• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جی آئی ڈی سی (گیس انفرا سٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس) ۔۔۔۔۔شاہد عثمان

جی آئی ڈی سی (گیس انفرا سٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس) ۔۔۔۔۔شاہد عثمان

جی آئی ڈی سی (گیس انفرا سٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس) ترمیمی آرڈیننس ۲۰۱۹ نے سیاسی منظرنامے پر خوب ہلچل مچا رکھی ہے۔ یہ نیا قانون ایک معاشی فیصلہ ہوتے ہوئے بھی غیرمعمولی سیاسی اہمیت کا حامل اس لئے بن گیا کہ

۱۔ موجودہ حکومت اپنے دعوؤں  میں ہر طرح کی سیاسی، معاشی اور قانونی رعایات دینے کی سخت مخالف ہونے کے باوجود غیر معمولی رعایت پر مبنی قانون لائی ہے، یہ ایک طرف حکومت کا اپنے منشور سے اعراض ہے تو دوسری طرف حکومت مخالفین کے دعوؤں اور ان کے اہلِ حکومت پر بدنیتی کے حوالے سےالزامات کی جیت

۲۔ حکومت کے بعض رہنما اور وزیراعظم کے بعض دوست اس سے مستفید ہونے جارہے ہیں، جس کے سبب یہ قانون “مفادات کے ٹکراؤ” سے بچنے کے اصول کو پامال کرتا محسوس ہوتا ہے

۳۔ اس قانون کے ذریعے سیس کے نام پر صنعتکاروں کی جانب سے عوام سے وصول کردہ سرکاری واجبات کو حکومتی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے خود رکھ لینے کی اجازت دے دی گئی۔ چونکہ یہ صنعتکاروں کا اپنی آمدن پر ٹیکس نہیں، بلکہ عوام سے جمع کیے گئے حکومتی واجبات ہیں، جو ملکی خزانے میں جانے تھے، لہٰذا ان کی معافی ٹیکس کی معافی سے بھی زیادہ سنگین سمجھی جا رہی ہے۔

۴۔یہ قانون مشترکہ پارلیمانی سیشن اور قومی اسمبلی کے سیشن کو اچانک ملتوی کرنے کے بعد صدارتی آرڈیننس کے  ذریعے بنایا گیا ہے، اس کے بنائے جانے کا یہ عمل حکومتی بدنیتی پر شکوک کوتقویت دیتا ہے۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع کا مؤقف یہ ہے کہ

۱۔ مذکورہ سیس کے خلاف صنعتکاروں کے عدالتی کیسوں کی وجہ سےحکومت کے اربوں روپے پھنسے ہوئے تھے، جن کا انجام نہ جانے کیا ہو تا اور کتنے سال لیتا۔ ایسی صورت میں مقدمات کی واپسی کی شرط پر نصف رقم صنعتکاروں سے فوراً نکلوا لینا ایک معقول فیصلہ ہے، بالخصوص جبکہ قومی خزانہ تقریباً خالی ہے۔

۲۔ اسی موضوع پر ایک قانون قبل ازیں عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ختم ہو چُکا، اور ایک دھیلا بھی حکومتی خزانے میں نہیں آیا (جس کے بعد قدرے بہتر نیا قانون ۲۰۱۵ میں بنایا گیا تھا، جس میں موجودہ ترمیم کی گئی ہے) اور

۳۔ سی این جی سیکٹر کی حد تک گزشتہ حکومت بھی یہ رعایت دے چُکی ہے، لہٰذا بلا وجہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

عوامی ردِّ عمل د یکھا جائے تو فی الحال، تحریک انصاف کے حامیوں سمیت، مجموعی طور پر یہ ردعمل حکومت کے خلاف ہے۔ سیاسی حوالے سے ہماری رائے بھی کافی حد تک عوام الناس کے ساتھ ہے۔ قانونی اعتبار ہم پریکٹس کرنے والے ایک وکیل کی حیثیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ

۱۔ اس بات کا امکان نہ ہونے کہ برابر ہے کہ کوئی عدالت عوام سے وصول کیے  ہوئے سرکاری واجبات کو حکومتی خزانے میں جمع کروانے سے روک کر (خواہ جزوی طور پر سہی) صنعتکاروں کو اپنی جیب میں ڈال لینے کا حکم دے سکتی ہے، اور

۲۔ عوامی اہمیت کے معاملوں کو جلد نمٹانے کی سنجیدہ کوششیں اعلیٰ  عدالتوں کو مقدمات کو جلد ختم کرنے پر قائل کر سکتی ہے ، اس سلسلے کی مایوسی جائز وجوہ پر مبنی محسوس نہیں ہوتی۔

خیر، درج بالا معروضات محض پس منظر کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔ دراصل ہم حکومتوں اور عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے سے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں۔

مہذب ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری عہدیداروں کے اپنے فرائض کی بجا آوری کیلئے کیے گئے فیصلوں پر انہیں ہر طرح کی سزا اور بازپُرس سے استثنا حاصل ہے،تاآنکہ ان کے خلاف بدنیتی کے واضح ثبوت میسر آجائیں۔ لیکن ماضی میں بھی بعض اوقات اور موجودہ حکومت میں بالخصوص استثنا کے اس قانون کو انتہائی بے وقعت کر کے رکھ دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں سیاستدان، بیوروکریٹ اور دیگر سرکاری عہدیدار کسی بھی فریضے کی ادائیگی سے بچنے کی کوششیں کرنے لگے ہیں۔ یہاں ہمیں سیاسی (اور غیر سیاسی) حکومتوں کے اپوزیشن کے خلاف کارروائی کیلئے مذکورہ استثنا سے صرفِ نظر کرنے کی عادت کو موضوع نہیں بنانا، کہ اس حوالے سے آپ اپوزیشن میں شامل الزام علیہان اور ان کے شریک ملزمان کے دفاعی (اور بعض اوقات جارحانہ) بیانات پڑھتے رہتے ہیں۔ ہمیں تو ایسے مقدمات میں تفتیشی ایجنسیوں اور بالخصوص عدالتوں کے طرزِعمل پر کچھ بات کرنی ہے۔

موجودہ جی آئی ڈی سی کیس پر فریقین (حکومت اور اپوزیشن) کے متضاد مؤقف ہمارے مطلوبہ نکتے کی وضاحت میں مدد کرتے ہیں۔ ہم دونوں فریقوں کی نیک نیتی پر شک کیے بغیر غور کریں تو ایک فریق کی رائے میں چار سال سے پھنسی آدھی رقم کی چھوٹ دے کر آدھی رقم کی فوری وصولی اور بے جا مقدمات کے جھنجھٹ سے آزادی ایک بہتر فیصلہ ہے، جبکہ دوسرے فریق کے خیال میں (اقرباپروری کے الزامات سے قطع نظر) تھوڑا انتظار اور مزید محنت کر کے عدالت کے ذریعے زیادہ یا ساری رقم کی ریکوری کی کوشش زیادہ بہتر فیصلہ ہے۔ دونوں فریقوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ ذرا سوچیے کہ ہم اگر کسی سیاسی تعصب کے بغیر خالص نیت کے ساتھ ملک و قوم کے حق میں یہی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو کیا کریں گے؟ امکان یہی ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ ایک فیصلہ کریں گے اور بعض دوسرا۔البتہ ایک اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی فیصلہ بھی اپنے طور پر قانون یا آئین کے خلاف نہیں ہوگا۔ چونکہ انسانی اذہان اپنے اپنے تجربے اور فہم کی بنیاد پر آراء بناتے ہیں، لہذا ان سے مختلف اور متضاد فیصلے بھی سرزد ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں کسی ایک فریق کو بدنیتی (اقرباپروری، کرپشن وغیرہ) کا الزام دینا جائز نہیں ہوگا۔ اس کیلئے کاروباری فیصلوں کی مثال بہت مناسب ہوگی۔ ہر بزنس مین اپنے طور پر نیک نیتی سے اچھا فیصلہ کرتا ہے،لیکن بعض اوقات اس کے فیصلے درست ثابت ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ اپنے کچھ فیصلوں کے سبب نقصان اٹھاتاہے۔ تاہم نقصان دہ فیصلوں کے پیچھے موجود نیت کی بنیاد پر اس کو سزا نہیں دی جاسکتی۔

اسی طرح ہم اگر اپنے سیاسی تعصبات سے آزاد ہو کر سوچ پائیں تو ریکوڈک، سٹیل ملز، ایل این جی، موٹروے، میٹرو، تھر کول، چنیوٹ رجوعہ، بی آر ٹی، وغیرہ کے معاملات بھی ایسے ہی فیصلوں پر مبنی ہو سکتے ہیں جو متعلقہ ارباب اختیار نے بدنیتی کے بغیر کیے ہوں، لیکن جو عدالتوں، نیب یا دیگر اداروں اور مخالف سیاسی گروہوں کی نظر میں غلط ہوں۔ مگر بدقسمتی سے فی الحال سیاسی منظر نامے پر صورتحال یہ ہے کہ مخالفین کا ہر فیصلہ بدنیتی کی بنیاد پر مبنی قرار پاتا ہے۔ اور مزید بد قسمتی یہ کہ عدالتیں اور تفتیشی ایجنسیاں حقیقی معاملات کو گہرے طور پر سمجھے بغیر محض فریقین کے وکیلوں کو سُن کر اپنے فہم کے مطابق فیصلے بھی کرتی چلی جاتی ہیں۔

انصاف کی فراہمی کے عمل میں ایک چیز ہوتی ہے “ماہرانہ راۓ”۔ جسمانی جرائم کے حوالے سے میڈیکل ایگزیمینیشن اور پوسٹ مارٹم وغیرہ برطانوی دور سے تفتیشی اور عدالتی عمل کا ناگزیر حصہ بن چُکے ہیں، جن سے انصاف پر مبنی فیصلوں تک پہنچنے میں خاطر خواہ مدد لی جاتی ہے۔ لیکن قومی معیشت کے مذکورہ بالا اہم ترین معاملات میں شاید ہی کسی تفتیشی ایجنسی یا عدالت نے کبھی ماہرانہ رائے حاصل کرنے کی زحمت کی ہوگی۔ ایک معاشی فیصلے کیلئے ایک یا زیادہ معیشت دانوں کی رائے لئے بغیر کسی تفتیشی ایجنسی کا کوئی فوج داری قانون کا ایکسپرٹ افسر آخر کیا رائے بنا سکتا ہے؟ ایک جج جس کی تعلیم، پریکٹس اور ملازمت میں اکنامکس اپنی معنویت کے ساتھ کبھی زیر مطالعہ آئی ہی نہیں، کیسے محض وکلاء کے بنائے بریف اور ان پر مبنی بحث یا قانونی نظیروں کی بنیاد پرقابل تقلید و تعریف فیصلے کر سکتا ہے؟اصولاً ہر منفرد نوعیت کے کیس، خاص طور پر قومی اہمیت کے حامل معاشی موضوعات پر کیسز، کیلئے مختلف حیثیتوں کے معاشی ماہرین سے رائے لئے بغیر مقدمات کی تفتیش کرنے اور ان پر عدالتی فیصلے دینے کو ایک غیر ذمہ دارانہ رویئے سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔

لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے صاحبانِ اختیار بزعمِ خویش ہر فن مولا مخلوق ہیں۔ ہر تفتیشی افسر اور ہر جج ہر موضوع پر اپنے آپ کو اتھارٹی سمجھتا ہے۔ اور اگر دوران تفتیش یا کورٹ روم میں ان کی توجہ کسی معاملے پر “ماہرانہ رائے” لئے جانے کی ضرورت کی طرف مبذول کرائی جائے تو ان کی گھورتی آنکھوں اور خفا لہجے سے فوری پیغام مل جاتا ہے کہ “ہماری قابلیت پر شک کرنے پر تمہیں لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں”۔ ایسی صورتحال میں اکثر تفتیشیں عدالتوں میں ٹھہر نہیں پاتیں اور بہت سے عدالتی فیصلے ماہرین اور عوام الناس کے مذاق کا نشانہ بنتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری رائے میں ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ حکومتوں اور سرکاری عہدیداروں کے ایسے اقدامات جن پر ایک سے زیادہ قسم کی آراء ممکن ہوں جب تفتیش میں یا عدالتوں میں آئیں تو متعلقہ تفتیشی اور عدالتی افسران اس بات کے پابند ہوں کہ وہ ان معاملات پر ماہرانہ رائے حاصل کیے بغیر اپنے نتائج نہ نکالیں۔ جہاں کوئی معاملہ غیر مبہم طور پر ماہرانہ رائے کے بغیر حل ہو سکتا ہو، یا جہاں کسی بھی وجہ سے تفتیشی یا عدالتی افسر ماہرانہ رائے کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو، وہاں ایسا افسر اپنی رائے کو تحریری طور پر دلائل کے ساتھ اپنے فیصلے کا حصہ بنانے کا پابند ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”جی آئی ڈی سی (گیس انفرا سٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس) ۔۔۔۔۔شاہد عثمان

Leave a Reply to عزیز ابن الحسن Cancel reply