• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے:وزیر اعظم صاحب کے نام خط۔۔۔سعدیہ سلیم بٹ

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے:وزیر اعظم صاحب کے نام خط۔۔۔سعدیہ سلیم بٹ

خان صاحب!
السلام علیکم!
میں شروع کروں گی 2007 سے جب زمانہ طالبعلمی ختم ہوا تھا اور ابھی روزگار کی تلاش جاری تھی۔ ایسے میں فارغ وقت گزارنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لینا شروع کیا۔ ایک تو یہ کہ نوکری کی تلاش کا یہ ذریعہ تھا  اور دوسرا حصول ِ علم کا سلسلہ ہو جاتا تھا۔ سیاست میرا ہمیشہ سے پسندیدہ مضمون ہے۔ اور زرداری اور شریف خاندان مجھے ازل سے ناپسند ہیں۔ ایک دن ڈھونڈتے ہوئے تحریک انصاف کی ویب سائٹ ملی۔ پتہ لگا ممبر شپ چل رہی ہے۔ میرا تعلق ایک انتہائی غیر سیاسی خاندان سے ہے۔ ہم میں بچیاں سیاسی وابستگی صرف ٹی وی دیکھتے ہوئے ہی ظاہر کرتی تھیں ۔ اگرچہ میں ہمیشہ کی باغی تھی لیکن کچھ دیواریں توڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے آپ کی تنظیم کی رجسڑڈ ممبر تو نہ بن سکی۔ البتہ وہیں  سے دیکھا آپ ٹوئیٹر پر ہیں تو وہاں آ گئے۔ کچے ذہنوں میں یہی سودا تھا کہ جیسے قائد کا ساتھ طالب علموں نے دیا، ویسے ہی ہم آپ کا ہراوّل دستے ہوں گے۔ آپ پر بھروسہ بہت تھا، ابھی بھی ہے لیکن کچھ ملال ہیں۔ انہی  کے لیے آپ کو براہ راست مخاطب کر رہی ہوں۔ آپ کا ساتھ دینے کی وجہ آپ کی شخصیت کا کرزمہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ہمارے کسی کام کا نہیں۔ آپ کا ساتھ صرف اس لیے دیا کہ آپ کو شوکت خانم جیسا کام کرتے دیکھا تھا۔ آپ کی نیت اور ایمانداری پر یقین تھا۔

2008 کا الیکشن آپ نے نہیں لڑا۔ سخت مایوسی ہوئی۔۔ لیکن ابھی ملکی حالات بظاہر اتنے خراب نہیں تھے۔ چاہے غلط طریقے سے ہی لیکن عوام کو معاشی ریلیف تھا۔ 2013 میں ہم آپ کے ساتھ روئے ہیں اور آپ کے ساتھ ہنسے ہیں۔ ہسپتال میں آپ رہے ہیں، درد ہم نے محسوس کیا ہے۔ ہر موقع پر جب عوام پر ظلم ہوتا تو ہم یہ سوچتے یہاں آپ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔ ہمیں نفرت تھی ان دو خاندانوں سے جن کی خاموش غلامی میں ہم مبتلاء تھے۔ لیکن ہم نے امید نہیں توڑی۔ ایک آنے والی صبح کا خواب ہمارے دلوں کے تہہ خانوں میں پلتا رہا۔ آپ کو دئیے گئے دشنام ہم نے اٹھائے۔ آپ کے لیے گالیاں ہم نے سنیں ۔ آپ نے تو کسی کا منہ نہیں توڑا، آپ کے لیے ہم کھڑے ہوتے رہے۔

پچیس جولائی ہماری زندگیوں میں اتنا ہی یادگار ہے جتنا کسی بہت اپنے کے لیے اتنی بڑی کامیابی کا دن یادگار ہو۔ ہم نے گیارہ سال جس خواب کو پالا تھا، اب وہ آنکھ کی پُتلی سے نکل کر روز ِ روشن کی طرح سامنے آ رہا تھا۔ ہم ووٹ ڈالنے ایسے گئے تھے جیسے لوگ حج کرنے جاتے ہیں۔ چناؤ آپ کا ہوا، خوشی سے نیند اور بھوک ہماری اڑی۔

خان صاحب!
آپ تو ہم سب کو انفرادی طور پر جانتے بھی نہیں۔ کم از کم راقم کو تو بالکل بھی نہیں۔ سو یہ نہ سمجھیے کہ میں آپ سے ان سب باتوں کا ذکر کسی منفعت کے حصول کی خاطر کر رہی ہوں ۔ میں نے پڑھا ہے جب اللہ سے دعا قبول کروانی ہو تو اللہ کے لیے کی گئی نیکی یاد کرواتے ہیں۔ آپ خدا ترس ہیں۔ آپ کو یہ سب اس لیے بتا رہے کہ آپ کو سمجھ آئے کہ ہمارا آپ پر حق ہے۔ آپ کو ہم نے بادشاہ نہیں، صرف بڑا چنُا ہے۔

خان صاحب اگرچہ معیشت کے حالات دگرگوں ہیں لیکن معاشیات کا طالب علم اور کوچہ سود خوراں سے تعلق ہونے کی وجہ سے مجھے اچھے سے معلوم ہے کہ آپ کی کوششیں غلط سمت میں نہیں ہیں۔ ہاں آپ سے غلطیاں مسلسل ہو رہی ہیں۔ اگرچہ مہنگائی نے اس وقت کمر توڑ رکھی ہے لیکن کم از کم مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ یہ آپ کا کیا دَھرا نہیں ہے۔ ہاں ایک گلہ ہے کہ اب آپ کو سال ہو چکا ہے۔ ہم آپ کے درباریوں کی طرح وہ نہیں بول سکتے جو کانوں کو بھلا لگے۔ صرف یہ کہیں گے کہ رفتار خاصی سست ہے۔ آپ تب تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک آپ کی ٹیم بہترین نہ ہو۔ اور خان صاحب! بندوں کو پرکھنے میں آپ بہت کمزور ہیں۔

خان صاحب! ہم تو ٹیکس بلا جھجک دے رہے ہیں ۔ میں تو وہ بندی  ہوں کہ میں نے ٹیکس کلچر پر باقاعدہ ترغیب دی ہے لوگوں کو بساط بھر۔ لیکن خان صاحب! یہ کیا کہ آپ نے تین سو ارب معاف کر دئیے۔ خان صاحب آپ کو پتہ ہے تین سو ارب میں کتنے غریبوں کے کتنے دن گزر سکتے تھے؟ خان صاحب! اگر میں یہ کہہ دوں کہ “بے شرم آدمی! تمہارے باپ کا پیسہ تھا جو بھول جائیں” تو کیسا لگے گا؟۔

اس کے بعد آپ کی سب سے اچھی بات اپنی غلطیوں کو سدھار لینا ہے۔ دنیا اسے یو ٹرن بلائے لیکن ہم اسے ارتقا بلاتے ہیں ۔ خان صاحب آپ کا وسیم اکرم پلس اس عہدے کے قابل نہیں ہے جو آپ نے اسے دے دیا ہے۔ ہم آپ کے یو ٹرن کے منتظر ہیں۔

اور اب وہ بات جس کی تکلیف نے مجھے یہ خط لکھنے پر مجبور کیا۔
خان صاحب اللہ آپ کے بچوں کو زندگی دے! لیکن کل کو قاسم اور سلیمان کی اولاد ہو اور ان کے سامنے قاسم اور سلیمان کو گولیاں مار دی جائیں تو کیا آپ کو درد محسوس ہو گا؟ آپ کا جواب نہ میں ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ آپ باپ ہیں۔ خان صاحب پھر آپ کو ساہیوال والے سانحہ کا درد کیوں محسوس نہیں ہوا۔ اگر محسوس ہوا تو آپ کے پاس کون سے اختیار کی کمی رہ گئی تھی جس نے آپ کو بے حس ہونے ا ور کان لپیٹ لینے پر مجبور کیا؟

خان صاحب صلاح الدین کا سنا ہے؟ بس ایک ٹویٹ خان صاحب؟ کیا صلاح الدین واپس آ جائے گا۔ حضرت عمر نے کہا تھا کہ کسی بھوکے نے بھوک سے مجبور ہو کے چوری کی تو گورنر کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ آپ نے پہلی تقریر میں کہا تھا خود میں بطور قوم رحم پیدا کریں۔ جو درد سانحہ ماڈل ٹاؤن اور مشعال خان کی دفعہ جاگا تھا، وہ اب کیوں نہیں جاگا؟ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ پنجاب پولیس خون کی بھوکی پولیس ہے۔ کیا آپ کے پاس اس مجرمانہ غفلت کا کوئی جواب ہے جو آپ نے برتی ہے؟ کیا یہ ہے وہ پولیس کلچر جس کے ہمیں خواب دکھائے تھے؟۔

خان صاحب!
مجھ جیسے دیوانوں کے لیے پرانے خاندانوں کی غلامی میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ آپ ناکام ہوئے تو عوامی انقلاب آئے گا جو خونی ہو گا۔ اور خان صاحب تاریخ بتاتی ہے ایسے انقلابوں کا پہلا شکار سربراہ حکومت ہو جاتے ہیں۔ اپنے دشمن پہچانیے  اور وہ وعدے وفا کیجیے جن کی سیڑھی پر آپ اس تخت پر آئے ہیں۔ صلاح الدین واپس نہیں آ سکتا لیکن کسی اور بوڑھے کاندھے پر صلاح الدین کا دکھ نہ ڈالیں۔ ورنہ خان صاحب یاد رکھیں!

پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا

Advertisements
julia rana solicitors

والسلام
سعدیہ سلیم بٹ
04 ستمبر 2019

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply