رٹو طوطے۔۔۔۔نادیہ عنبر لودھی

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے – اس تنزلی کا سب سے زیادہ شکار تعلیم کا میدان ہے -نصاب برسوں پرانا رائج ہے -وہی گھسے پٹے طریقے ہیں -یہاں گریڈز اہم ہیں لہذا رٹو طوطے کامیاب ہیں -شوقیہ پڑھنے  والوں کو کسی یونی ورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا کیونکہ وہ رٹو طوطے نہیں ہوتے -یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کوئی یونی ورسٹی ورلڈ رینکنگ (بین الاقوامی یونی ورسٹیوں کی لسٹ ) میں پہلے دس نمبروں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی –

طب کے میدان میں بھی یہی حال ہے -کروڑوں روپے انٹری ٹیسٹ کے ضمن میں کمائے جاتے ہیں -ڈاکٹری کی ڈگری لینے والوں کا میعار آج دنیا میں پست ترین ہے -ایک ریسرچ کے مطابق پاکستانی ڈاکٹرز کو مہنگا اور نکماترین قرار دیا جا چکا ہے -کیونکہ تعلیم کاروبار بن چکی ہے –

پاکستانی یو نی ورسٹیوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول پر انٹری ٹیسٹ کے نام پر لاکھوں کی کمائی کو وطیرہ بنایا ہوا ہے جب کہ یہ داخلہ صرف اپنی یونی ورسٹی کے سابقہ سٹوڈنٹس کو دیتے ہیں -یعنی اپنی کلاس کو ہی آگے لے کر جاتے ہیں پھر سفارشی امیدواروں کو بھی تو داخلہ دینا ان کے فرائض میں شامل ہے – ہاں ! سفارش مگر وائس چانسلر کی ہونی چاہیے – انٹر ویو لسٹ میں چند گھنٹےکے بعد تین چار امیدوار مزید شامل کر دیے جاتے ہیں – پنسل سے نمبرنگ کی جاتی ہے -پھر نیچے والے سفارشیوں کو لسٹ میں اوپر لایا جاتا ہے – اب رٹو طوطوں کی باری ہے -اے پلس گریڈ لینے والے یہ طالب علم رٹے مار کے اے پلس گریڈ لے لیں گے لہٰذا ان کو انٹرویو میں صرف نام اور جی پی اے پوچھا جاتا ہے -لیجیے اردو زبان کی طرح ملواں لسٹ تیار ہے – کھچڑی زبان کے امیدواروں کی کھچڑی لسٹ تیار ہے – تخلیقی اور زرخیز ذہن کے مالک افراد کو یہ داخلہ نہیں دیں گے کیونکہ ذہانت ان کا معیار نہیں ہے – ان کا معیار ان جیسے لکیر کے فقیر ہیں جن کے سامنے ان کے علامہ ہونے کا پول نہ کھل سکے –

ایسے فارمولوں پر عمل کے باوجود ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑ تا ہے -آئے دن ان نام نہاد جامعات جہاں تعلیم نہیں کاروبار کیا جاتا ہے -ان میں اعلی تعلیمی ڈگریوں کے پروگرامز پر H E C کی طرف سے پابندی لگ جاتی ہے – دو تین سال کا عرصہ ان کا فیسوں کا کاروبار بند ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے رٹو طوطے طالب علم تھیسس اور کریڈٹ آورز مکمل نہیں کر پاۓ پھر یہ سلسلہ دوبارہ جاری ہوجاتا ہے –

رٹو طوطے ڈگری لے کر تعلیمی میدان میں استاد بھرتی ہوجاتے ہیں -سینئر سبجیکٹ ٹیچر بن جاتے ہیں اور مزید رٹو طوطے پیدا کرتے ہیں – ہر انسان جو دنیا سے لیتا ہے وہی لوٹاتا ہے – سرکاری اسکولوں کے تعلیم یافتہ احساس کمتری کے مارے رٹو طوطوں سے جو انہوں نے سیکھا ہے وہی اگلی نسل کو منتقل کریں گے – یہاں نہ نظام بدلے گا نہ پاکستان سنورے گا – جو انسان ہر میدان میں ناکام ہوجاتا ہے وہ پاکستان میں استاد بن جاتا ہے اور قوم کی تعمیر کا ٹھیکے دار بن جاتا ہے – جیسے استاد ویسی قوم –

Advertisements
julia rana solicitors

پڑ ھے لکھے جاہلوں کی رٹو طوطا جماعت – یہ ہیں مستقبل کے معمار –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply