نوشی بٹ کا ڈاکٹر خالد سہیل کے نام خط اور ان کا جواب/2

نوشی بٹ کا خالد سہیل کو دوسرا خط

نوشی بٹ کا جوابی خط
درویش کو نوشی کا آداب!
امید کرتی ہوں سات سمندر پار آپ خیریت سے ہوں گے۔جب میں نے درویشوں کا ڈیرہ پڑھنا شروع کی تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ میری کبھی آپ سے بات ہو گی۔ہر چند کہ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں یہ مشکل نہیں۔لیکن کچھ لوگ فرینڈ ریکوئسٹ قبول کرنے میں بہت زیادہ محتاط ہوتے ہیں۔کتاب ختم کرتے ہی میں نے تہیہ کیا تھا کہ آپ کو ایڈ کرنا ہے۔پھر ہی ریویو لکھنا ہے۔شکر ہے کہ آپ کی بدولت یہ خواہش پوری ہوئی۔
آپ کے سوالوں کے جواب دینے میں مجھے خوشی ہو گی۔میں فوٹوگرافی کلاسز لے رہی تھی۔جس دن میں گری اس دن کافی تیز بارش تھی۔جب میں گھر کے گیٹ پہ پہنچی تو جلدی سے بھاگ کے اندر جانے کی کوشش کی۔تا کہ میرا کیمرہ اور فون گیلا نہ ہو جائے،لیکن میرا پاؤں سلپ ہو گیا اور میں گر گئی۔جس کے نتیجے میں مجھے ٹیل بون انجری کا سامنا کرنا پڑا۔اب تو میں بہت بہتر ہو چکی ہوں۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ میرے والدین کی سیپریشن ہو گئی تھی جو بعد میں خلع پہ ختم ہوئی۔ہم،یعنی میں اور میرا چھوٹا بھائی امی کے پاس تھے۔ابو نے تب تک ہم سے رابطہ نہیں کیا جب تک میں نے خود ان کو تلاش نہیں کر لیا۔اس لیے والد کے ساتھ نہیں رہی۔
آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ مجھے کبھی مرد سے دوستی کے لیے کوشش نہیں کرنی پڑی۔مجھے ہمیشہ مرد کی جانب سے دوستی کی آفر ہوئی۔اب یہ خوش قسمتی ہے یا کیا ہے نہیں معلوم۔میں تو بس پسند کی حد تک ہی بات رکھتی ہوں۔مطلب اگر کسی پہ کرش ہے تو بس ہے۔اس سے کبھی بات نہیں کرنی۔لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔دوستی بہت سے مردوں سے ہے۔اس دوستی میں دونوں طرح کے تجربات شامل ہیں۔اچھے بھی اور برے بھی۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو بھی مرد میرے دوست بنے۔انہوں نے دوستی نبھائی اور نبھاتے ہیں۔اور ابھی تو بڑی زندگی پڑی ہے۔آگے کیا ہوتا ہے کیا معلوم۔
آپ نے کہا آپ سے کچھ بھی پوچھ سکتی ہوں۔میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنی زندگی کے وہ واقعات بھی شئیر کریں جو کبھی کسی سے نہیں کیے۔کیا کبھی آپ نے ایسا کچھ بھی کیا جس کی وجہ سے آپ کوئی پچھتاوا محسوس کرتے ہوں۔
میں کبھی کبھی ایسے فیز میں ہوتی ہوں جب بہت کچھ بتانا چاہنے کے باوجود نہیں بتا پاتی۔کیا آپ کو کبھی ایسا لگتا ہے۔یا آپ سب کچھ آرام سے بتا پاتے ہیں۔اور ایک اہم سوال یہ کہ آپ کو میرے ساتھ خط لکھنے کا خیال کیوں آیا؟
آخر پہ مزے کی بات یہ کہ آپ جسٹن ٹروڈو کے ملک کے باسی ہیں جو کہ میرا کرش ہے۔آپ کے خط کے ساتھ اس کی خوشبو محسوس ہوئی۔۔

اب اجازت چاہتی ہوں
سلامت رہیے۔

۲۳-اگست-۲۰۱۹

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالد سہیل کا تیسرا خط

محترمہ نوشی بٹ صاحبہ۔۔۔جسٹن ٹرودو کے دیس سے آداب۔۔۔

مجھے اس بات پر فخر ہے کہ کینیڈا کا وزیرِ اعظم جمہوریت پسند جسٹن ٹرودو ہے آمر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں۔میں جسٹن ٹروڈو سے ہی نہیں ان کے والد پیر ٹروڈو سے بھی بہت متاثر تھا وہ ایک سیاستدان ہی نہیں ایک دانشور بھی تھے انہوں نے جسٹن ٹرودو کی اچھی تربیت کی ہے۔میں جب بھی ان سے ملا تو آپ کی محبت اور چاہت کا پیغام ان تک پہنچا دوں گا۔مسکراہٹیں!

آپ کے جوابی خط کی بےساختگی اور قدرے شرارت مجھے پسند آئی۔آپ نے سوالوں کے جوابوں میں قدرے کفایت شعاری سے کام لیا ہے۔میں آپ کے بارے میں کافی کچھ جاننا چاہتا ہوں اس لیے الفاط میں فراخ دلی سے کام لیں اور مجھے اپنے بارے۔۔۔اپنے خاندان کے بارے میں۔۔۔تعلیم کے بارے میں۔۔۔اپنے خوابوں اور آدرشوں کے بارے میں بتائیں۔۔آپ نے میری سوانح پڑھ لی۔۔۔اس لیے آپ میرے بارے میں بہت کچھ جانتی ہیں ،میں آپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔لیکن اب جاننا چاہتا ہوں تا کہ ہماری دوستی ہو سکے۔۔

آپ نے دروشیوں کے ڈیرے میں پڑھا ہے کہ نوجوانی میں مَیں نے چار خواب دیکھے تھے اور پھر یہ میری خوش بختی کہ میرے چاروں خواب شرمندہِ تعبیر ہوئے۔۔۔اس لیے زندگی میں کوئی پچھتاوا نہیں۔۔۔میں نے ہر مثبت اور منفی تجربے سے کچھ سیکھنا چاہا اور اب ایک درویش کی طرح پُرسکون زندگی گزارتا ہوں۔ میرا ایک شعر ہے

؎ عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں

                              میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں

اب میں سوچوں گا کہ وہ کیا باتیں ہیں جو میں نے کسی اور کو نہیں بتائیں۔۔۔ویسے میں ایک کھلی کتاب ہوں۔میری والدہ کہا کرتی تھیں۔۔سہیل بیٹا جو باتیں چھپانے کی ہوتی ہیں آپ چھاپ دیتے ہیں۔

آپ نے پوچھا ہے کہ میں نے آپ کو خط لکھنے کا کیوں سوچا تو اس کا جواب یہ ہے کہ درویشوں کے ڈیرے کے بعد میں خطوط کی دو کتابوں پہ کام کر رہا ہوں۔ ایک انگریزی میں ایک اردو میں۔ درویشوں کے ڈیرے کا جس دوست نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ان کا نام نعیم اشرف ہے۔ ان کے ساتھ انگریزی میں خطوط کا تبادلہ ہو رہا ہے اس کتاب کا نام ہم نے LITERARY LOVE LETTERS سوچا ہے۔ اسی طرح میں ایک اردو میں کتاب ترتیب دے رہا ہوں جس کا نام ہوگا۔۔۔ادبی محبت نامے۔۔۔میں اب تک دس ادبی دوستوں سے خطوط کی وساطت سے تبادلہ خیال کر چکا ہوں جن میں سے چند ایک ۔۔۔انٹرنیٹ میگزین”مکالمہ”۔میں چھپے بھی ہیں۔ میں  نے سوچا میں اس کتاب میں آپ کی اجازت سے آپ کا تبصرہ اور آپ کے ساتھ خطوط کا تبادلہ بھی شامل کروں۔۔۔کیا خیال ہے؟

آپ سے دوستی کی طرف قدم بڑھانے والا۔۔

خالد سہیل

Advertisements
julia rana solicitors london

۲۴ اگست ۲۰۱۹

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply