونوں کا گریبان تو چاک نہیں ہونا تھا البتہ میرے کیمرا بیگ کے چیتھڑے لازمی اڑ جاتے۔ اس بدمزاج یاک سے مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ باقی چار یاک گھیرا ڈالے بت بنے کھڑے دیکھ رہے تھے۔ میں چراغ پر سوار ہوا اور سوار ہوتے ہی اسے “چھو” بولا۔۔۔ چراغ شاید اس بدلتی صورتحال کے پیش نظر یاک سے ڈر چکا تھا بس انا اس کے آڑے آ رہی تھی۔ اس نے موقع کو غنیمت جانا اور میرے سامنے اپنی انا کا بھرم رکھتے ہوئے قدم بہ قدم چلنے لگا۔ مجھے اتنی خوشی ملی کہ الفاظ میں اظہار ممکن نہیں۔

وہ یک یاک ہمارے برابر چلا اور بار بار چار پانچ قدم ٹکر مارنے کے تیور میں اٹھاتا بھاگتا اور پھر قریب آتے ہی خود ہی بریک لگا لیتا۔ وہ بس ہمیں ڈرا دھمکا رہا تھا۔ چراغ جواب میں ہنہناتا تیز چلنے لگتا۔ اس کا چہرہ مسلسل دائیں ہاتھ چلتے اس یک یاک کی جانب تھا۔ چراغ مکمل دہشت زدہ ہو چکا تھا۔ یاک نے اپنی طاقت منوا لی تھی۔

بلآخر یہ کھیل کچھ منٹ جاری رہا اور یاک رک گیا۔ یاک سے جان چھوٹی تو مجھے تسلی ہوئی۔ مجھے یاک پر شدید غصہ بھی آ رہا تھا مگر کیا کر سکتا تھا۔ میں نے ایسے ہی بھڑاس نکالنے کو کہا ” کتا یاک” ۔۔۔ چراغ نے گردن گھما کر مجھے دیکھا۔۔ دو بار سر کو اوپر نیچے “ہاں” کے انداز میں ہلا کر میری بات پر مہر تصدیق ثبت کی اور پھر باقی کا سارا راستہ خراماں خراماں چلتا رہا۔شام ڈھلے اپنی منزل لشکر گھاس پہنچا۔

اگلی صبح تک میرا باقی کا سامان سیف اللہ لا چکا تھا۔ گھر کو واپسی ہوئی۔ بیگم میری واپسی پر میرے سفری قصے شوق سے سنتی ہے۔ اس کو یہ سب وقوعہ سنایا تو ہنستی رہی۔ پھر ایکدم بولی ” آپ چترال سے میرے لیئے کیا گفٹ لائے ہیں؟ ” ۔۔ میں حسب معمول کچھ نہیں لایا تھا۔ بات اور بیگم ٹالنے کو میں نے اسے کہا ” چھو” ۔۔ یعنی چلو پھرو مگر وہ چراغ بن چکی تھی۔ اس میں چراغ کی فطرت عود آئی تھی۔ بیگم بدک گئی۔بیگمات کی لگام کسی کے ہاتھ نہیں ہو سکتی۔ آخر کار اسے اس کے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں اعلی قسم کا ڈنر کروانے کی آفر دی ہے تو اب وہ خود ہی خوش ہو کر “چھو” ہو گئی ہے۔

میں اس وقت تین مختلف قسم کے جانداروں سے ستایا اپنے جھلستے زخموں پر مرہم لگا رہا ہوں یعنی دھوپ سے جلی اپنی جلد پر شہد اور لیموں کا مکسچر لگا رہا ہوں تا کہ رنگت بدلے۔ بیک ڈراپ میں بیگم نے جان بوجھ کے موبائل پر گانا چلا رکھا ہے

کالا رے، سیاں کالا رے ،تن کالا رے من کالا رے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

چراغ بروغل کی وادیوں میں کہیں گھاس چر  رہا ہو گا۔ غنڈہ یاک اپنے اوباش گینگ کے ساتھ وہیں پامیر میں کہیں کسی گلیشیئر کے آس پاس گشت کر رہا ہو گا اور بیگم نظروں کے سامنے موجود ہے۔ میں نے تو بیگم کے لئے جب جب دعا کی یہی کہ میرے سینے پر تھوڑے تھوڑے مونگ دلنے کو پروردگار اسے سدا سہاگن رکھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply