• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یونیفارم والے قاتلوں کے گینگ سے مُردے صلاح الدین کا سوال۔۔۔۔رمشا تبسم

یونیفارم والے قاتلوں کے گینگ سے مُردے صلاح الدین کا سوال۔۔۔۔رمشا تبسم

یہ دنیا ہم جیسے کئی  انسانوں کے لئے اب رہنے کے قابل نہیں یا شاید ہم ہی اس دنیا میں رہنے کے قابل نہیں کیونکہ ظلم و جبر , زیادتی قتل و غارت کے دور میں ایک عام آدمی واقعی ہی اپنے عام سے اصولوں اور طریقوں کے ساتھ نہ جی سکتا ہے نہ ہی حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

ہمیں زندگی میں کسی نہ کسی صورت ڈاکٹرز, وکلاء اور پولیس سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔یہ یونیفارم پہنے ہمارے مسیحا ہیں۔ڈاکٹرز انسانی جانوں کےمحافظ ہیں۔وکیل قانون کو سمجھنے اور قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ہیں۔پولیس ہر طرح سے ہماری جان و مال کی محافظ اور امن قائم رکھنے کے لئے کوشاں ہے۔
مگر ٹھہریئے ! کیا یہ واقعی ہی ہمارے مسیحا ہیں یا انہی یونیفارم میں چھپے اکثر افراد ایسے بھیڑیے ہیں جو موقع پا کر آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں؟

ڈاکٹرز غیر قانونی طور پر آپ کے گردے نکال کر بیچتے ہیں۔اپنی کمیشن کی خاطر آپ کو گھٹیا ادویات استعمال کرواتے ہیں۔موقع پا کر آپ کے نومولود بچوں کو غائب کروا کر بیچ دیتے ہیں۔لاپرواہی میں آپریشن کے دوران آپ کے جسم میں قینچی مختلف اوزار چھوڑ دیتے ہیں۔ڈاکو بن کر بھاری فیس وصول کرتے ہیں۔پرائیویٹ کلینک کھول کر آپ کو لوٹتے ہیں۔اکثر ہسپتالوں میں موقع پا کر عورتوں کی عزتوں کو تار تار بھی کرتے ہیں۔انسان ان کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر رہا ہوتا ہے اور یہ بہت آرام سے ہنسی مذاق میں مصروف رہتے ہیں۔مریض کے اہل خانہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ مریض کو ایک اوبجیکٹ اور سبجیکٹ کی طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں۔غلط انجیکشن لگا کر بہت آرام سے آپ کے کسی پیارے کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔لاپرواہی میں آپ کے عزیز کی جان لے کر آ کر کہتے ہیں سوری ہم جان نہیں بچا سکے۔آپ انکی لاکھوں روپے  فیسیں ادا کر دیں پھر بھی آپ کو اجازت نہیں ہوتی کہ ان سے سوال کر سکیں۔غلط کمپنیوں سے منافع حاصل کرنے کی خاطر انکی ادویات اور مختلف نقصان دہ اشیاء مریضوں کو تجویز کرتے ہیں۔ڈاکٹرز گردی سے آئے دن ہمارا سامنا ہوتا ہے اور ہم بے بس اور مجبور ہیں۔

وکلاء برادری قانونی معاملات میں معاون ثابت ہونے کی بجائے قانون کو چند روپے کی خاطر بیچتی نظر آتی ہے۔لڑکیوں کی عزت تار تار کرنے ان پر تیزاب پھینکنے والوں کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔پیسے کے عوض قاتلوں کو بچا لیتے ہیں۔چند روپے کی خاطر کسی مجبور طوائف سے زیادہ اپنا ایمان اور ضمیر بیچتے نظر آتے ہیں۔قانون کے دائرے میں رہ کر قانون کا دائرہ مجرموں کے لئے وسیع کرتے ہیں اور لاقانونیت کا مجرہ کرتے نظر آتے ہیں۔نہ انکا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ ایمان نہ احساس نہ ہی انسانیت۔صرف پیسہ انکا مذہب ہوتا ہے اور اس پیسے کی خاطر ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد کو بچانے کو کھڑے ہو جاتے ہیں۔وکلاء گردی اب معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

یہ ممکن ہے کہ  تمام کائنات اسی لا قانونیت کا شکار ہو۔ہر جگہ قتل و غارت ہوتی ہے۔ہر جگہ قانون توڑا جاتا ہے۔مگر کیونکہ ہم پاکستان میں مقیم ہیں  لہذا ہمیں یہاں ہونے والے ظلم و ستم زیادہ پریشان کرتے ہیں۔جب کوئی انسان اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کا جواب خود دیتا ہے اور قانون ہاتھ میں لیتا ہے تو ہم سب اور ریاست اسکو قانون سے رجوع کا مشورہ دیتی ہے اور ہم اسی بات کا پرچار کرتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے ہر معاملہ قانون کے دائرے میں رہ کر حل کرنا چاہیے۔مگر قانون جب خود ہی قاتلوں کی پشت پناہی کرے انکے ہاتھ کا کھلونا بن جائے یا اندھا ہو جائے تو پھر ایسے میں ہر طرف ہر شخص اپنا بدلہ خود لیتا نظر آئے گا۔عام آدمی کو قانون توڑنے سے منع کیا جاتا ہے مگر جب قانون کسی ملزم یا مجرم پر  تشدد کر کے سانسوں کی ڈوری توڑ دے تو ایسی صورت میں ان پر کونسا قانون لاگو ہوتا ہے؟ معاشرے میں غنڈہ گردی سے زیادہ خطرہ اب پولیس گردی سے ہے۔غنڈوں سے مقابلہ کرنے کے لئے انسان ہاتھ پاؤں استعمال کر سکتا ہے مگر پولیس گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی میں نہ ہمت ہے نہ ہی مقابلے کی سکت۔پولیس بہت آرام سے کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔قاتلوں کی پشت پناہی کر سکتی ہے مجرموں کو پیسے کے عوض آزاد کروا سکتی ہے۔معصوموں کو پیسے لے کر گرفتار کر سکتی ہے۔تشدد کر کے جرم منوا سکتی ہے۔معاشرے میں اکثر جرائم پیشہ افراد پولیس گردی کا نتیجہ ہی ہوتے ہیں انکے بے جا تشدد کسی عام سے ملزم یا مجرم کو بہت بڑا قاتل بنا سکتے ہیں۔عورتوں کی عزتیں بھی خراب کرتے ہیں۔جس کو مرضی جہاں مرضی پولیس مقابلے  میں مار سکتے ہیں پھر دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں۔۔پولیس مجرموں کے ساتھ مل کر مظلوموں پر پرچے کاٹ سکتی ہے۔قاتلوں اور مجرموں کے ہاتھ کا لٹو بن کر ہمہ وقت ان کے اشاروں پر گھومتے ہیں۔کئی انسانی جانیں پولیس کے ہاتھوں ضائع ہو چکیں ہیں کئی معصوم انکا ٹارچر نہ سہتے ہوئے مر چکے ہیں۔مگر یہ کسی کو جواب دہ نہیں۔

یہ یونیفام والا گینگ جس میں ڈاکٹرز, وکیل اور پولیس شامل ہیں کام کیسے کرتا ہے؟

پولیس سے کوئی دورانِ تفتیش مر جاتا ہے یا کسی سے پیسے لے کر پولیس نے کوئی رپورٹ تبدیل کروانی ہو تو ڈاکٹرز معاون ثابت ہوتے ہیں۔ڈاکٹرز بہت آرام سے پولیس کو انکی مرضی کی میڈیکل رپورٹ تیار کرو ادیتے ہیں۔پھر وکیل چند پیسوں کے عوض انکو بچانے کے لئے میدان میں آ جاتے ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹرز کی کسی غفلت خواہ وہ کسی کو غلط انجیکشن دے کر مارنا ہو یا کسی بھی قسم کی غلطی پر پولیس مدعی کا ساتھ دینے کی بجائے ڈاکٹرز کی معاون ثابت ہوتی ہے۔وکلاء کا کردار یہاں بھی اپنا ضمیر پیسوں کی خاطر بیچتا نظر آتا ہے۔وکلاء کی کسی قسم کی غلطی یا جرم پر میڈیکل رپورٹ میں ڈاکٹرز اور تفتیش میں پولیس برابر کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔یہ وردی والا گینگ ہر صورت آپ کو پیسوں کے عوض اپنی وردی بیچتا ہوا نظر آئے گا۔ان کے منہ کو صرف پیسہ لگ چکا ہے اور اسی پیسے کے پیچھے یہ رالیں ٹپکاتے اور دم ہلاتے تا حیات بھاگتے پھرتے ہیں اور قانون اور اپنے پیشے کی عزت خود لوٹتے نظر آتے ہیں۔ چند روپے کی ہڈی انکے آگے ڈال دی جائے تو یہ انسانیت کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔اور اگر سوچا جائے تو یہ وہ قانون کے دلال ہیں جو چند پیسوں کے عوض معاشرے میں ہر طرح کے ظلم و ستم پر یونیفارم بیچ کر نوٹ وصول کرتے ہیں۔
مرنے والا صلاح الدین کئی سوالات اس گینگ کے لئے چھوڑ گیا ہے۔۔
انسانوں کو مارنے کا طریقہ کہاں سے سیکھا؟
انسانوں کو مار کر ضمییر فروشی کہاں سے سیکھی؟
انسانوں کو مار کر پیشے سے غداری کہاں سے سیکھی؟
انسانوں کو مار کر ان لاشوں کے عوض روپیہ وصول کرنے کا طریقہ کہاں سے سیکھا؟
انسانوں کو مار کر ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا کہاں سے سیکھا؟

جان کی امان پاؤں تو ایک اور سوال مُردہ صلاح الدین پوچھ رہا ہے۔
کہ جسم فروشی تو مجبوری ہو سکتی ہے مگر وردی فروشی, پیشہ فروشی, انسانیت فروشی کے پیچھے کیا راز ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:پولیس گردی, وکلاء گردی اور ڈاکٹر گردی اور اس تحریر میں اس پیشے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد شامل نہیں بلکہ صرف اپنے عہدے اور قانون کا غلط استعمال کرنے والے شامل ہیں۔باقی ان پیشوں میں کچھ مسیحا جو اب بھی موجود ہیں انہی کی بدولت انسانیت پر کچھ بھروسہ قائم ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”یونیفارم والے قاتلوں کے گینگ سے مُردے صلاح الدین کا سوال۔۔۔۔رمشا تبسم

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم !
    رمشا جی !آپ کا کہنا بالکل بجا ہے ۔۔۔۔ کہ یہ معاشرہ
    Heart less ہے ۔۔۔ بے حس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کی جگہ شاید کوئی سنگ جڑا ہے ۔۔۔۔ لیکن نہیں قرآن پاک میں ہے کہ کچھ سنگ (پتھر ) ایسے ہیں جن پر پانی پڑتا رہے تو ان میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے ۔۔۔ بلکہ ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہیں ۔۔۔۔ ان کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے ۔۔۔ ان کو یہ سب سیکھنے کے لیے باقاعدہ کسی ٹرینیگ کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ یہ صرف مردہ ضمیر کے ساتھ یزیدیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ۔۔۔۔ بھیڑیے ہیں ۔۔۔۔ جو بس پیسے کی لالچ میں رال ٹپکاتے ہوئے کسی بھی انسان کو بھنبھوڑنے کے لیے تیار ملیں گے ۔۔۔۔ پیسہ پھینک تماشا دیکھ ۔۔۔ . . ہر شعبہ کا اب نعرہ اور کلمہ بن چکا ہے۔۔ جن کا دین بھی پیسہ اور دنیا بھی ۔۔۔۔ ڈاکٹر گردی ۔۔۔ وکلاء گردی ۔۔۔غرض پولیس گردی کی یزیدیت کے شکار ہوئے ہر اس فرد سے میں دلی طور پر شرمندہ ہوں کہ میں اس معاشرے کا حصہ ہوں جہاں اسلام کو فروغ دینے کی بجا ئے یزیدیت کا ساتھ دھڑلے سے دیا جاتا ہے ۔۔۔۔ اور ہم سوائے مذمت کے ان کے لیے کچھ نہیں کر سکے ۔۔۔ میری ۔۔ اللہ رحمن ورحیم سے دعا ہے کہ وہ اس سنگدلی کا شکار ہونے والوں کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔۔۔ اور ان یزیدوں کو نیست ونابود کر دے ۔۔۔۔۔ آمین یا رب رحیم ۔۔۔ یا مالک ومولی !پاکستا ن اور اس میں رہنے والے ہر پاکستانی کو اپنی اماں میں رکھنا ۔۔۔۔ آمین

Leave a Reply