کیونکہ میں ہندو ہوں ۔۔۔حامد میر

برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے سٹی کونسل ہال میں منعقدہ کشمیر سیمینار میں اظہارِ خیال کے بعد باہر آیا تو ایک پرانے دوست کو سامنے کھڑا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس دوست کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور آج کل کیمرج یونیورسٹی میں استاد ہے۔ جب بھی ملتا ہے سب سے پہلے ٹوٹی پھوٹی اردو میں یہ یقین دہانی حاصل کرتا ہے ’’تم اپنے کالم میں میرا نام نہیں لکھے گا اور نہ موتی بھائی کو یہ بتائے گا کہ میں تم کو ملا تھا‘‘۔ میں ہمیشہ اس کو یہ پوچھتا ہوں کہ تم موتی بھائی سے کیوں گھبراتے ہو؟ وہ ہمیشہ یہ جواب دیتا ہے کہ موتی بھائی بہت بہادر آدمی ہے، وہ حسینہ واجد کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے ہم نہیں، اگر اس کو پتا چل گیا کہ ہم بنگلہ دیش سے بھاگ گیا ہے تو اس کو برا لگے گا۔ میں اسے ہمیشہ پروفیسر کہہ کر مخاطب کرتا ہوں اور وہ مجھے بلڈی سویلین کہہ کر خوش ہوتا ہے۔ وہ مجھے ملنے کیلئے کیمرج سے بریڈ فورڈ آیا تھا اور لنچ کی دعوت دے رہا تھا۔ میں نے بتایا کہ سیدھا آکسفورڈ جا رہاں ہوں، وہاں سے اگلے دن لندن جانا ہے تم لندن آجائو۔ پروفیسر مایوس ہو گیا، کچھ سوچ کر کہا آکسفورڈ یونیورسٹی میں تو چھٹیاں ہیں تم کس کے پاس جا رہے ہو؟ میں نے بتایا کہ وہاں بھی ایک استاد ڈاکٹر عدیل ملک سے نیاز مندی ہے، ان سے ملنا ہے، تم بھی ساتھ چلو۔ اس نے کہا مجھے بھی آکسفورڈ میں ایک کام ہے، کیا تم کل صبح مجھے صرف آدھ گھنٹہ دے سکتے ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو پروفیسر نے آکسفورڈ کی بروڈا سٹریٹ پر بلیک ویل بک شاپ کے قریب اپنے ایک دوست کے کافی ہائوس کا ایڈریس دے دیا۔ اسی شام ڈاکٹر عدیل ملک کے ہاتھ کی پکی لذیذ چکن کڑاہی کھا کر میں نے پروفیسر کو فون کیا کہ صبح ملنے کے بجائے آج رات کو مل لیتے ہیں۔ اس نے بتایا وہ آکسفورڈ سے دو گھنٹے دور ہے اس لئے کل صبح ہی ملے گا۔

اگلے دن صبح ہی صبح میں پروفیسر کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس نے پوچھا بڑے دنوں سے تم نے موتی بھائی کے اخبار میں کچھ نہیں لکھا۔ میں نے بتایا کہ موتی بھائی سے حسینہ واجد ناراض ہے اس لئے میں ان کے اخبار میں نہیں لکھ رہا تاکہ ان کیلئے کوئی مشکل پیدا نہ ہو۔ پروفیسر نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولا کہ ہمارے سیاستدان اقتدار میں آکر بدل جاتے ہیں جیسے کہ عمران خان بھی بدل گیا ہے۔ میں نے مسکرا کر اس کا طنز نظر انداز کر دیا۔ ہم نے کافی پی لی تو پروفیسر مجھے بروڈ اسٹریٹ پر لے آیا اور سامنے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ یہاں کی یادگار شہداء ہے۔ 1555ء میں برطانیہ کی ملکہ میری ٹیوڈر نے پارلیمنٹ کے ذریعہ کچھ پادریوں کو یہاں موت کی سزا دی تھی، انہیں زندہ جلا دیا گیا کیونکہ ملکہ کو ان پروٹسنٹ پادریوں کے ساتھ مذہبی اختلاف تھا۔ ان پادریوں کی یاد میں اس جگہ پر ایک مینار قائم کیا گیا جسے ہم یادگارِ شہداء کہتے ہیں۔ پروفیسر نے کہا کہ ڈھاکا کا مینارِ شہداء تم نے دیکھا ہے، وہ بنگالی زبان کے لئے مارے جانے والوں کی یادگار ہے۔ آکسفورڈ کا مینارِ شہداء اپنے مذہبی عقائد کیلئے زندہ جلائے جانے والوں کی یادگار ہے۔ یہ کہانی سنا کر پروفیسر مجھے واپس کافی ہائوس میں لے آیا اور بتانے لگا کہ پاکستان کے چھ وزرائےاعظم اس آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور عمران خان۔ بھارت کے دو وزیراعظم اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ اس یونیورسٹی کے سابق طالبعلم تھے۔ بھارت اور پاکستان کو برطانیہ کی ملکہ میری ٹیوڈر کے نقشِ قدم پر نہیں چلنا چاہئے اور مذہبی اختلاف کی بنیاد پر اقلیتوں کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔ میں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف انفرادی طور پر زیادتی ہو جاتی ہے لیکن ریاست اقلیتوں کے خلاف نہیں ہے۔ پروفیسر نے کافی کا دوبارہ آرڈر دیا اور کہا کہ آج میں تمہیں اپنی ریسرچ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ ملکہ میری ٹیوڈر کو ’’بلڈی میری‘‘ کہا جاتا ہے اور میں اپنی ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس دور کا ’’بلڈی مودی‘‘ ہے۔ پروفیسر نے بتایا کہ وہ آسام اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے پس منظر پر ریسرچ کر رہا تھا لہٰذا اسے ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے نظریات کو سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ یہ جان کر سخت پریشان تھا کہ بھارت کی حکمران جماعت دراصل ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کی طرح ’’اکھنڈبھارت‘‘ پر یقین رکھتی ہے اور صرف جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ نہیں سمجھتی بلکہ آنے والے وقت میں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، میانمار اور افغانستان پر بھی قبضہ کرنا چاہتی ہے جس کے باعث تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

پروفیسر اپنا آئی پیڈ کھول چکا تھا اور مجھے بتا رہا تھا کہ ’’بلڈی مودی‘‘ بڑی ہوشیاری سے مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ایوارڈ حاصل کر رہا ہے اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ پروفیسر نے کہا کہ آپ لوگوں کو کشمیر کے علاوہ آسام کے مسلمانوں کا المیہ بھی سمجھنا چاہئے۔ بی جے پی کہتی ہے کہ سکھ، جین اور بدھ مت کو ماننے والے دراصل ہندو ہیں، یہ سب ہندو بن جائیں۔ اسلام اور عیسائیت غیر ملکی مذاہب ہیں، بی جے پی ناصرف پورے جنوبی ایشیا کو ہندو اسٹیٹ بنانا چاہتی ہے بلکہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنانا چاہتی ہے۔ پروفیسر نے کہا کہ برصغیر میں اسلام عربوں کے ذریعہ آیا، کشمیر میں اسلام وسطِ ایشیا اور ایران کے راستے سے آیا۔ آج مودی عربوں کی آنکھ کا تارا ہے، وسط ایشیائی ریاستوں سے بھی اچھے تعلقات رکھتا ہے لیکن بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صوفی بزرگ حضرت شاہ جلال ؒقونیا میں پیدا ہوئے اور مکہ میں پلے بڑھے، پاکستان کے صوفی بزرگ داتا گنج بخش ؒاور بھارت کے بزرگ خواجہ معین الدین چشتی ؒافغانستان سے آئے۔ بلڈی مودی افغانستان کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ میں نے پروفیسر سے پوچھا کیا تم یہ ریسرچ کتاب کی صورت میں شائع کرو گے؟ پروفیسر نے نظریں جھکا کر کہا پہلے اپنے خاندان کو بنگلہ دیش سے نکالوں گا پھر کتاب شائع کروں گا، بلڈی مودی میرے خاندان کو وہاں تباہ کر دے گا۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے اور وہ لرزتے ہاتھوں میں کافی کا کپ تھامے خوفزدہ لہجے میں کہہ رہا تھا میں بھارت کے مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑی تباہی آتے دیکھ رہا ہوں، ان کا قصور یہ ہے کہ وہ کئی صدیوں پہلے عرب تاجروں کے توسط سے مسلمان ہو گئے تھے، آج وہی عرب تجارت کی خاطر بلڈی مودی کو سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں اور مقامی مسلمانوں کو نظر انداز کر چکے ہیں۔ پروفیسر سے اجازت طلب کی تو اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا ’’بس یہی بتانا تھا کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ بنگلہ دیش سے افغانستان تک پورا جنوبی ایشیا خطرے میں ہے لیکن میرا نام ظاہر نہ کرنا میری فیملی ابھی تک بنگلہ دیش میں ہے، بلڈی مودی میرا فیملی کو نہیں چھوڑے گا کیونکہ میں ہندو ہوں لیکن سب ہندو مودی جیسا نہیں ہوتا‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply