عمیرہ احمد کے ناول والی ہاؤس آفیسر۔۔۔ڈاکٹر مدیحہ الیاس/قسط3

آج او-ٹی ڈے تھا اور اسے صبح جلدی وہاں پہنچنا تھا۔اس نے سلک کی رایئل بلیو او-ٹی کٹ پہنی, جس کے دامن پہ تلے کا نفیس کام ہوا تھا, مالٹا رنگ کے ہیل والے crocs پہنے اور ہاسپٹل کی طرف دوڑ لگا دی, آدھے راستے میں وہ ماچس کی ڈبی سے ٹھوکر کھا کے بری طرح زمین پر گر گئی۔۔وہ کچھ لمحوں کیلئے حواس باختہ رہی۔ جب ہوش آیا تو پانچ فٹ دور سڑک پہ اسے اسکی fibula پڑی نظر آئی۔۔مگر اس کے پاس اسے واپس فکس کرنے کا ٹائم نہیں تھا۔وہ پہلے ہی 5 millisecond لیٹ ہو چکی تھی۔ لہذا اس نے fibula اپنے backpack میں رکھی اور پھر او-ٹی کی طرف چل دی۔وہ ایک با ہمت لڑکی تھی۔۔

اس ایکسیڈنٹ کے بارے میں وہ کسی کو ذرا بھی محسوس نہیں کروانا چاہتی تھی لہذا چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ لیے وہ تھیٹر میں داخل ہوئی۔
اسکا پی جی ہلکے پیلے رنگ کی کٹ پہنے, ہاتھ میں لسی کا گلاس لیے او-ٹی-اے سے باوقار انداز میں جھگڑ رہا تھا کہ وہ لسی کے ساتھ ڈبو کے کھانے کیلئے prince chocolate بسکٹ کیوں نہیں لایا۔۔اپنے پی جی کو غصے میں دیکھ کے وہ ہانپ گئی۔ جلدی سے فینایئل سے واش اپ ہوئی اور تھیٹر میں چلی گئی۔۔مریض شفٹ ہو چکا تھا, مگر بیہوشی والے ڈاکٹر کی تشریف کی چھوٹی ٹوکری  ابھی تک موصول نہیں ہوئی تھی۔۔

وہ پی جی کو مزید غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی۔۔ لہذا forceps پکڑ کے چینجنگ روم میں گئی اور چپکے سے پی جی کے شوز سے ایک موزا hold کر کے لے آئی۔۔ جیسے ہی اس نے وہ طلسمی موزا مریض کی ناک کے قریب کیا, مریض under ہو گیا۔۔اور وہ موزا واپس رکھنے کے بعد پھرتی سے مریض کو paint drape کرنے لگی, اس نے pyodine میں چند قطرے harpic کے بھی ڈال لیے تھے تاکہ ایک پرسنٹ جراثیم بھی نہ بچے۔۔ وہ ایسی ہی صفائی پسند تھی۔

یہ ایک آسان کیس تھا۔۔اسے hepatogastropancreatectomy کے ساتھ colonojejunoduodenectomy کرنی تھی. اس کے ساتھ اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ nephrectomy اور cystectomy بھی کر دے گی۔۔تاکہ مریض کو کبھی بھی کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔۔
سب تیاری کرنے کے بعد اس نے آپا کے ذریعے پی جی کو بلاوہ بھیجا, مگر وہ ایک انتہائی critical کیس ڈیل ہوتا دیکھ رہا تھا, ڈرامہ سیریل ”ساس بھی کبھی بہو تھی” میں ساس نے بہو کے کھانے میں دو کلو نمک ڈال دیا تھا۔۔۔تشویش کا سلسلہ منقطع نہ کرتے ہوئے اس نے آپا سے بولا کہ ڈاکٹر صاحبہ سے کہیں پروسیجر شروع کریں, کوئی بھی مسئلہ ہوا تو او-ٹی-اے سے پوچھ لیں۔۔

اس نے رب ذوالجلال کا نام لیتے ہوئے آپریشن شروع کیا۔بیس منٹ پندرہ سیکنڈ میں وہ abdomen کے تمام اعضاء نکال کے کولوسٹمی بیگ سلائی کرنے چلے گئی ۔ ساتھ میں یورن بیگ بھی بنا کے لے آئی۔۔وہro active ideology کی قائل تھی۔

پروسیجر مکمل ہوتے ہی اس نے پچاس شکرانے کے نوافل ادا کیے اور دھیرے سے مریض کی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر  مشفقانہ لہجے میں متکلم ہوئی ۔۔ ”باباجی, آنکھیں کھولیں ” بابا جی کے لب ہلے, مسکراہٹ نمودار ہوئی, آہستہ آہستہ انھوں نے آنکھیں کھول کے تشکر آمیز نگاہوں سے اسے دیکھا, اور کانپتا ہوا ہاتھ اس کے سر پہ رکھ کے بولے ” جیتی رہو بیٹی ” بابا جی کے یہ الفاظ اسکی کل کمائی تھے اور ان کے چہرے کا سکون اسکے قلب کا اطمینان بڑھانے کیلئے کافی تھا۔۔

پیشنٹ آؤٹ کرنے کےبعد ڈی واش ہو کے وہ پی جی کو اپڈیٹ کرنے کیلئے پی جی آفس گئی, وہ ریموٹ ہاتھ میں دبائے آنکھیں بند اور منہ کھول کے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔۔ اس کے پی جی کی دید اسکی عید ہوتی تھی ۔وہ ہلکے سے مسکرائی اور دروازہ بند کر کے او-ٹی کے کونے میں بیٹھ کے ڈھیروں میٹھے خواب آنکھوں میں سجائے اپنی fibula فکس کرنے لگی۔۔۔ آج پھر اس نے اپنے پی جی کو cover دیا تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مدیحہ الیاس
الفاظ کے قیمتی موتیوں سے بنے گہنوں کی نمائش میں پر ستائش جوہرشناس نگاہوں کو خوش آمدید .... ?

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply