• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • پاکستان میں شیعہ نسل کشی- ایک جائزہ محمد عامر حسینی کی کتاب کا۔۔۔عامر کاکازئی

پاکستان میں شیعہ نسل کشی- ایک جائزہ محمد عامر حسینی کی کتاب کا۔۔۔عامر کاکازئی

آج کل پاکستان میں ہر طرف کشمیریوں کی نسل کشی کا چرچہ ہے۔ کیا پاکستان آبِ زم زم سے دھویا ہوا ہے؟کہ ادھر کچھ بھی نہیں ہوا۔۔ آئیے پڑھتے ہیں ایک باب جناب عامر حسینی صاحب کی کتاب پاکستان میں شیعہ نسل کشی سے۔

پاکستان میں شیعہ برادری کی منظم ٹارگٹ کلنگ 1990 سے شروع ہوئی ، اور تیس سال ہو چکے ہیں، ابھی تک جاری ہے۔ اس دوران شیعہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں، مسجدیں، مذہبی تقریبات، محرم کے جلوس ہوں یا عاشورہ کی مجالس ، سب کو نشانہ بنایا گیا۔ کچھ مہینے کے بچے سے لے کر سوسال کے بوڑھے، تک کو نہیں چھوڑا۔ گو کہ یہ سلسلہ جنرل ضیا کے زمانے سے شروع ہوچکا تھا مگر اس میں تیزی 1990 میں افغانستان اور کشمیر میں پاکستانی ریاست کی سٹریٹجک ڈیپتھ کے نام پر جاری دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی کی وجہ سے ممکن ہوا۔

اسی کی دہائی میں جب سی آئی اے (جنہوں نے ڈرگ منی اور بلیو فلموں سے فنڈ جنیریٹ کیاتھا) اور سعودی فنڈ سے افغان فساد (جہاد) شروع ہوا تو ساتھ ہی دیو بندی فرقہ میں ایک نئے فرقے کی بنیاد پڑی جس کی فنڈنگ سعودیہ نے کی۔ جس نے باقائدہ شیعہ دشمنی کی بنیاد رکھی۔ اس بات کی تصدیق کچھ دن پہلے پرنس محمد بن سلمان نے بھی کی کہ “ہم نے امریکہ کی رضا مندی سے پوری دنیا میں وہابیت کو فروغ دینے کے لیے اپنے مدرسے قائم کیے”۔ پاکستان میں قائم ان مدرسوں نے جی بھر کے شیعہ کے خلاف پروپیگنڈا کیا۔ اور اسی پروپیگنڈا کے زیر اثر یہ نسل کشی ہوئی ۔

اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 22 ہزار شیعہ ٹارگٹ کلنگ ، خود کش دھماکوں، کا نشانہ بنے ہیں۔ ان دہشتگرد تنظیموں میں سپاہ صحابہ ، اہل سنت و الجماعت ، لشگر جھنگوی ، جماعت الاحرار اور داعش خراسان شامل ہیں۔بقول پروفیسر امریتا سین کے یہ سلو جینوسائیڈ ہے۔

ان دہشتگرد تنظیم آخر کیوں اس ظالمانہ عمل میں مصروف ہیں؟ سادہ سا جواب اس کا یہ ہے کہ ان کی آئیڈیالوجی جس کو عرف عام میں تکفیریت کہتے ہیں، کی وجہ سے یہ اس گھناؤنے عمل میں ملوث ہیں۔
اب یہ تکفریت کا مطلب کیا ہے؟ تکفریت کے معنی ہیں، کسی مسلمان کمیونٹی کو مرتد قرار دے کر اس کے قتل کا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ تکفریت ایک قسم کا فاشزم ہے، جس کا مقصد شیعہ مسلم بھائیوں کا آہستہ رو قتل اور اس کے نتیجے میں ان کو محدود کرنا ایک مخصوص علاقے میں۔ان کو ہجرت پر مجبور کرنا اور ان میں خوف اور دہشت پھیلانا کہ وہ اپنی شناخت سے محروم ہو جائیں۔ کچھ ایسا ہی ہٹلر نے کیا جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ۔۔

پاکستان کے ہر علاقے میں یہ دہشتگرد موجود تھے مگر بقول عائشہ صدیقی کے لشکر جھنگوی اور دیوبندی نیٹ ورک شمالی اور جنوبی پنجاب میں پھیلا ہوا تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ میں جنوبی پنجاب کے ایسے دیہاتوں میں گئی جہاں لوگ جیش محمد اور لشکر جھنگوی کی پیروی کر رہے تھے۔ یہ لوگ شیعہ اور بریلوی شناخت والے مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔ بریلوی کو بے وقوف تصور کرتے تھے اور شیعہ کو واجب قتل۔

سنی اسلام میں دیوبندی سلفی ایک بہت چھوٹی سی اقلیت ہے، جو ارادی طور پر اپنے سخت عقائد کی وجہ سے الگ تھلک رہنا پسند کرتی ہے۔ ان کے سخت عقائد ان کو جدید مین سٹریم معاشروں کے ساتھ ٹکراؤ میں لاتے ہیں۔
اس نسل کشی میں سب سے افسوسناک بات ہے ہمارے دائیں بازو کے دانشوروں کا رویہ۔ وہ اس بات کو ماننے پر تیار ہی نہیں کہ یہ نسل کشی ہے۔ جب بھی بات کی جائےفوراً یہ کہہ کر بات دبائی جاتی ہے کہ نہ نہ شیعہ نہ کہو بلکہ یہ کہو کہ پاکستانی مارا گیا ہے۔ یا اس کو جھٹ سے فرقہ واریت کے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ شیعہ شناخت کو کیوں اجاگر کرتے ہو۔

دوسری افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جہاں ان کو پوری سپورٹ دی وہاں ان کے حتمی ٹرائل سے بھی ہچکچاہٹ دکھاتی رہی۔ دوسری طرف مین سٹریم میڈیا نے بھی درست پکچر دکھانے سے گریز کیا۔

اب آخر میں ہمارا سوال یہ ہے کہ جموں کشمیر کے تقریباً 14فیصد شیعہ مسلمان جو کہ بیس لاکھ کی تعداد میں ہیں،کیا وہ ذبح ہونے کے لیے پاکستان کے ساتھ شامل ہوں؟

(تاریخ کو درست رکھنے کے لیے کہ کشمیری دہشتگردوں نے کشمیری شیعہ کے ساتھ کیا کیا؟ یہ پڑھ لیجیے۔ چرار شریف کی درگاہ میجر مست گل نامی جماعت اسلامی کے دہشتگرد نے جلائی / انت ناگ میں لشکر طیبہ والوں اور العمر مجاہدین نے شیعہ برادری کی تقریبات و مجالس بند کروائیں ۔)

Advertisements
julia rana solicitors

جناب محمد عامر حسینی کی کتاب “پاکستان میں شیعہ نسل کشی— افسانہ یا حقیقت ” سے ایک انتخاب

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply